'ایک شہزادہ جس نے میری زندگی تباہ کردی'

دنیا کے مقبول ترین اشاعتی ادارے ایمازون کی طرف سے شائع شدہ اس ناول میں قبائلی معاشرے میں عرصہ دراز سے موجود خاندانی مسائل کی تفصیل سے منظر کشی کی گئی ہے۔

اس ناول میں امید ہے ، حوصلہ ہے اور بالخصوص پشتون قبائلی معاشرے میں خواتین اور خواجہ سراؤں سے متعلق جو غلط نظریات پائے جاتے ہیں ان کے خلاف بڑے موثر انداز میں آواز بلند کی گئی ہے۔

یہ تمام ایسے حساس مسائل ہیں جن کا احاطہ خاتون کے علاوہ کوئی اور بہتر انداز میں نہیں کرسکتا ہے۔  

'اے پرنس ہوڈسٹرائیڈ مائی لائف' یا  'ایک شہزادہ جس نے میری زندگی تباہ کردی'  کے نام سے موسوم یہ ناول حال ہی میں انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔

دنیا کے مقبول ترین اشاعتی ادارے ایمازون کی طرف سے شائع شدہ اس ناول میں قبائلی معاشرے میں عرصہ دراز سے موجود خاندانی مسائل کی تفصیل سے منظر کشی کی گئی ہے۔

ناول کی مصنفہ آسیہ جمیل عرف عام میں ایمان جمیل کے نام سے شہرت رکھتی ہیں۔ بنیادی طورپر ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر پشاور سے ہیں تاہم وہ گزشتہ کئی سالوں سے ترقیاتی شعبہ سے منسلک ہیں۔

ایمان جمیل کا کہنا ہے کہ 'پاکستانی اور بالخصوص پشتون قبائلی معاشرے میں بچپن سے لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ وہ کمزور ہیں اور ان کے مقابلے میں مرد نہ  صرف ان سے زیادہ طاقتور ہے بلکہ ان کا محافظ بھی ہے۔'

ان کے مطابق 'میں نے اپنے ناول میں اسی نظریے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ پیغام دینےکی کوشش کی ہے کہ عورت کسی مرد کے سہارے کے بغیر نہ صرف زندگی گزار سکتی ہیں بلکہ دنیا میں اپنے لیے اچھا مقام بنانے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہے۔'

ایمان جمیل کی سکول کے زمانے سے انگریزی ادب میں دلچپسی رہی ہے اور وہ بچوں کےلیے مختصر کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں شعر و شاعری بھی کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم فل کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے دنیا بھر میں بچوں کی مشہور کہانیوں 'سنڈریلا اور سنو وائٹ' کے کرداروں کو دوبارہ لکھ کر انہیں اپنے قوم کی بچیوں کے لیے الگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔'

ان کے بقول 'جیسے سنڈریلا کی کہانی میں عام طورپر ایک کمزور لڑکی کا کردار دکھایا گیا ہے جو ایک شہزادے کے انتظار میں ہوتی ہے۔ اس طرح سنو وائٹ سٹوری میں خوبصورتی کے معیارات بیان کیے گئے ہیں جبکہ میں نے ان دونوں کرداروں کو تبدیل کرکے انہیں بچوں کےلیے ایک الگ تصور کے ساتھ لکھا ہے۔'

ان کے مطابق ان دونوں کہانیوں میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہےکہ لڑکیاں مردوں کے مقابلے میں کسی صورت کمزور نہیں ہوتیں اور اس طرح خوبصورتی بھی محض سفید رنگ نہیں کہا جاتا بلکہ سانولے اور کالے رنگ کی لڑکیاں بھی خوبصورت ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

154  صحفات پر مشتمل اس ناول میں خواتین کے دو اہم کردار ہیں جن کے گرد ساری کہانی گھومتی ہے۔ ان دونوں کرداروں کا تعلق ضم شدہ اضلاع سے ہوتا ہے ۔

ایمان جمیل کا کہنا ہے کہ 'میں نے ضم شدہ اضلاع میں خواتین کے مسائل پر بہت کام کیا ہے۔ وہاں لڑکیوں کے مسائل نے مجھے ناول لکھنے پر مجبور کیا اور مقصد بھی یہی ہے کہ ان حقیقی مسائل کا پردہ چاک کرکے انہیں دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔'

اس ناول میں ایک خواجہ سرا کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے جس کی پیدائش ضم شدہ ضلع میں ہوتی ہے۔

ایمان جمیل نے مزید کہا کہ عام طورپر پشتون قبائلی معاشرے میں خواجہ سراؤں کی پیدائش بے عزتی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور خاندان میں انہیں قبول نہیں کیا جاتا۔

'کتنی بدقسمتی کی بات ہے ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتاحالانکہ جس حالت میں وہ پیدا ہوتا ہے اس میں ان کا قصور کیا ہے۔'

تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے ناول میں جو خواجہ سرا کا کردار ہے وہ کوئی عام خواجہ سرا نہیں بلکہ وہ آگے چل کر مزاحمت کی علامت بن جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب