امریکیوں اور یورپیوں نے 2022 میں یوکرین کے شہریوں کا جو پرتپاک خیرمقدم کیا وہ ان پالیسیوں سے یکسر مختلف ہے جو 2010 کی دہائی کے وسط میں شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنائی گئیں جو غیرمساویانہ اور اکثر مخالفت پر مبنی تھیں۔
ماہر سیاسیات ڈیوڈ لیٹن نے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے جو مذہبی شناختیں اس عمل میں ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں نشاندہی کی ہے کہ شامی پناہ گزین’ زیادہ تر مسلمان تھے اور انہوں نے اس سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کیا جس سلوک کا یوکرینی شہری کریں گے جن کی اکثریت کا تعلق مسیحی ورثے سے ہے۔‘
ذرائع ابلاغ وہ اطلاعات فراہم کرتے ہیں جو مسلمانوں کے حوالے سے ایسے رویوں کی تشکیل کا سبب بنتی ہیں۔ 2007 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے امریکیوں کے بارے میں کروائے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر ان باتوں کے زیر اثر تھی جو انہوں نے ذرائع ابلاغ سے سنیں اور پڑھیں۔ ماہر مواصلات منیبہ سلیم اور ان کے ساتھیوں نے امریکہ کے مسلمان شہریوں کے معاملے میں میڈیا اطلاعات اور’گھسے پٹے خیالات، منفی جذبات اور نقصان دہ پالیسیوں‘ کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا ہے۔
مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں میڈیا کی تصویر کشی کے ارتقا کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہماری 2022 کی کتاب ’کورنگ مسلمز: امریکن نیوزپیپرز ان کمپیریٹو پرسپیکٹو‘ میں دہائیوں کے دوران لکھے گئے ہزاروں مضامین کے لب ولہجے کا سراغ لگایا ہے۔
مسلمانوں کی منفی کوریج
گذشتہ تحقیق میں مسلمانوں کو میڈیا میں بڑے پیمانے پر منفی انداز میں پیش کرنے کی نشاندہی کی گئی۔ 2000 سے 2015 تک کی گئی تحقیق کا کمیونیکیشن سکالرز سیف الدین احمد اور جورگ میتھیس کی جانب سے جائزہ اس نتیجے پر پہنچا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی طور پر پیش کیا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر دکھایا گیا۔
لیکن جس تحقیق کا انہوں نے جائزہ لیا انہوں نے اہم سوالات چھوڑے ہیں جن ہم اپنی تحقیق میں جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں تحریروں میں اوسط اخباری مضموں کے مقابلے میں انہیں زیادہ منفی انداز میں پیش کیا گیا؟ دوسرا یہ بات کہ میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کی تصویر کشی ان تحریروں کے لحاظ سے زیادہ منفی ہے جو دوسری مذہبی اقلیتوں کے بارے میں لکھے گئے؟
اگر اقلیتی مذہبی گروپس کے بارے میں سٹوریز صرف اس وقت خبروں کی زینت بنیں جب یہ گروپ کسی نہ کسی طریقے سے تنازعے میں ملوث ہوئے۔ اس صورت میں وہ ان وجوہات کی بنا پر منفی ہو سکتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں۔
ہم نے کیا پایا؟
ان سوالات کا جواب دینے کے لیے ہم نے میڈیا ڈیٹا بیس کا استعمال کیا۔ مثال کے طور پر لیکسس نیکسس، نیکسس یونی، پروکوئسٹ اور فیکٹیوا، تاکہ وہ دو لاکھ 56 ہزار سے زائد مضامین ڈاؤن لوڈ کر سکیں جن میں مسلمانوں یا اسلام کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے یکم جنوری 1996 سے 31 دسمبر 2016 تک 21 سال کے عرصے میں امریکہ میں 17 قومی اور علاقائی اخبارات میں چھپنے والے مضامین تلاش کرنے کے لیے’مسلم آرٹیکلز‘کے مختصر الفاظ استعمال کیے۔
ہم سٹٓوریز کو ان کے مثبت یا منفی ہونے کے حوالے سے جانچنے کے لیے ان کا موازنہ کسی خاص ترتیب کے بغیر ان موضوعات پر بڑی تعداد میں اخبارات سے اکٹھے کیے گئے ان 48283 مضامین کے ساتھ کرنے کے بعد ایک قابل اعتماد طریقہ وضع کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس طریقے نے ہمیں اضافی موازنوں کے لیے بنیاد فراہم کی ہے۔ ہم نے امریکی اخبارات سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ کیتھولک، یہودیوں اور ہندوؤں جو امریکہ میں مختلف حجم اور حیثیت کے حامل تین اقلیتی مذہبی گروپ ہیں، سے متعلق مضامین اکٹھے کیے۔ اس کے بعد ہم نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے اخبارات کی بڑی تعداد سے مسلمانوں سے جڑی سٹوریز جمع کیں۔
ہماری تحقیق کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایک اوسط مضمون جس میں امریکہ میں مسلمانوں اور اسلام کا ذکر کیا گیا وہ ہمارے ترتیب کے بغیر نمونے کے مضامین کے 84 فیصد کے مقابلے میں زیادہ منفی نکلا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ کسی کو اس ایک مضمون تک پہنچنے کے لیے امریکی اخبارات کے چھ مضامین پڑھنے پڑیں جو اتنا ہی منفی ہو جتنا مسلمانوں کے بارے میں کوئی اوسط مضمون۔
اس بات کا ٹھوس احساس دلانے کے لیے کہ مسلمانوں کے بارے میں عام مضامین کتنے منفی ہیں درج ذیل جملے پر غور کریں جس کا لہجہ مسلمانوں سے متعلق اوسط مضمون جیسا ہے: ’روس کو خفیہ ایجنٹوں نے یہ منوایا کہ تابکار مواد ایک مسلم تنظیم کو پہنچایا جانا تھا۔‘ اس جملے میں میں دو انتہائی منفی الفاظ (’خفیہ‘ اور’تابکار مواد‘) ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ’مسلم تنظیم‘ کے مذموم مقاصد رکھتی ہے۔
جن مضامین میں مسلمانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے منفی ہونے کا امکان کسی بھی دوسرے گروپ کے بارے میں وہ سٹوریز جن کا ہم نے جائزہ لیا، کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔ کیتھولک، یہودیوں اور ہندوؤں کے لیے مثبت اور منفی مضامین کا تناسب 50-50 کے قریب تھا۔ اس کے برعکس مسلمانوں سے متعلق تمام مضامین میں سے 80 فیصد منفی تھے۔
یہ فرق بہت اہم ہے۔ ہمارا کام سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا جب دوسرے اقلیتی مذاہب کے بارے میں لکھتا ہے تو اس کا میلان منفی سٹوریز شائع کرنے کی طرف نہیں ہوتا لیکن جب وہ مسلمانوں کے بارے میں لکھتا ہے اس کی جانب سے تو ایسا کرنے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔
کور کیے جانے والے گروپس کے موازنہ کرنے سے آگے بڑھتے ہوئے ہماری دلچسپی مختلف ممالک میں کوریج میں بھی تھی۔ شاید امریکہ مسلمانوں کی شدید منفی کوریج میں منفرد ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہم نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے مختلف اخبارات سے اسی عرصے مسلمانوں یا اسلام کا ذکر کرنے والے 528444 مضامین اکٹھے کیے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ان ملکوں میں منفی سے مثبت مضامین کا تناسب تقریباً وہی تھا جو امریکہ میں تھا۔
منفی کوریج کے نتائج
متعدد سکالرز نے ظاہر کیا ہے کہ منفی سٹوریز مسلمانوں کے حق میں غیر سازگار رویہ پیدا کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں منفی معلومات کے اثرات پر نظر رکھنے والی دوسری تحقیق میں بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر مسلمان امریکیوں کی خفیہ نگرانی یا مسلمان ملکوں میں ڈرون حملے۔
مزید برآں نوجوان امریکی مسلمانوں کے بارے میں سروے سے پتہ چلا ہے کہ میڈیا کی منفی کوریج کے نتیجے میں امریکی شہری کے طور ان کی شناخت اور امریکی حکومت کا ان پر اعتماد کمزور ہوئے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کی میڈیا کوریج میں منظم انداز میں پھیلائی گئی منفیت تسلیم اور اس مسئلے کا ازالہ کرنا بڑے پیمانے پر بدنامی سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان دوست پالیسیوں کے مزید مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جو عقیدے سے قطع نظر ہر کسی کے لیے منصفانہ ہوں۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن میں شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔