کینیڈین حکومت کی ہندوؤں کو دھمکانے والی ویڈیو کی مذمت

یہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں شیئر کی گئی جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اس بات کے ’قابلِ یقین شواہد‘ ہیں کہ انڈین حکومت کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔

خالصتان کے حامی گروپ ’دل خالصہ‘ اور مختلف سکھ تنظیموں کے اراکین 22 ستمبر 2023 کو امرتسر میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر سے متعلق پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں (اے ایف پی/ نریندر نانو)

کینیڈین حکومت نے اوٹاوا اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران کینیڈا میں مقیم ہندوؤں کو دھمکانے والی وائرل ویڈیو کی مذمت کی ہے۔

کینیڈا کے وزیر برائے پبلک سیفٹی ڈومینک لی بلانک نے ہندو برادری کے ارکان کو یقین دلایا کہ انہیں سکھ فار جسٹس نامی تنظیم کی جانب سے آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیو سے خطرہ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ ویڈیو ایک ایسے وقت میں شیئر کی گئی جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ اس بات کے ’قابلِ یقین شواہد‘ ہیں کہ انڈین حکومت کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔

انڈیا نے اس تجویز کی تردید کرتے ہوئے اسے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا اور اس کے بعد کینیڈا کے شہریوں کے لیے ویزا خدمات معطل کردیں اور کینیڈا میں اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو ’سکیورٹی خطرات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بند کر دیا ہے۔

اگرچہ انہوں نے براہ راست سکھ فار جسٹس کا نام نہیں لیا لیکن لی بلانک نے تنظیم کی ویڈیو پر شدید تنقید کی، جسے کئی دنوں کے بعد اب ہٹا دیا گیا ہے۔ لی بلانک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’تمام کینیڈین شہری اپنی کمیونٹیز میں احساس تحفظ کے حقدار ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہندو کینیڈین شہریوں کو نشانہ بنانے والی ایک آن لائن نفرت انگیز ویڈیو کی گردش ان اقدار کے منافی ہے جو بحیثیت کینیڈین ہمیں عزیز ہیں۔ جارحیت، نفرت، دھمکانے یا خوف پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘

پبلک سیفٹی کینیڈا نے اس ویڈیو کو ’قابل اعتراض اور نفرت انگیز‘ قرار دیا ہے۔

اس محکمے نے ایکس پر ایک علیحدہ پوسٹ میں کہا، ’اس ملک میں جارحیت، نفرت، دھمکانے یا خوف پھیلانے کی کوئی  گنجائش نہیں اور یہ صرف ہمیں تقسیم کرتی ہے۔

’ہم تمام کینیڈین شہریوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور قانون کی پیروی کریں۔ کینیڈین اپنی کمیونٹیز میں احساس تحفظ کے حقدار ہیں۔‘

کینیڈا کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیورے نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں ’کینیڈا  کے اندر ہندوؤں کو نشانہ بنانے والے‘ نفرت انگیز تبصروں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ’ہر کینیڈین کو بلاخوف جینے اور اپنی کمیونٹی میں سراہے جانے کا حق ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم نے کینیڈا کے اندر ہندوؤں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز تبصرے دیکھے ہیں۔

’کنزرویٹوز ہمارے ہندو پڑوسیوں اور دوستوں کے خلاف ان بیانات کی مذمت کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے ہمارے ملک کے ہر حصے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور یہاں ان کا ہمیشہ خیر مقدم کیا جائے گا۔‘

نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ نے بھی اس برادری کی حمایت میں ایک پیغام ٹویٹ کیا۔

انہوں نے کہا، ’کینیڈا کے ہندوؤں کے لیے۔ یہ آپ کا گھر ہے اور آپ یہاں رہنے کے مستحق ہیں۔ جو کوئی بھی اس کے برعکس تجویز کرتا ہے وہ میل جول، ہمدردی اور مہربانی کی اقدار کی عکاسی نہیں کرتا ہے جو بحیثیت کینیڈین ہمیں عزیز ہے۔‘

جنوبی وینکوور سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ہرجیت سجن نے لکھا، ’ہندو کینیڈین اور تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والے انڈینز کے لیے: جو کوئی بھی یہ کہتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں محفوظ رہنے کے مستحق نہیں، وہ آزادی اور ہمدردی کی اقدار کی عکاسی نہیں کرتا جو بحیثیت کینیڈین ہمیں عزیز ہے۔

دوسروں کو اجازت نہ دیں کہ وہ کینیڈا کے لیے آپ کی محبت پر سوال اٹھائیں۔‘

ویڈیو کی مذمت کرنے والے سیاستدانوں نے سکھ فار جسٹس کا براہ راست نام نہیں لیا۔ یہ گروپ ان لوگوں میں سب سے نمایاں ہے جو اس خیال کی حمایت کرتے ہیں کہ خالصتان کے نام سے ایک آزاد سکھ ریاست کو انڈیا کی ریاست پنجاب سے الگ کیا جانا چاہیے۔

نیویارک میں مقیم ایک وکیل گرپتونت سنگھ پنوں نے ویڈیو شیئر کی جس میں ہندوؤں کو ’انڈیا واپس جانے‘ کا کہا گیا۔

انہوں نے کینیڈا میں مقیم ہندوؤں پر الزام عائد کیا کہ وہ اس ملک کے ‘خلاف کام کر رہے ہیں‘ اور ساتھ ساتھ معاشی طور پر اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جون میں کینیڈا کے اندر قتل ہونے والے سکھ رہنما نجر بھی خالصتان تحریک کے کھلم کھلا حامی تھے۔ انڈیا نے انہیں ایک مطلوب دہشت گرد قرار دیا اور ان پر ایک عسکریت پسند تنظیم کی قیادت کرنے اور بھرتی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

جب ٹروڈو حکومت نے کہا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر فائیو آئیز اتحاد کے ایک اور رکن سے خفیہ اطلاع ملی کہ انڈین حکومت کے ایجنٹ اس قتل کے ذمہ دار ہیں، اس وقت سے ان کی موت نے انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازع پیدا  کر دیا ہے۔

مسٹر ٹروڈو رواں ماہ کے آغاز میں دہلی کے اندر جی 20 سربراہ اجلاس کے موقعے پر اس معاملے پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے ملے تھے لیکن انڈین وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ یہ الزام ’مسترد‘ کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد کینیڈین وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے اندر ایک غیر معمولی بیان میں یہ الزامات عام کیے اور ایک انڈین  سفارت کار کو ملک بدر کر دیا، جو مبینہ طور پر اوٹاوا میں انڈین ہائی کمیشن کے انٹیلی جنس ونگ کے سربراہ تھے۔

اس کے بعد سے انڈیا نے کینیڈا کے ایک سینیئر سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ہے اور دونوں ممالک کے مشنز کے درمیان ’مساوات‘ کے فقدان سمیت ’انڈیا مخالف سرگرمیوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے باضابطہ طور پر درخواست کی ہے کہ نئی دہلی میں کینیڈین ہائی کمیشن کا سائز کم کیا جائے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا