کیا التجا مفتی کشمیری سیاست کا نیا چہرہ ہیں؟

محبوبہ مفتی نے گذشتہ برس سینیئر ارکان کے اخراج کے بعد پارٹی کی از سر نو تشکیل کا وعدہ کیا تھا۔ اب ان کی 35 سالہ بیٹی کشمیر کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے والی ہیں۔

التجا مفتی نے حال ہی میں ایک ویڈیو سیریز جاری کی ہے جس کا مقصد ان کے مطابق ان مسائل اور فیصلوں پر روشنی ڈالنا ہے جو ہماری زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں (التجا مفتی ٹوئٹر)

پانچ اگست 2019 کو جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کے بعد علیحدگی پسند اور بھارت کے حمایتوں سمیت خطے کی تمام سیاسی قیادت کو حراست میں لیا تو اس وقت یہ 32 سالہ التجا مفتی ہی تھیں جو ٹی وی نیوز چینلوں پر غداری سے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کرتی نظر آئیں۔

التجا نے جموں و کشمیر کے معروف قائدین میں ایک، سابق وزیر اعلیٰ اور ایک مرکزی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اپنی والدہ محبوبہ مفتی کا ٹوئٹر ہینڈل بھی سنبھال لیا اور وزیراعظم نریندر مودی سمیت بھارتی حکومت پر تنقید کرنے لگیں۔

ایک طرح سے وہ اس وقت بہت سے ان کشمیریوں کے لیے غیر سرکاری  ترجمان بن کر ابھریں جو انٹرنیٹ پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی آواز بلند نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ قوم کی توجہ کا مرکز بن گئیں جو ان کے بقول محض حادثاتی طور پر ہوا۔

 وہ کشمیر کے شہر سری نگر میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ کو بتاتی ہیں: ’خوش قسمتی سے میرے پاس براڈ بینڈ کی تھوڑی بہت انٹرنیٹ سروس موجود تھی جو کام کر رہی تھی۔ میں نے حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ان صحافیوں سے رابطہ کرنا شروع کیا جنہیں میں جانتی تھی۔ اس طرح  سے یہ شروع ہوا اور پھر بڑھتا گیا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہاں مکمل سراسیمگی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی نہیں بول رہا تھا، جو بول سکتے تھے وہ اٹھائے جا چکے تھے۔‘

بھارت نے اگست اور نومبر 2019 کے درمیان کشمیر بھر میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا۔ ان میں سیاست دان، علیحدگی پسند، وکلا، طلبہ، نچلی سطح کے سیاسی کارکنان اور سماجی کارکن شامل تھے۔

التجا اپنی بات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں: ’یہاں ہر طرف اضطراب کی حالت تھی، لوگوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

محبوبہ مفتی کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے 46 دن بعد التجا نے اپنی والدہ کے ٹوئٹر ہینڈل پر پوسٹ کی، جس کے آج تین لاکھ 70 ہزار سے زیادہ فالورز ہیں، اور کہا کہ انہیں پوسٹ کرنے کی ’ضروری اجازت‘ دی گئی ہے۔

 اس مہینے کے شروع میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل نے التجا کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انہوں نے ہیش ٹیگ ’آپ کی بات التجا کے ساتھ‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو سیریز کا عندیہ دیا تھا۔

پوسٹ میں اعلان کیا گیا کہ ’کشمیر میں مایوسی اور اداسی کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ ہر روز ہم پر نئی مصیبتیں مسلط کی جاتی ہیں سو ضروری ہے کہ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ان 15روزہ ویڈیوز کا مقصد ایسے مسائل اور فیصلوں پر روشنی ڈالنا ہے جو ہماری زندگیاں متاثر کر رہے ہیں۔‘

 بہت سے لوگوں نے اس قدم کو کشمیر کے ایک سیاسی گھرانے کے ایک اور فرد کی مرکزی سیاسی دھارے میں آمد کی علامت کے طور پر دیکھا مگر التجا ابھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ وہ مجھے بتاتی ہیں، ’سچی بات ہے اس وقت میری ترجیح پارٹی نہیں۔ ان ویڈیوز کا مقصد جو کچھ ہو رہا ہے اس کے متعلق بات کرنا ہے۔‘

گذشتہ برس جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو ارکان کے اخراج کا مسئلہ درپیش تھا تو پارٹی صدر (اور التجا کی والدہ) محبوبہ مفتی نے جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دیا۔ اس وقت بہت سی رپورٹوں کے مطابق وہ کئی حلقوں میں نئے چہرے اتارنے کے لیے تیار ہیں۔ رپورٹوں میں یہاں تک کہا گیا کہ نئے سیاسی چہروں کو لا کر پارٹی ’پیدا ہونے والا جمہوری خلا پر کرنا چاہتی ہے جو ابھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔‘

التجا مفتی جانتی ہیں کہ کشمیر میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے ہوئے تین سال بیت گئے۔ وادی میں کوئی منتخب حکومت نہیں۔ آئے روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

رواں ماہ 35 برس کو پہنچنے والی التجا مفتی کشمیر کے نوجوانوں کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی ہیں کہ وہ ان کی مایوسی، اجنبی ہو کر رہ جانے اور خوف کے جذبات محسوس کر سکتی ہیں۔

 ’وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب کشمیری لڑکے راجستھان یا مدھیہ پردیش جیسی دوسری ریاستوں میں جاتے ہیں تو انہیں دھمکایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات وہ حملوں کی زد میں بھی آتے ہیں۔ یہاں (کشمیر) کے نوجوان ملک کے باقی حصوں میں مسلمانوں سے ادارہ جاتی طور پر برتا جانے والا امتیازی سلوک دیکھتے ہیں۔‘

2019 میں آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر کے اندر بے روزگاری بڑھی ہے حالانکہ مرکزی حکومت نے سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں بے روزگاری 46.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

 التجا مفتی کہتی ہیں، ’اب ایک طرف ایک نوجوان جو بےروزگار ہے، جس کے پاس ملازمت نہیں، جو احساس تحفظ سے محروم ہے اور دوسری طرف وہ دیکھتا ہے کہ باقی ملک میں ہمارے بہن بھائیوں، اقلیتی برادریوں، دلت اور عیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو وہ بہت سوچ سمجھ کر شعوری انتخاب کرتا ہے۔‘

التجا مفتی کے بقول وہ جس ’شعوری انتخاب‘ کی بات کر رہی ہیں وہ ہے عسکریت پسند بننا۔ کشمیر 1980 کی دہائی کے اواخر سے پرتشدد بغاوت کا شکار چلا آ رہا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کی ریاستی دستوں کے ساتھ تصادم ہوا اور اس میں 2002 تک 40 ہزار سے لے کر 80 ہزار تک لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

بھارتی فوجیوں اور عام ہندوؤں کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں آج بھی جاری ہیں۔

یہ ممکن ہے متنازع لگے مگر التجا کہتی ہیں وہ کچھ نوجوانوں کے عسکریت پسند گروہوں میں شمولیت کے پیچھے موجود خواہش کو سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ صرف وہی لوگ نہیں جو تعلیم سے بےبہرہ ہوں۔

’یہ تعلیم یافتہ نوجوان پی ایچ ڈی، ڈاکٹر، وکلا اور ماہرین تعلیم ہیں جو وادی کے عسکریت پسند گروہوں کا حصہ بن رہے ہیں۔‘

التجا کہتی ہیں: ’آرٹیکل 370 کی غیر قانونی تنسیخ کے بعد کشمیری نوجوانوں میں مایوسی اور بےسمتی کے احساس میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔

’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب حکومت کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کے احکامات جاری نہ کرتی ہو۔ یہاں عزت، تحفظ، معاش اور سکیورٹی کا نام و نشان تک نہیں۔‘

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’اجنبی بن کر رہ جانے کے احساسات اس حقیقت سے جڑے ہیں کہ بھارت ایک مخصوص نسلی گروہ پر مشتمل جمہوری ریاست بننے کے راستے پر گامزن ہے جہاں معاشی اور سماجی تفریق اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک ادارہ جاتی پالیسیوں کا حصہ ہے۔‘

التجا کہتی ہیں کہ اس سے ’بی جے پی کے مقاصد پورے ہوتے ہیں کہ وہ مقامی عسکریت پسندی میں اضافے کو پاکستان سے منسوب کرے اور اس کی کوکھ سے تہذیبوں اور مذاہب کا تصادم برآمد کرے جبکہ حقیقت میں اس کا سبب موجودہ حکومت کا اقلیتوں سے سلوک ہے جس میں کشمیری نوجوانوں کو دیوار سے لگا کر انہیں مایوس کر دیا گیا ہے۔‘

جب سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 2015 میں بی جے پی سے اتحاد کیا اسے ہر طرف سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی جے پی نے جون 2018 میں جموں اور کشمیر کے اندر پی ڈی پی کی قیادت پر مشتمل حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ اس کے بعد سے وادی میں کوئی منتخب حکومت نہیں۔

التجا مفتی کہتی ہیں: ’وجوہات (وادی میں پی ڈی پی کی کم ہوتی مقبولیت اور گرتی ہوئی ساکھ کی) سب کے سامنے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب پارٹی برے حالات میں ہے لیکن ’ایسا نہیں کہ ہمیشہ پاتال میں‘ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارٹی سے کچھ اراکین کا اخراج بھی ہوا جسے مفتی یہ دعویٰ کرتے ہوئے مسترد کرتی ہیں کہ پارٹی کی صفوں میں بہت سا تازہ خون بھی تو شامل ہوا ہے۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے رواں سال کے آغاز میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات تبھی کرائے جائیں گے جب حد بندیوں کا عمل تکمیل کو پہنچے گا اور جب مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں حالات معمول پر آ جائیں گے پھر ریاستی نظام بحال کر دیا جائے گا۔

التجا نے امت شاہ کے بیانات کو واہیات قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ ان کو یقین ہے کہ یہ بی جے پی کی ریاستی آبادی کا توازن تبدیل کرنے کی کوششیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’بالکل‘ ایسا ہی ہے۔ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ یہ ’طاقت کا شکنجہ برقرار رکھنے اور اس کی نگرانی کے مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔‘

اس سلسلے میں رائے کے لیے دی انڈپینڈنٹ نے بی جے پی سے رابطہ کیا۔

التجا مفتی کا خیال ہے کہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو اس وقت اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انہیں خدشہ ہے ’پھر یقیناً ایک بہت تاریک مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

 وہ اس حوالے سے بہت احتیاط پسند ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ ’میں ٹوئٹر یا سوشل میڈیا کی مشہور ہستی نہیں بننا چاہتی جو زمینی حقائق سے کٹی ہوتی ہے۔‘ وہ یہ بھی نہیں چاہتیں کہ انہیں ’اشرافیائی، بورژوا قسم کی لڑکی‘ کہہ کر مسترد کر دیا جائے۔

دراصل پارٹی کے کچھ کارکنان التجا مفتی کو مرکزی سیاسی دھارے میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ 16 جون کو راجوری ضلع میں پی ڈی پی کی ایک میٹنگ میں کارکنان نے التجا مفتی سے شدید اصرار کیا۔ پارٹی کے بہت سے اندرونی افراد بھی انہیں اپنی والدہ کے جانشین کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 کشمیریوں کی ذہنی صحت پر جبر اور کشیدگی کے مرتب ہونے والے اثرات پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کشمیر میں جب بھی انتخابات ہوں ان میں شرکت کرنے والی ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ ذہنی صحت کو اپنے منشور کا حصہ بنائے۔

وہ کہتی ہیں: ’ایک ایسے فرد کے طور پر جو خود اس (ڈپریشن) سے لڑتی رہی میں جانتی ہوں کہ ذہنی صحت، ڈپریشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کتنے مراعات یافتہ ہیں یا کتنے نہیں ہیں۔‘

تاہم کچھ لوگ اس بارے میں پراعتماد نہیں کہ التجا وادی کے سیاسی منظر نامے میں کوئی تبدیلی لائیں گی۔

نئی دہلی میں سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک سینئر وزٹنگ فیلو پروفیسر صدیق واحد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ کشمیر میں پی ڈی پی کی کسی بھی طرح کی ’بحالی‘ کے بارے میں ’شکوک و شبہات‘ کا شکار ہیں۔

’کشمیر کی سیاست میں پی ڈی پی کی واپسی سے متعلق میں خدشات کا شکار ہوں کیونکہ اے) یہ وہ جماعت ہے جس نے ریاست کی سیاست میں بی جے پی کو حالیہ داخلے کی اجازت دی اور بی) وہ اندرونی سیاسی مزاحمت کے مشترکہ ڈھانچے کے بجائے پس پردہ ڈیل کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر وہ ان خود ساختہ خامیوں کو دور کر سکیں تو پھر شاید اپنی ساکھ بحال کرنے کا امکان ہو۔‘

التجا مفتی کہتی ہیں فی الحال ان کے پاس پی ڈی پی کی بحالی میں تعاون کرنے کے لیے کوئی نسخہ موجود نہیں لیکن اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ پہلا کام ’انہیں (کشمیر کے لوگوں کو) تحفظ اور عزت کا احساس دلانا ہے۔ یہی چیز غائب ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین