پچھلے دس سال کے دس بہترین ڈرامے

پچھلے دس برسوں میں کون سے ڈرامے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے؟ انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی پیشکش۔

(انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسرے حصے پڑھنے کے لیے نیچے ’مزید پڑھیے‘ پر کلک کیجیے)

رواں صدی کے آغاز میں جب پاکستان کا ڈراما پی ٹی وی کے بوسٹروں کے جال سے نکل کر سیٹلائٹ کے جدید اور ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا،  تو سب سے بڑا چیلنج ہی پاکستان کے اپنے بنائے ہوئے مواد کا تھا۔

ابتدا میں کچھ نجی چینلوں اور پروڈکشن ہاؤسز نے بھارت کی طرز پر چمک دمک اور دولت کی ریل پیل جیسے ڈرامے بنانے شروع کیے مگر وہ مقبول نہیں ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ دہائی کے اواخر میں ’میری ذات ذرۂ بے نشان‘ جیسے کچھ ڈرامے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ضرور ہوئے تاہم پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں اور ان کے ڈراما سیریل نے 2010 میں مقبولیت حاصل کرنا شروع کی اور نئے اور اچھوتے موضوعات اور کہانیوں کو ٹی وی پر دکھانے کا سلسلہ شروع کیا جس سے پاکستانی ڈراما سیریل اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے اور اس کے بعد پاکستانی ڈرامے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

زیرِ نظر گذشتہ دہائی کے 10 ایسے ڈرامے جو نہ صرف عوام میں مقبول رہے ہوں بلکہ انہوں نے ڈراما صنعت کو کچھ منفرد کہانی یا کردار بھی دیا ہو۔

10۔ ڈر سی جاتی ہے صلہ

ہم ٹی وی پر نومبر 2017 سے اپریل 2018 تک نشر ہونے والا یہ ڈراما خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی بہترین کوشش تھی۔

اس ڈرامے میں نعمان اعجاز نے جوئی کا کردار بہت ہی عمدگی سے نبھایا جبکہ صلہ کا کردار یُمنا زیدی نے ادا کیا تھا۔

25 اقساط پر مشتمل یہ ڈراما بی گُل نے تحریر کیا تھا اور اس کی ہدایات کاشف نثار نے دی تھیں جبکہ یہ ایم ڈی پروڈکشنز کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

اس ڈرامے کو بہترین اداکار، ہدایت کار اور بہترین ڈراما ہونے کے لکس سٹائل ایوارڈز(جیوری) بھی ملے۔

9۔ رانجھا رانجھا کر دی

اس ڈرامے کی کہانی تو ایک خاکروب گھرانے کی ہے، مگر مختلف سوچ رکھنے والی لڑکی نور بانو کی ہے جو اپنے خاندانی پیشے سے اکتائی ہوئی رہتی ہے اور اپنے لیے ایک منفرد زندگی کی خواہش رکھتی ہے۔ نور بانو عرف نوری کا کردار اقرا عزیز نے ادا کیا تھا۔

تاہم اس ڈرامے میں ذہنی طور پر کمزور ’بھولا ‘کا کردار جو عمران اشرف نے ادا کیا عوام میں بے حد مقبول ہوا۔

فائزہ افتخار کے لکھے ہوئے اس سیریل کے لیے کاشف نثار نے ہدایات دیں اور یہ نومبر 2018 سے جون 2019 تک ہم ٹی وی پر نشر ہوا جس ایم ڈی پروڈکشنز نے پیش کیا۔

8۔ دل لگی

 اے آر وائی ڈیجیٹل پر مارچ سے ستمبر 2016 میں نشر ہونے والا یہ ڈراما، ہمایوں سعید اور مہوش حیات کی اسکرین پر جوڑی کو مقبول بنا گیا۔

فائزہ افتخار کی تحریر اور ہدایات ندیم بیگ کی تھیں جسے سکس سگما پلس کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ دِل لگی کی کہانی اندرونِ سندھ کے شہر سکھر میں جنم لیتی ہے جہاں قرض کی ادائیگی کی وجہ سے انمول (مہوش حیات) کی زندگی میں ایک بھونچال آ جاتا ہے۔

اس ڈرامے میں نہ صرف مہوش اور ہمایوں سعید کی جوڑی کو پسند کیا گیا بلکہ ایک نسبتاً مختلف یعنی نیم شہری ماحول میں عکس بندی کو بھی سراہا گیا اسی لیے اس ڈرامے کو بہترین ڈرامے کا لکس ایوارڈ بھی ملا۔

7۔ میرے پاس تم ہو

رواں صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں  سب کی توجہ کا مرکز یہ ڈراما مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہر سنیچر کو یہ ڈراما ٹوئٹر پر سب سے اوپر ٹرینڈ کر رہا ہوتا ہے جبکہ کئی ہفتوں سے یہ یوٹیوب بھی پہلے نمبر پر ہے۔

ہمایوں سعید، عدنان صدیقی اور عائزہ خان جیسے بڑے ناموں پر مشتمل محبت ، حرص و لالچ کی یہ داستان حیرت انگیز طور پر خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی بے پناہ مقبول ہے۔ خلیل الرحمان قمر کے تحریر کردہ اس ڈرامے کے مکالمے خاص کر بہت پسند کیے جا رہے ہیں۔ اس ڈرامے کی ہدایات ندیم بیگ نے دی ہیں اور اسے اے آر وائی ڈیجیٹل پر سکس سگما پلس کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈرامے کی کہانی ایک ایسی خاتون کی ہے جو دولت کی خاطر اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

6۔ مَن مائل

سمیرا افضل کا تحریر کردہ یہ ڈراما حسیب حسن کی ہدایات کے ساتھ ہم ٹی وی پر جنوری کا ستمبر 2016 میں نشر ہوا اور اس ڈرامے نے پاکستان کی ڈراما صنعت کو ایک نیا ستارہ مایا علی کی شکل میں دیا جس کے دیگر اداکاروں میں حمزہ علی عباسی، عائشہ خان اور گوہر رشید شامل تھے۔

اس ڈرامے میں عائشہ خان کا کردار جینا بھی بہت مشہور ہوا تھا اور سوشل میڈیا پر اس کے درجنوں میمز بنے تھے جس میں ان کا اس ڈرامے میں سب سے زیادہ بولا جانے والا جملہ ’میرے تو ماں باپ بھی نہیں ہیں‘ شامل ہوتا تھا

اس ڈرامے کو دو لکس سٹائل ایوارڈز ملے جن میں بہترین اداکارہ (مایا علی) اور بہترین پس پردہ موسیقی کا ایوارڈ شامل ہے۔

5۔ باغی

مقتولہ قندیل بلوچ کی زندگی پر بننے والا یہ ڈراما جولائی 2017 سے فروری 2018 تک ’اردو ون‘ پر نشر ہوا جس میں فوزیہ (قندیل بلوچ) کا مرکزی کردار صبا قمر نے ادا کیا۔

اس ڈرامے کی ہدایات فاروق رند نے دی تھیں اور اسے شازیہ خان نے تحریر کیا تھا جبکہ اس کی پروڈیوسر نینا کاشف تھیں۔ یاد رہے کہ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔

باغی نے تین لکس سٹائل ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں صبا قمر کو ملنے والا بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

4۔ پیارے افضل

خلیل الرحمان قمر کا لکھا ہوا یہ ڈراما اے آر وائی ڈیجیٹل پر نومبر 2013 سے اگست 2014 تک نشر ہوا جس کے نمایاں اداکاروں میں حمزہ علی عباسی، عائزہ خان، سوہائے علی ابڑو، ثنا جاوید شامل ہیں اور اس کی ہدایات ندیم بیگ نے دی تھیں اور اسے سکس سگما پلس کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

اس ڈرامے کی کہانی ایک مولوی کے بیٹے کے گرد گھومتی ہے۔

اس ڈرامے نے حمزہ علی عباسی کی شہرت کو نہ صرف چار چاند لگائے بلکہ نسبتاً حساس سمجھے جانے والے موضوعات کو بھی ڈرامے کی کہانی بننے کی راہ دکھائی۔ اس ڈرامے کو 5 لکس سٹائل ایوارڈز دیے گئے تھے۔

3۔ خانی

اسما نبیل کا لکھا ہوا یہ ڈراما اپنی مقبولیت کے الگ ہی ریکارڈ بنا گیا۔ محبت، نفرت اور انتقام کی کہانی پر مبنی اس ڈرامے کی ہدایات انجم شہزاد نے دی تھیں ، یہ جیو ٹیلی ویژن پر نومبر 2017 سے جولائی 2018 تک نشر کیا گیا اور اسے سیونتھ سکائی انٹرٹینمنٹ کے بینر تلے تیار کیا گیا تھا۔

اس ڈرامے میں فیروز خان بطور میر ہادی اور ثنا جاوید نے خانی کی حیثیت سے اپنے کردار نبھائے تھے۔ اس ڈرامے کو دو لکس سٹائل ایوارڈز ملے۔

2۔ اُڈاری

پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال جیسے حساس موضوع کو اجاگر کرنے کی غرض سے بنایا گیا یہ ڈراما اپریل سے ستمبر 2016 کے درمیان ہم ٹی وی پر نشر ہوا جسے سلطانہ صدیقی اور کشف فاؤنڈیشن کے اشتراک سے تخلیق کیا گیا تھا اور اس کی کہانی فرحت اشتیاق نے لکھی تھی جبکہ ہدایات محمد احتشام الدین نے دی تھیں۔

اس کے حساس موضوع کی وجہ سے پیمرا کی جانب سے اس ڈرامے کو ’غیر اخلاقی‘ مواد نشر کرنے پر نوٹس بھی ملا تھا جس پر پاکستان میں کافی شور بھی مچا تھا اور سوشل میڈیا پر پیمرا کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

اس ڈرامے سے پاکستان کی ڈرامے کی صنعت میں ایک نئے ولن احسن خان کا اضافہ بھی ہوا جن کا کردار امتیاز بہت مشہور ہوا اور ایک نازک موضوع پر بنائے گئے ڈرامے میں منفی کردار ادا کرنے پر احسن خان کو بہت سراہا بھی گیا۔

اُڈاری کو اپنی شاندار کارکردگی پر چار لکس سٹائل ایوارڈز اور 11 ہم ٹی وی ایوارڈز ملے۔

1۔ ہم سفر

ایک ڈراما جس نے پاکستانی ڈرامے کو اس صدی میں جِلا بخشی وہ ہم ’سفر‘ ہی تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی ڈراما اپنی نئی شناخت ڈھونڈ رہا تھا کہ ہم سفر نے اسے وہ شناخت اور انداز دیا جو آج بھی جاری ہے۔ ستمبر 2011 سے مارچ 2012 کے درمیان نشر ہونے والے اس ڈرامے نے پاکستان کو دو بڑے فنکار یعنی ماہرہ خان اور فواد خان دیے۔

اگرچہ اس کی کہانی ایک شادی شدہ جوڑے اور اس کے بیچ ہونے والی غلط فہمی پر مبنی تھی تاہم ماہرہ اور فواد کی کیمسٹری عوام کو بھا گئی اور یہ ڈراما صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی بہت مقبول ہوا اور یہ ڈراما مشرقِ وسطیٰ کے مقبول چینل ایم بی سی پر بھی عربی میں ترجمہ کر کے نشر ہوا جہاں کا نام ’رفیق الروح‘ رکھا گیا تھا۔

2011 میں اس ڈرامے کو دو جبکہ 2012 میں اس ڈرامے کو 4 لکس سٹائل ایوارڈز بھی ملے۔ اسے فرحت اشتیاق نے لکھا تھا جبکہ اس کی ہدایات سرمد کھوسٹ نے دی تھیں اور یہ مومنہ درید کی تخلیق تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10