ناصر کاظمی کے بغیر اردو غزل آج کہاں کھڑی ہوتی؟

دھیمے سروں میں کلاسیکی رچاؤ کے نغمے سنانے والے شاعر ناصر کاظمی کی برسی پر خصوصی تحریر۔

(ناصر کاظمی فاؤنڈیشن)

1942 کا واقعہ ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں آل انڈیا ریڈیو کے اہتمام ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ صدارت عابد علی عابد کی تھی اور اس میں ہندوستان کے کئی نامی شاعر موجود تھے۔

لیکن مشاعرے کے دوران ایک 17 سالہ نوجوان نے دھیمی آواز اور اس سے بھی دھیمے سروں کی غزل سنائی جس نے سب کو چونک جانے پر مجبور کر دیا۔

یہ غزل تھی:

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

کچھ تو شاعر کی نوجوانی، اداس لہجہ، اداس فضا اور کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ نئی بات۔ شہر میں گویا منادی ہو گیا کہ ایک نئے شاعر کا ظہور ہو گیا ہے۔

یہ ناصر کاظمی تھے جنہوں نے بیسویں صدی میں نغمے کو اعتبار بخشا اور غزل کے متعلق تمام ناقدین کی آرا کو انہیں پر الٹ دیا۔ بظاہر جتنا آسان کام لگتا ہے اتنا ہرگز ہرگز نہیں۔ اس مشکل وقت میں ناصر نے خدائے سخن میر سے رجوع کیا اور تین باتیں سیکھیں۔

 پہلی یہ کہ نگاہ آسمان کے بجائے زمین پہ ہونی چاہیے یعنی جس ماحول میں آپ سانس لیتے ہیں وہ آپ کی شاعری میں سانس لیتا محسوس ہو۔ ناصر کے عہد میں اور ابھی تک کا سب سے بڑا تجربہ ’بٹوارہ‘ تھا۔ ناصر نے خود بھی ہجرت کی اور اس کے نتیجے میں جیسی شکست و ریخت دیکھی اس کا اظہار اس ڈھب سے کیا کہ اجتماعی تجربہ بن کے رہ گئی۔

بڑے فن کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ روح عصر کو الفاظ میں اس مہارت سے قید کرتا ہے کہ آپ اسے نظر انداز کیے بغیر اس عہد کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مغرب میں ٹی ایس ایلیٹ کی ’ویسٹ لینڈ‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ اردو شاعری میں ہجرت کو تہذیبی تجربہ اگر کسی نے بنایا تو وہ ناصر کاظمی کے سوا کون ہے۔ حیرت ہے فاروقی صاحب جیسے جیّد نقاد نے اس پہلو کو نظر انداز کر کے ناصر کو محض عشق و محبت کے حزنیہ لہجے کا شاعر کہہ ڈالا۔ ناصر کا ناسٹیلجیا ذاتی نہیں تہذیبی ہے۔ ’دیوان‘ اور ’برگ نے‘ کی ایک ایک غزل کے چند شعر دیکھیے۔ کیا یہ رویہ ذاتی محبت کی ناکامی سے پھوٹتا محسوس ہوتا ہے؟

پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتل گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوار خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے

۔۔۔

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

۔۔۔۔

دوسرا یہ کہ تجربے اور مشاہدے کو احساس بناؤ تاکہ آپ کی بات سب کی بات بن سکے۔ ممکن ہے آپ بھی اداس ہوں اور میں بھی اور یقیناً ہم دونوں کی اداسی کا سبب مختلف ہو گا لیکن اس کے نتیجے میں ردعمل اور دل کا احوال ضرور ملتا جلتا ہو گا۔ اگر شاعر اس تجربے کو بیان کرنے لگے تو دوسرے کو کیونکر دلچسپی ہو گی، لیکن شاعر تجربے سے پھوٹتی کیفیت کا کامیابی سے اظہار سکے تو آپ ضرور اسے دل میں جگہ دیں گے۔

ناصر نے اسے نہایت خوبصورتی سے واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آپ عطر کی شیشی کھولتے ہیں تو اس میں باغ اور پھول نظر نہیں آتے بلکہ ان کی خوشبو ہوتی ہے۔ ناصر کی مقبولیت میں اس عنصر کی کار فرمائی سب سے زیادہ ہے۔ ظفر اقبال بھی یہ اقرار کیے بنا نہ رہ سکے کہ ’مجھے اتنے شعر اپنے یاد نہیں جتنے ناصر کے یاد ہیں۔‘ اس کی وجہ زندگی سے شدید جڑت اور روز مرہ کے احساسات کا سیدھی سادی زبان میں اظہار ہے۔ تجربات بدلتے ہیں لیکن بنیادی انسانی رویے کم و بیش ایک جیسے ہی رہتے ہیں اور ناصر انہی رویوں کا شاعر ہے۔

تیسری اہم ترین چیز جو ناصر نے میر سے سیکھی وہ ہے لفظ برتنے کا فن۔ لفظ ہی وہ رنگ ہیں جن سے شاعر تصویر بناتا ہے اس لیے پورے شعر کا دار و مدار بہت حد تک الفاظ کی نشست و برخاست پر ہوتا ہے۔ الفاظ کے معاملے میں ایسا باخبر شخص بہت ہی کم ملے گا جیسے ناصر تھے۔ شاعری میں کہ، ہی، بھی، سا، مگر، خیر، عجب، یونہی، وغیرہ جیسے بظاہر بے ضرر الفاظ اگر درست طور پر استعمال نہ کیے جائیں تو سب سے زیادہ ضرر رساں ہوتے ہیں۔ ان معمولی الفاظ سے ناصر کیسے جادو پھونکتا ہے، چند شعر دیکھتے ہیں۔

ترے آنے کا دھوکہ سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے

سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل
مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے

۔۔۔

اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا

تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چور ہوا تھا

تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا

دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

۔۔۔

دیوانگیِ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے در و دیوار سا بھی ہو

۔۔۔

40 کی دہائی میں جب ناصر نے غزل شروع کی انہی وقتوں میں میرا جی، فیض، اور راشد کے اولین مجموعے سامنے آئے اور یہی شعرا آج تک نمایاں چلے آتے ہیں لیکن 50 اور 60 کی دہائی غزل کی بھرپور واپسی کا زمانہ ہے۔ 50 کے عشرے میں ناصر کے بعد ایک طرف ظفر اقبال، شہزاد احمد اور سلیم احمد کی نئی غزل کا شہرہ ہوا۔ دوسری طرف احمد مشتاق دھیمے لہجے کی کیفیت سے بھرپور غزل لکھتے نظر آئے۔ منیر کے ابتدائی دو مجموعوں میں بہت کم غزل نظر آتی ہے لیکن آہستہ آہستہ غزلوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ 60 کے عشرے میں مجموعہ، آب رواں اور دشمنوں کے درمیان شام غزل پر نئے شعرا کے اعتماد کا اظہار تھا۔ اسی عہد میں شکیب نے اپنی تازہ کاری سے چونکایا لیکن ایک اور اہم واقعہ یا سانحہ لسانی تشکیلات بھی تو تھیں۔

غزل نے ابھی پاؤں جمائے ہی تھے کہ لسانی تشکیلات کی ہوا سے کئی شاعروں کی سانس پھولنے لگی۔ یہ وقت غزل اور ناصر دونوں کے لیے کڑا تھا۔ کہاں وہ 1949 کا دور کہ عسکری صاحب نے ناصر کی صورت میں ایک شاعر کی آمد کا اعلان کیا تھا اور کہاں یہ وقت کہ ’پروفیسرائے ناقدین‘ ناصر کا کھیل ختم ہونے کے اشارے کرنے لگے۔

ناصر کا لب و لہجہ نرم اور کیفیت ٹھہراؤ کی سی ہے۔ ظفر اقبال اور شکیب کے ہاں مصرعے چست اور اظہار زیادہ برملا ہے اس لیے بھی ناصر کی چمک کچھ لوگوں کو ماند نظر آنے لگی۔ لیکن ناصر کی شاعری سانولے حسن کی پراسراریت رکھتی ہے جس کے نقش دھیمے لیکن اثر بہت دیر پا ہوتا ہے۔ ناصر کے دوسرے مجموعے کو بھی بہت وقت گزر چکا تھا لیکن جیسے ہی ناصر کی موت کے بعد دیوان شائع ہوا تو ’ناقدین‘ کو سانپ سونگھ گیا۔ فاروقی صاحب کی دیانت داری کو داد بنتی ہے کہ انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے اپنے موقف کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ یہ تک کہتے نظر آئے کہ اگر ناصر غزل نہ کہتا تو غزل کو ان کا منتظر رہنا پڑتا۔

 ترقی پسندوں کا رویہ ناصر اور شاعری کی طرف ایک جیسا تھا۔ ناصر جیسا شاعر اس لیے انہیں سیاسی و سماجی شعور سے خالی نظر آتا کہ یہاں نعرہ نہیں شاعری تھی، سپاٹ اور یک سطحی مصرع سازی نہیں کلاسیکی رچاؤ تھا۔ ترقی پسندوں کے نمائندہ ترین شاعر ڈرائنگ روم کے شاعر ہو گئے لیکن ناصر آج بھی گلی کوچے کا شاعر ہے۔ ناصر کو جس سانچے میں بند کرنے کی کوشش کی جائے ناکامی ہو گی کہ اس کے ہاں سماجی رویے اس قدر تحلیل شکل میں ملتے ہیں کہ ان کے اجزا الگ الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مشرقی پاکستان کے متعلق جب ناصر نے لکھا تو ماہی گیروں اور ساحلوں پہ گانے والوں کی بات کرتے ہوئے اسے بھی پورا تہذیبی رویہ بنا دیا۔ اس لیے وہ آج بھی تازہ ہے۔ ناصر کے ہاں فطرت اور لوک کلچر سے گہری جڑت کی یہ غزلیں بہترین دلیل ہیں۔

پہلی بارش ناصر کاظمی کی ایک اور جست تھی جس کی تازہ کاری، امیجز اور تخلیقی وفور کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ناصر نے عملی طور پر نمونہ فراہم کیا کہ تخلیقی تجربہ ،علامتی زبان اور سراپا نگاری کیسے کی جاتی ہے۔ جدت اور رچاؤ کی ایسی دنیا تخلیق کرنا بھلا کسی دوسرے شاعر کے بس کا کام تھا؟ 

تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا

دیواروں سے آنچ آتی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا

دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا

ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا

چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکرا تھا

بھیگے کپڑوں کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا

اک رخسار پہ زلف گری تھی
اک رخسار پہ چاند کھلا تھا

ٹھوڑی کے جگمگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایہ پڑتا تھا

چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا

اک پاؤں میں پھول سی جوتی
اک پاؤں سارا ننگا تھا 

آج ناصر کو گزرے 48 برس ہو چکے۔ ناصر نے غزل کی زمین ہی ہموار نہیں کی بلکہ ایسی عمارت بھی کھڑی کر کے دکھائی جس کی بلندی کو اس کے بعد کوئی دوسرا شاعر ابھی تک نہیں چھو سکا۔ ناصر کے بعد غزل میں جتنے تجربے ہوئے وہ کبھی نہ ہو پاتے اگر ناصر ایسی مضبوط بنیاد فراہم نہ کرتا۔ آج بھی غزل ہمارا سب سے تگڑا طرز اظہار ہے جس کی پشت پر ناصر کی موجودگی سب سے اہم واقعہ ہے۔ جو بساط ناصر نے بچھائی اس پہ کئی پیادے آئے لیکن بادشاہ کے روپ میں آج بھی ناصر پورے اعتماد سے کھڑا ہے۔

فرصت میں سن شگفتگی غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب