بھارت میں 8 ہزار مظاہرین گرفتار، مگر احتجاج بڑھتا جا رہا ہے

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی ریاستوں میں جاری احتجاجی مظاہروں کو دو ہفتے ہو گئے ہیں اور اب تک پولیس کی فائرنگ کے نتیجے 24 افراد ہلاک اور آٹھ ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں بڑی تعداد میں خواتین نے متنازع قانون کے خلاف مظاہرہ کیا (اے ایف پی)

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی ریاستوں میں جاری احتجاجی مظاہروں کو دو ہفتے ہو گئے ہیں اور اب تک ان مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 24 ہو گئی ہے جبکہ آٹھ ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

صرف ریاست اترپردیش میں پولیس کی کارروائی کے دوران 15 مظاہرین مارے گئے جن میں ایک آٹھ سالہ بچہ بھی شامل ہے جو پیروں تلے آ کر کچلا گیا۔

شہریت کے متنازع  قانون کے خلاف مزاحمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس قانون کے تحت ہمسایہ ممالک کی اقلیتی برادریوں کو تو بھارتی شہریت کی پیش کش کی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

ناقدین نے قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاہم ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹ(بی جے پی)اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں جاری ان مظاہروں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ مظاہرے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہے ہیں اور ان بڑھتے مظاہروں سے پاکستان کو خطرہ ہے۔‘

گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اگر بھارت اپنے اندرونی مسائل سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے اور ہندو قومیت کے جذبات مشتعل کرنے کے لیے ایسی کسی بھی کارروائی کا سہارا لیتا ہے تو پاکستان کے پاس منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اترپردیش پولیس کے مطابق ریاست میں 705 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسری طرف گرفتاریاں احتجاج کے سلسلے کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں بڑی تعداد میں خواتین نے متنازع قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ریاست کے شہریوں کو خطرہ ہے کہ غیرملکی وطن تارکین وطن کی آمد سے ان کی مقامی ثقافت متاثر ہوگی۔

مظاہرے میں شریک ایک خاتون لیلی دتہ نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ’ہم مادر وطن کے لیے لڑنے کی خاطر گھروں سے نکلے ہیں۔ ہم ہتھیاروں کے بغیر لڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ ہم پرامن لڑائی جاری رکھیں گے۔‘

دوسری جانب بھارتی ماہرین تعلیم، دانشوروں اور محققین کے گیارہ سو ارکان پر مشتمل ایک گروپ نے شہریت کے متنازع قانون کی حمائت کی ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ’اس قانون کی بدولت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مصائب کا شکار مذہبی اقلیتوں کو بھارت میں پناہ ملے گی جس کا طویل عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔‘

گروپ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 1950 کے لیاقت نہرو معاہدے کی ناکامی کے بعد سے کانگریس، کمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ جیسی سیاسی جماعتیں مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دی جائے۔ ان اقلیتوں میں زیادہ تر دلت ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا