’سیکس شوہروں کا بنیادی حق،‘ یہ کہنا کتنا خطرناک ہے؟

اگر عدالتی نظام مردوں کی ضرورت کو خواتین کی جسمانی خوشحالی پر ترجیح دینے لگے تو متاثرین کیا امید رکھیں۔

کیا مرد عورتوں سے زیادہ انسانی حقوق رکھتے ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سچ ہے – اور یہ اس ہفتے دیکھا بھی گیا جب ایک جج نے عدالت میں اعلان کیا کہ بیوی کے ساتھ جنسی تعلق شوہر کا ’بنیادی حق‘ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے جج کی عدالتی نظام میں جگہ ہونی چاہیے یا نہیں؟

چلیں تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ ایک آدمی کو، جن کی بیوی کو سیکھنے میں مشکلات کی بیماری ہے، عدالت میں پیش ہونا پڑا جب مقامی کونسل حکام نے تشویش کا اظہار کیا کہ ان کی بیوی اپنی ذہنی حالت کی وجہ سے سیکس کی اجازت نہیں دے سکیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ جوڑا اب جنسی تعلق نہیں رکھ سکتا۔

وکلا عدالت سے اس شوہر پر بیس سال تک بیوی کے ساتھ جنسی تعلق سے باز رہنے کا حکم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی مقدمہ ہے جو عدالتی کارروائی سے زیادہ اے لیول کے فلاسفی کے مضمون کا اخلاقی معمہ معلوم ہوتا ہے۔

اس مقدمے کی تفصیلی سماعت سے قبل جج جسٹس ہیڈن نے کہا: ’میں اپنی بیوی کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کے کسی شوہر کے حق سے زیادہ واضح طور پر بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ وہ اس پر مناسب دلائل دینے کا حقدار ہے۔‘

 

لیکن قانون اس کے متعلق واضح ہے: نیند میں ہونے، بے ہوش ہونے، نشے میں ہونے یا اپنی مرضی کے خلاف حراست میں رکھنے کے ساتھ ساتھ، اگر کوئی ’ذہنی بیماری کی وجہ سے سیکس سے انکار نہیں کرسکتا ہے‘، رضامندی زائل ہوجاتی ہے لہذا جنسی عمل غیرقانونی ہوجاتا ہے۔ یہ ریپ بن جاتا ہے۔ اس سے زیادہ ادارتی تعصب اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک جج – جو ایک بااختیار اور بااعتماد عہدے پر ہوتے ہوئے، کہے کہ ’بیوی کے ساتھ جنسی تعلق‘ ایک مرد کا ’بنیادی انسانی حق‘ ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ عدالت میں اس طرح کے خطرناک تبصرے  کئے گئے ہیں۔ یارک شائر ریپر کی مثال لے لیں، جس میں پراسیکیوشن نے پیٹر سوٹکلف کے ہاتھوں سیکس ورکرز اور دیگر ’معصوم خواتین‘ کے قتل میں تفریق کی۔

یا پھر گذشتہ برس ایک وکیل دفاع کو ایک ٹین ایج لڑکی کے نکرز بطور ثبوت پیش کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ ’کسی سے ملنے کے لیے تیار‘ تھی۔

اس کے بعد مغربی یارک شائر پولیس کی وہ مہم ہے جس میں خواتین کو بتایا گیا کہ کسی ایسے گھر میں پارٹی میں حصہ نہ لیں جہاں کے لوگوں کو آپ نہیں جانتی کیونکہ وہاں ان کا ریپ ہوسکتا ہے۔ یہ مہم اب بھی چل رہی ہے۔

جب اس طرح کے معزز، فیصلہ سازی کی حیثیت رکھنے والے لوگ ایسے خیالات رکھتے ہیں (اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں) یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عوامی سروے میں عصمت دری سے متعلق حیران کن نظریات سامنے آتے ہیں؟ 65 سال سے زائد عمر کے لوگوں کا تیسرا حصہ یقین نہیں رکھتا کہ طویل مدتی تعلقات میں یا شادی میں جبری جنسی تعلقات عصمت دری ہے۔ کیا معاشرے نے انہیں دوسری صورت پر یقین کرنے کا ایک مضبوط سبب دیا ہے؟

ہمارے ملک میں عصمت دری کے مقدمات میں سزائیں دینے کی شرح بہت کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں: عدالت میں کھڑا ہونے اور حملے کی درد ناک کیفیت بیان کرنے کا خوف؛ آپ کو حملہ آور کا دوبارہ سامنا کرنا پڑے؛ آپ کی بات پر یقین نہ کیے جانے کا خدشہ؛ یا ایسی پریشانیاں کہ آپ کے جنسی پس منظر کو آپ کے خلاف استعمال کیا جانا (باوجود قانون شہادت کے ہونے کے)۔

کیا نظام انصاف واقعی یہ کہہ سکتا ہے کہ سزائیں دلوانے کی شرح کو بڑھانے کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے اور ریپ متاثرین کو آگے آنے کی ترغیب دیں جب وہ ججوں کو ایسے خطرناک اور زیادہ اہم یہ کہ غیرقانونی ریمارکس بغیر کسی تادیبی کارروائی کے عدالتوں میں دینے کی اجازت دیتا ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ 90 فیصد ریپ متاثرین اپنے حملہ آور کو جانتے ہیں اور وہ نامعلوم حملہ آور بہت کم ہوتے ہیں۔ گھریلو تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فنڈنگ کم ہو رہی ہے۔ یہ بیان ایک پرتشدد شوہر کو کیا پیغام دے گا؟ یہ اُسے بتائے گا کہ نظام اس کے حق میں ہے۔

سیکس کوئی انسانی حق نہیں ہے۔ نا کہنا ہے۔ اور ایک غیرجانبدار جج کے سامنے پیش ہونا اور اپنے نہ کہنے کے حق کا دفاع کرنا کسی بھی فعال معاشرے کا بنیادی اصول ہے۔ اس کے بغیر ہم کیسے دعوی کرسکتے ہیں کہ ہم تبدیلی لانے کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1991 تک اس ملک میں کسی شوہر کے لیے یہ قانونی تھا کہ وہ اپنی بیوی پر جنسی تشدد کرے۔

عصمت دری، حملہ اور بدسلوکی تمام ہتھیار ہیں جو خواتین کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ ان پر قابو پایا جاسکے۔ معذور خواتین کو گھریلو بدسلوکی کا زیادہ خدشہ ہے۔

اس کیس کے بارے میں سوچنے کے بجائے کہ ایک آدمی کے حقوق کو ممکنہ طور پر رد کر دیا گیا ہے، ایک عدالت کے جج کا کردار اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس خاتون کے رضامند ہونے کا حق برقرار رکھا جائے۔ کیونکہ یہ وہ ہے جسے اپنا انسانی حق کھونے کا خطرہ ہے۔ ہمارا قانون کیوں ڈیمنشیا سے متاثرہ لوگوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے کہ کوئی ان سے فائدہ نہ اٹھائے؟

سوچتی ہوں کہ اگر ایک جج کا خیال ہے کہ ایک معمول کا جنسی تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی اپنے شوہروں کے ساتھ جنسی تعلق کا بنیادی حق ہے، یا یہ ہم جنس پرستوں کی شادی کے معاملے میں یہ بنیادی حق کس طرح نافذ ہوگا۔

یہ تبصرے صرف غلط فہمی یا دماغی صحت کی شرائط کی غلط تشریح سے کہیں زیادہ ہیں۔ متاثرین کو کیا امید ہوگی جہاں ہمارے عدالتی نظام کو آزادانہ طور پر خواتین کی جسمانی خوشحالی سے زیادہ مردوں کی ضرورت اہم دکھائی دے۔ ان معذور افراد کو کس طرح اس سلسلے میں قانون کی آنکھوں میں صحت مند اور رضامندی سے تعلقات کی توقع ہونی چاہیے؟

جنسی حملے اور کم سزا کی شرح برقرار رہے گی کیونکہ اس جیسی رائے کو بغیرجواب طلبی کے جاری کرنے کی اجازت دی جائے اور ہم اگر اسے نظر انداز کرتے رہیں گے تو بہتری کی امید کم ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ