آپ کی آواز سے آپ کی ذاتی معلومات تک رسائی ممکن ہے

اس سے پہلے کہ وائس پروفائلنگ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے اور پھر اسے قابو کرنا ممکن نہ رہے، اس کی حدود متعین کرنا ضروری ہے۔

ششش۔۔۔ آپ کی آواز سنی جا رہی ہے (پیکسلز)

آپ ایک سٹور پر کال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جہاں وہ جوگر ملتے ہیں جو آپ خریدنا چاہتے ہیں۔ سٹور پر مصنوعی ذہانت والی کمپنی کا تیار کردہ کمپیوٹر سسٹم نصب ہے، سو جیسے ہی آپ نمبر ملاتے ہیں وہ متحرک ہو جاتا ہے۔

وہ آپ کی دیگر آن لائن کمپنیوں سے بذریعہ فون کی گئی گفتگو کا جائزہ برآمد کرتا ہے۔ کمپیوٹر اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ’خوشگوار اور باتونی‘ ہیں۔ پیشگی آگاہی کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے وہ آپ کا رابطہ ایسے کسٹمر سروس ایجینٹ سے کروا دیتا ہے جو کمپنی کی تحقیق کے مطابق مہنگی چیزیں خریدنے والے گاہکوں سے گفتگو میں بہت خوشگوار اور باتونی ہے۔
ممکن ہے آپ کو لگے کہ اس فرضی صورت حال کا تعلق بہت دور کہیں مستقبل سے ہو۔ لیکن مارکیٹ میں آواز کے ذریعے خود کار راہنمائی فراہم کرنے والی ایسی سرگرمیاں ہر وقت جاری ہیں۔
اگر آپ فون پر سنتے ہیں کہ ’یہ کال سروس اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے ریکارڈ کی جا رہی ہے‘ تو سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید کمپنی والے اپنے نمائندے کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے کال ریکارڈ کر رہے ہیں۔ لیکن نمائندہ کے علاوہ آپ بھی ہو سکتے ہیں جس کا جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے۔

میں نے اپنی جلد ہی شائع ہونے والی کتاب The Voice Catchers: How Marketers Listen In to Exploit Your Feelings, Your Privacy, and Your Wallet  پر تحقیق کے دوران وائس پروفائلنگ (آواز کی مدد سے کسی شخص کی ذاتی معلومات جمع کرنا) سے منسلک کمپنیوں کے بارے میں کئی تجارتی رسالے اور اخباری مضامین پڑھے۔ میں نے امریکہ اور یورپی یونین کے بائیو میٹرک نگرانی سے متعلق قوانین پر سینکڑوں صفحات باریک بینی سے دیکھے۔ میں نے درجنوں خود مختار کمپنیوں کا جائزہ لیا۔ کیونکہ یہ انڈسٹری بہت زیادہ پھیل رہی ہے اس لیے میں نے ایسے 43 افراد سے گفتگو کی جو اس کی بنیادیں رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
بہت جلد مجھ پر واضح ہو گیا کہ ہم وائس پروفائلنگ کے برپا ہونے والے انقلاب کی پہلی سیڑھی پر کھڑے ہیں جسے کمپنیاں مستقبل میں مارکیٹنگ کا ناگزیر حصہ سمجھتی ہیں۔
سمارٹ سپیکرز، خود کار گاڑیوں اور آواز کی مدد سے چلنے والے موبائلوں کی عوام میں پذیرائی اور کال سینٹرز میں وائس انٹیلی جنس کی مقبولیت کے بعد تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ خریدار کے اندر پوشیدہ شناختیں اور شوق مصنوعی ذہانت کےغیر روایتی طریقے سے معلوم کر رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ان کے خیال میں وہ روایتی تشہیری مہم سے وابستہ دھوکہ دہی اور غلط بیانیوں کے سلسلے سے نجات حاصل کر لیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


صرف لہجے سے ہی نہیں بلکہ آواز کی صوتی لہروں کے ذریعے بھی لوگوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جس کے متعلق بعض محققین کا کہنا ہے کہ بہت منفرد چیز ہے اور اس کی مدد سے نہ صرف جذبات اور شخصیت بلکہ جسمانی خصوصیات بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔
اہداف پر مبنی تشہیری مہم کی خامیاں
جب میں نے مارکیٹنگ کی اعلیٰ انتظامی شخصیت کا انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ کم و بیش ایک دہائی کے اندر اندر ہمیں توقع ہے کہ گاہک وائس پروفائلنگ کو اپنا لیں گے۔
دیگر باتوں کے علاوہ انہیں جو چیز اس جانب راغب کر رہی ہے وہ موجودہ ڈیجیٹل سسٹم کا گاہک کی پروفائل تیار کرنا اور پھر انہیں ہدف بناتے ہوئے ذاتی پیغامات، اشتہارات اور مختلف پیشکش بھیجتے رہنے جیسی بڑی خرابیاں ہیں۔
انٹرنیٹ اشتہارات میں ایک بڑا مسئلہ وہ ہے جو 2010 کی دہائی میں پوری شدت سے ابھر کر سامنے آیا یعنی گاہکوں کا ڈیٹا تازہ ترین نہ ہونا، پروفائل ممکنہ طور پر ایسی ڈیوائس پر مبنی ہونا جسے مختلف لوگ نے استعمال کیا ہو، ناموں میں مغالطہ اور لوگوں کی غلط بیانیوں کا امکان۔
اشتہار دینے والے بھی اشتہار بلاک ہونے اور جعلی کلکس کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ مختلف ویب سائٹس اور ایپس کم اجرت پر افراد یا روبوٹس کی مدد سے کلس کی تعداد بڑھا دیتے ہیں تاکہ اشتہار دینے والوں سے زیادہ رقم وصول کر سکیں۔
انفرادی طور پر گاہکوں کو سمجھنے کی راہ میں یہ سب رکاوٹیں ہیں۔
آواز کی جانچ پڑتال اس کا بہترین حل ہے جس میں لوگوں کے لیے اپنے جذبات یا شناخت چھپانا تقریباً ناممکن ہے۔
مرکزی انفراسٹرکچر کا قیام
وائس پروفائلنگ کی زیادہ تر سرگرمی کسٹمر سپورٹ سینٹرز میں ہوتی ہے جو بالعموم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
لیکن کروڑوں کی تعداد میں ایمازون ایکوز، گوگل نیسٹس اور دیگر سمارٹ سپیکرز ان کے علاوہ ہیں۔ سمارٹ موبائلوں میں بھی یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔
وہ لوگوں کی الگ الگ آواز سن اور محفوظ کر رہے ہیں۔ وہ آپ کی درخواست پر جواب دیتے ہیں۔ لیکن یہ تعاون بھی جدید ترین مشینوں اور نیٹ ورک پروگراموں کے اس تجزیے پر مشتمل ہوتا ہے جو آپ کے لہجے اور گفتگو کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
چین کے علاوہ دنیا بھر کے خطوں میں سمارٹ سپیکرز فراہم کرنے والے اہم ادارے ایمازون اور گوگل تجزیے اور ضرورت کے مطابق ردعمل کے علاوہ آواز سے بہت کم کام لے رہے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کا خوف لاحق ہے کہ اس مقام پر ٹیکنالوجی میں ایک حد سے زیادہ ترقی ان کی شہرت کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمازون، گوگل، پینڈورا، بینک آف امریکہ اور دیگر کمپنیاں جنہیں لوگ فون ایپس کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، اپنے استعمال کنندگان کو اپنی آواز کے ذریعے خود کو سمجھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ آواز کی مدد سے جانچنے والا امیزون کا مشہور ترین آلہ ہاتھ پر باندھنے والا Halo ہے جس کا دعویٰ ہے کہ رشتہ داروں،دوستوں اور ملازمین سے بات کرتے ہوئے آپ کی جذباتی کیفیت تک بتا سکتا ہے۔
کمپنی اپنے گاہکوں کو یقین دہانی کرواتی ہے کہ وہ Halo کے ذریعے حاصل ہونے والا مواد اپنے کسی مقصد کے لیے استعمال نہیں کرتی۔ لیکن یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مستقل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
مستقبل کی خود مختار پالیساں
ٹیکنالوجی سے وابستہ ان کمپنیوں کی پالیسیاں مستقبل کی پیش بینی کرتی ہیں۔
ایمازون کے ایک منصوبے میں الیکسا کی مدد سے چلنے والی ایک ڈیوائس نے صوتی زیر و بم، دل کی دھڑکن، گھبراہٹ یا صوتی آہنگ کے تجزیے سے اندازہ کر لیا کہ شاید عورت کو ٹھنڈ لگی ہے۔ اس نتیجے پر پہنچتے ہی الیکسا نے متعلقہ خاتون سے پوچھا کہ کیا وہ چکن سوپ تیار کرنے کا طریقہ جاننا چاہتی ہیں۔ جب وہ انکار کرتی ہیں تو یہ اسے ایک گھنٹے کے اندر کھانسی کا سیرپ بھیجنے کی پیشکش کرتا ہے۔
ایمازون کی ایک ایپ ایک دکاندار کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ گاہک کی آواز کی مدد سے اس کے مختلف چیزوں کی جانب لاشعوری ردعمل کو جان سکے۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ لوگوں کے الفاظ کی نسبت آواز کا اتار چڑھاؤ مبینہ طور پر ان کی پسند کی بہتر نشاندہی کر سکتا ہے۔
گوگل کی ترجیحاتی بنیادوں پر کی گئی جدت پسندیوں میں سے ایک خاص چیز گھروں میں نصب مائیکروفونز کی مدد سے افراد خانہ کی سرگرمیوں کا پتہ لگانا ہے۔ آواز کی لے پر مبنی گوگل کا یہ برقی منصوبہ صنف اور عمر کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ مثلاً ایک نوجوان لڑکا اور ایک لڑکی موجود ہیں اور یہ ان دونوں کا الگ الگ جائزہ لیتا ہے۔
کمپنی دعویٰ کرتی ہے کہ کچھ عرصے بعد اس منصوبے میں موجود امور خانہ داری کے نگران طرز زندگی کا موازنہ کرنے لگے گا جیسا کہ گھر کے افراد کتنی دیر بعد اور کس وقت کھانا کھاتے ہیں، بچے کتنی دیر ٹی وی دیکھتے ہیں اور کھیلوں والے الیکڑانک آلات کتنی دیر کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ سسٹم بچوں کے لیے کھانے کے بہتر اوقات یا ان کے ٹی وی اور کھیلنے کے وقت میں کمی کی تجویز پیش کرے گا۔
خوشنما نگرانی
مغرب میں اس طرح کی اشتہاربازی کا مستقبل روشن بنانے کے لیے کمپنیاں گاہکوں کو آواز محفوظ کرنے کی اجازت دینے کے لیے مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ کمپنیاں اجازت کے حصول کے لیے گاہکوں کو بہکاتے ہوئے سستی وائس ٹیکنالوجی خریدنے کی پیشکش کرتی ہیں۔
جب ٹیکنالوجی والی کمپنیوں نے آواز پر مبنی تجزیاتی سافٹ ویئرز مزید بہتر کر لیے اور لوگوں کو اس کا عادی بنا لیا تو میرا خیال ہے پھر یہ کمپنیاں آواز سے حاصل کردہ مواد کی پروفائلنگ اور مارکیٹنگ بڑے پیمانے پر شروع کر دیں گی۔ ذاتی معلومات کی رسائی کے متعلق قوانین جو بھی کہتے ہوں ایک بار عملی صورت میں وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی جب گاہکوں کی بڑی تعداد اس میں شامل ہو چکی ہو گی تو میرا خیال ہے یہ کمپنیاں جعل سازی میں مزید آگے بڑھتی جائیں گی۔

بیٹ اینڈ سوِچ bait and switch کی پالیسی نے گوگل اور فیس بک کی شہرت میں اہم کردار ادا کیا۔ جب ایک بار ان ویب سائٹس پر گاہکوں کی اتنی بڑی تعداد گھیرے میں آ گئی کہ یہ مہنگے اشتہارات حاصل کر سکیں تو یہ گوگل اور فیس بک کی معلومات کی بنیاد پر مختلف گاہکوں کی شخصیت کے مطابق اشیا بیچنے کی پالیسی پر گامزن ہوں گے۔
اس وقت تک ان کے گاہکوں کی زندگی میں ان ویب سائٹس کا عمل دخل اتنا زیادہ ہو چکا ہو گا کہ مواد کو جمع کرنے اور اس کے استعمال سے آگاہی اور دسترس نہ ہونے کے باوجود وہ ان سے چھٹکارا پانے میں دقت محسوس کریں گے۔
یہ منصوبہ بندی پہلے ہی عملی جانب بڑھنے لگی ہے کیونکہ کروڑوں افراد بہت کم قیمت پر ایمازون ایکو خرید رہے ہیں۔
وائس پروفائلنگ کے منفی پہلو
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وائس پروفائیلنگ بالخصوص جذبات کے معاملے میں کس قدر درست ہے ابھی تک واضح نہیں۔
امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی سے وابستہ آواز کے معاملات کی ماہر ریتا سنگھ کے مطابق یہ بات درست ہے کہ گلے کے اعصاب کا جذبات سے ایک تعلق ہے۔ تاہم سنگھ نے مجھے بتایا کہ ایسی مشینوں کی آسان فراہمی اور محدود صلاحیت کے ساتھ لوگوں کا دوسرے افراد کی آواز کا تجزیہ کرنا باعث تشویش ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کا برآمد کردہ نتیجہ بھی اتنا ہی ناقابل اعتبار ہو گا جتنا یہ طریقہ کار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جسم کو جذبات اور ذہنی دباؤ کی مختلف قسموں سے منسلک کرنے میں ثقافتی تعصب اور غلطیوں کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹنگ سے وابستہ افراد کی راہ میں یہ خدشہ رکاوٹ نہیں جو مختلف افراد کے جذبات، رویے اور شخصیات کے بارے میں جاننے کے لیے وائس پروفائلنگ کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ بعض حوالوں سے یہ ترقیاں زندگی آسان بنانے کا اشارہ کرتی ہیں لیکن یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ وائس ٹیکنالوجی سے کس طرح لوگوں کا استحصال اور غلط استعمال کیا جائے گا۔ اگر آپ کسی ملازمت کے لیے اپلائی کریں جس کی آپ کو شدید خواہش یا شدید ضرورت ہو اور وائس پروفائلنگ بتا دے کہ آپ کو رکھنا خطرے سے خالی نہیں تو؟

اگر یہ کسی بینک کو بتا دے کہ آپ کو قرض دینا ٹیڑھا معاملہ ہو سکتا ہے تو پھر؟ اگر کوئی ریستوران اس لیے آپ کی پیشگی جگہ محفوظ نہ کرے کہ آپ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟
اگر واقعی سائنسدانوں کے دعوے کے مطابق یہ سچ ہو کہ وائس پروفائلنگ کسی فرد کی آواز سے اس کا وزن، قد، نسل، صنف اور صحت کے متعلق بتا دیتی ہے تو ممکنہ نسلی تعصب بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔
کمپنیوں کی جمع کردہ ذاتی معلومات کی بنیاد پر پہلے ہی مختلف افراد کو مختلف پیشکشیں اور مواقع مہیا کیے جا رہے ہیں۔ وائس پروفائلنگ غیر محسوس طریقے سے بہت خطرناک درجہ بندی کرتی ہے۔ الینوئے اور ٹیکسس جیسی ریاستوں میں آواز، چہرے کے تاثرات پر مبنی تجزیوں یا دیگر بائیو میٹرک سہولیات کے استعمال سے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔
لیکن دیگر ریاستیں لوگوں سے توقع کرتی ہیں کہ وہ نجی معلومات کی پالیسیوں سے آگاہ ہوتے ہوئے ان سے حاصل کی جانے والی معلومات کے متعلق باخبر رہیں، اور وفاقی حکومت نے ابھی تک مارکیٹنگ کے بارے میں جامع قانون لاگو نہیں کیا۔
وائس ٹیکنالوجی کے روز افزوں پھیلاؤ کے بعد حکمران طبقے کے لیے ضروری ہے کہ آواز کے ذریعے نجی معلومات تک رسائی کو کسی ضابطے اور قانون کے تحت لائیں۔
ہماری ایک تجویز ہے کہ کچھ پابندیوں کے ساتھ آواز سے تصدیق یا آواز کی مدد سے کسی فرد کی شناخت کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن افراد سے لین دین کرتے ہوئے تاجروں کے وائس پروفائلنگ استعمال کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ یہ پابندی سیاسی مہموں اور حکومتی سرگرمیوں کے لیے بھی کلی طور پر لاگو ہونی چاہیے۔
اس سے پہلے کہ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے اور پھر اسے قابو کرنا ممکن نہ رہے وائس پروفائلنگ کو مستقبل میں محدود رکھنے کا یہ بہترین طریقہ نظر آتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر ’دا کنوریشن‘ کی اجازت سے چھاپی جا رہی ہے۔ اصل آرٹیکل کا لنک یہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی