کے پی اسمبلی: تحریک انصاف کی حکمت عملی ہے کیا؟

سیاست تصادم کا نام نہیں، یہ حکمت کا نام ہے۔ سیاست انا کے گنبد میں قید ہونے کا نام بھی نہیں ہے، یہ بقائے باہمی کا نام ہے۔ یہ بند گلی میں ٹکریں مارنے کا نام نہیں، یہ اس میں سے راستے نکالنے کا نام ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور حامی 28 فروری 2024 کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں حلف برداری کی تقریب کے دوران پارٹی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف جہاں کیلے کا چھلکا دیکھتی ہے، پھسل کر گرنے کو مچل جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ معاملہ کیا ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ انتخاب ملتوی ہوچکا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا کے پی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو اس سے قبل قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کی تھی؟

اگر اسی رویے پر اصرار ہی تحریک انصاف کی حکمت عملی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے، سامنے اندھی اور گہری کھائی کے سوا کچھ نہیں۔

قاسم سوری پابند تھے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کراتے۔ یہ آئینی ذمہ داری تھی۔ لیکن انہوں نے آئین کو اٹھا کر ایک کونے میں پھینکا اور عدم اعتماد کو رد کر دیا۔ ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہ تھا۔

یہ صریح آئین کی پامالی تھی اور بعد میں سپریم کورٹ نے کہا بھی کہ قاسم سوری ملک میں آئینی بحران کی وجہ بنے، کیوں نہ ان کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی کا حکم دیا جائے۔

آرٹیکل چھ کی کارروائی البتہ ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت کا استحقاق ہے تاہم یہ طے ہے کہ قاسم سوری نے جو کیا اس کی کوئی آئینی اور قانونی توجیہہ نہیں تھی اور یہ آئین سے انحراف تھا۔

اب خیبرپختونخوا اسمبلی میں یہی ہو رہا ہے۔ مخصوص نشستوں پر کچھ لوگ کامیاب قرار دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ اب ان سے حلف لیا جانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

سپیکر نے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر گورنر نے سپیکر کو خط لکھا کہ حلف لیا جائے۔ سپیکر نے اس خط کو بھی عملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ حزب اختلاف عدالت چلی گئی۔ عدالت نے بھی حکم دے دیا کہ سپیکر ان اراکین سے حلف لیں لیکن سپیکر نے عدالتی حکم بھی پامال کر دیا۔ مزاج یار کو آئین، قانون، عدالت کچھ بھی پسند نہیں آ رہا۔

یہ معاملہ بھی ویسا ہی سنگین ہے جیسا قاسم سوری والا معاملہ تھا۔ جب یہ معاملہ عدالت میں گیا تو پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ آئین اور قانون کا معاملہ ہے۔ گویا یہاں بھی سپیکر اسی طرح آئین شکنی کا ارتکاب کر رہے ہیں جیسے قاسم سوری نے عدم اعتماد والے معاملے میں کیا تھا۔ عدالتی کارروائی کی تفصیل دیکھیں تو یہ معاملہ اچھی طرح سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔

عدالت نے سپیکر کے وکیل سے دریافت کیا کہ کیا سپیکر آئین اور قانون پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے اور کیا وہ مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے حلف نہیں لینا چاہتے؟

یہ سوال اپنے اندر ایک جہان معنی لیے ہوئے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپیکر کا ان اراکین سے حلف نہ لینا آئین سے انحراف ہے۔ وہ ایک ایسا کام کرنے سے انکار کر رہے ہیں جو آئین کی رو سے ان کی ذمہ داری ہے۔ یعنی سادہ لفظوں میں، ایک درجے میں یہ آرٹیکل چھ کا کیس ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے قاسم سوری کے معاملے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ یہ آئین شکنی کا معاملہ ہے اور آئین شکنی کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

عدالتی حکم بھی آ گیا لیکن سپیکر نے پھر بھی حلف لینے سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کے پی اسمبلی میں سینیٹ کے لیے ووٹنگ نہ ہو سکی۔ الیکشن کمیشن کو انتخاب ملتوی کرنا پڑا۔ عملہ واپس چلا گیا۔ آئینی بحران کھڑا کر دیا گیا بالکل ایسا ہی جیسا عدم اعتماد کے وقت کھڑا کر دیا گیا تھا۔

اب یہ آئین شکنی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کا مقدمہ بھی ہے اور توہین عدالت کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال اب یہ ہے کہ کیا ایک سیاسی جماعت کا رویہ یہی ہونا چاہیے جو تحریک انصاف کا ہے؟ یقیناً مثالی صورت حال نہیں ہو گی اور تحریک انصاف کے لیے بہت سے مسائل ہوں گے لیکن اس مسائل کا حل تصادم سے نہیں مل سکتا۔

حل اسی قانونی دائرہ کار کے اندر ہے جسے تحریک انصاف خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ اگر اس کی قیادت غور کرے تو اسے معلوم ہو کہ خود ان مسائل کی جڑیں بھی خارج میں نہیں بلکہ داخل میں ہیں اور یہ تحریک انصاف کی اپنی فیصلہ سازی ہے جس نے اسے یہ دن دکھائے ہیں۔

فیصلہ سازی میں بصیرت کا بحران اسی طرح باقی رہا تو مسائل میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں۔

سیاست تصادم کا نام نہیں، یہ حکمت کا نام ہے۔ سیاست انا کے گنبد میں قید ہونے کا نام بھی نہیں ہے، یہ بقائے باہمی کا نام ہے۔ یہ بند گلی میں ٹکریں مارنے کا نام نہیں، یہ اس میں سے راستے نکالنے کا نام ہے۔

جب آپ سیاست میں آتے ہیں تو آپ ایک نظم کے تابع ہو کر چلنے پر رضامند ہوتے ہیں۔ اس نظم سے شکایات بھی ہو سکتی ہیں اور شکوے بھی لیکن اسے پامال کر کے اور اسے چیلنج کر کے سیاست نہیں ہو سکتی۔ آئین، الیکشن کمیشن، عدالت یہ سب وہ چیزیں ہیں جو اس نظم کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان سب کی پامالی کا نام سیاست نہیں ہے۔

حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، ان کا حل تصادم اور آئین کی پامالی میں نہیں مل سکتا۔ تحریک انصاف کو دیگر باتوں کی طرح اس بات کی سمجھ بھی آ جائے گی لیکن تاخیر سے۔

فی الحال تو کیلے کا چھلکا اس کے سامنے پڑا ہے اور اس کا  ایک بار پھر پھسلنے اور گرنے کو جی کر رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ