ڈیزرٹ ریلی: ’چولستان کی ریت بائیکرز کو اپنی طرف کھینچتی ہے‘

15 سال بعد چولستانی خطے میں بائیکرز کو بھی طبع آزمائی کا موقع دیا گیا۔ اس سے قبل ٹی ڈی سی پی کے زیر اہتمام چولستان میں صرف گاڑیوں کی ریلی کا سالانہ میلہ سجتا تھا۔

جنوبی پنجاب کے صحرائی علاقے چولستان میں سالانہ گاڑیوں کی ریس میں اس سال نیا اضافہ ڈرٹ بائیک ریس کا ہوا۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے بائیکر کے لیے یہ ریس نیا چیلنج تھا۔ مقامی لوگوں کے لیے بھی نت نئی موٹر سائیکلوں کو اپنی ریت پر دوڑتا دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔

ریس میں حصہ لینے کے لیے آنے والے بائیکر ضیغم چوہان کے مطابق: ’چولستان کی ریت واقعی بائیکرز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہاں پر بائیک چلانا آسان نہیں ہے۔‘

اسلام آباد کے بائیکرز اینڈ ہائیکرز کلب کے سینیئر وائس پریذیڈنٹ ضیغم چوہان پنجاب میں سیر و سیاحت کے نگراں ادارے ٹی ڈی سی پی کے شکر گزار تھے کہ 15 سال بعد چولستانی خطے میں بائیکرز کو بھی طبع آزمائی کا موقع دیا گیا۔ اس سے قبل ٹی ڈی سی پی کے زیر اہتمام چولستان میں صرف گاڑیوں کی ریلی کا سالانہ میلہ سجتا تھا۔

ضیغم چوہان کہتے ہیں: ’ایسی جگہوں پر بائیک ریس کا ہونا نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے حوصلہ افزا ہوگا کیونکہ پاکستان میں اس وقت بائیکنگ کا جنون ہے۔ بارہ یا تیرہ سال کا بچہ ستر سی سی بائیک لے کر سڑکوں پر چلانا شروع کر دیتا ہے۔‘

چولستان میں بائیک ریس سے قبل مقامی نوجوان پروفیشنل بائیکرز کے سامنے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیشنل بائیکرز لگ بھگ دس لاکھ روپوں میں آنے والی 450 سی سی موٹر سائیکلوں پر تھے۔ ہیلمٹ سمیت مکمل سیفٹی گیئر پہن کر مشق کر رہے تھے جبکہ ان کی دوڑ سے دوڑ ملانے کی کوشش کرنے والے عام موٹرسائیکلوں پر سوار مقامی نوجوانوں نے ہیلمٹ تک نہیں پہنے ہوئے تھے۔

ضیغم چوہان نے اعتراف کیا کہ مقامی نوجوانوں کو بھی بائیک چلانے میں خوب مہارت حاصل ہے لیکن انہوں نے ان کی لاپروائی پر تشویش کا اظہار کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’بائیک چلانے کے لیے 18 سال کا ہونا اور لائسنس حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان سیفٹی کا خیال رکھیں۔‘

انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ ’سڑکوں پر ون ویلنگ اور ریس کی بجائے ٹریک پر آئیں۔ گورنمنٹ نے سپورٹ دینا شروع کر دی ہے۔ ٹریکس بننا شروع ہو گئے ہیں۔‘

پاکستان میں عام نوجوان باقاعدہ سیفٹی گیئر اور ریسنگ بائیک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ضیغم چوہان اور ان کے ساتھی جو موٹر سائیکل دوڑاتے ہیں، اسے سڑکوں پر لانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہر ریس کے لیے اسے گاڑیوں پر لاد کر لے جانا پڑتا ہے۔ یہ بیرونِ ملک سے منگوائی جاتی ہے جس پر پاکستان میں بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ 

انہوں نے حکومت سے بھی اپیل کی کہ ریس کی موٹر سائیکلوں پر ’ٹیکسوں میں کمی کی جائے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ بائیکس درآمد کر سکیں اور اس شوق کو آگے لے کر جا سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو