کیا پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نے اکیلے تجویز کیا؟

1933 میں پیش ہونے والے پاکستان کے قیام کے اولین منصوبے کو قائداعظم اور علامہ اقبال نے غیر سنجیدہ اور ناقابل عمل تجویز قرار دے دیا تھا۔

چوہدری رحمت علی نے 90 برس پہلے ایک کتابچہ لکھا جو پاکستان کی بنیاد بنا (پبلک ڈومین)

28  جنوری، 1933 کو کیمبرج، انگلستان سے پاکستان نیشنل موومنٹ نامی تنظیم نے چار بڑے صفحات پر مشتمل ایک سائیکلو سٹائل کتابچہ شائع کیا جس کا نام تھا NOW OR NEVER, ARE WE TO LIVE OR PERISH FOREVER ۔

تاہم یہ کتابچہ NOW OR NAVER یعنی اب یا کبھی نہیں کے نام سے زیادہ معروف ہوا۔ اس کتابچہ کے آخر میں جن چار اصحاب نے دستخط کیے تھے ان میں چوہدری رحمت علی، صاحبزادہ شیخ محمد صادق، خیبر یونین کے معتمد عنایت اللہ خان (آف چار سدہ) اور خیبر یونین کے صدر محمد اسلم خان خٹک شامل تھے۔

کتابچے پر ان چار افراد کے دستخط سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ یہ کتابچہ ان چاروں افراد کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے مگر حقیقت کیا ہے یہ بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ کتابچہ تیسری گول میز کانفرنس کے انگریز اور ہندوستانی شرکا میں تقسیم کیا گیا۔ اس کتابچے میں ہندوستان میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی اور اسے ’پاک ستان‘ (PAKSTAN)  کا نام دیا گیا۔

گول میز کانفرنس کے ایک انگریز مندوب سر ریجنالڈ کروک نے اس کتابچہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور اس کے بارے میں کانفرنس میں شریک مسلمان مندوبین سے سوالات کیے مگر مسلمان مندوبین میں سے اکثر نے، جن میں علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے اکابر شامل تھے، اسے ایک غیر سنجیدہ طالب علمانہ اور ناقابل عمل تجویز قرار دیا۔

کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سے عبداللہ یوسف علی نے بھی اسے ایک طالب علمانہ تجویز قرار دیا اور سر ظفر اللہ خان نے جو بعد میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے اسے ایک قیاسی، ناقابل عمل اور بے بنیاد تجویز قرار دیا اور کہا کہ اس تجویز میں کوئی بات قابل غور نہیں۔

ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے کہاکہ اب تک کسی نمائندہ فرد یا تنظیم نے ایسی کسی سکیم پر نہ غور کیا ہے اور نہ اسے درخوراعتنا سمجھا جائے۔

1980 کی دہائی میں جسٹس جاوید اقبال نے بتایا کہ قائداعظم چوہدری رحمت علی کی سکیم کو ایک ایسی اناڑی کی سکیم سمجھتے تھے جو تاش کے پتے ہاتھ میں رکھنے کے بجائے سب کو دکھا دے۔

مشہور مؤرخ خورشید کمال(کے کے) عزیز نے چوہدری رحمت علی کی سوانح حیات میں قیاس کیا ہے کہ چوہدری رحمت علی اس کتابچے کا عنوان انیسویں صدی کے یہودی سیاسی مفکرلیون پنسکر کی کتاب  "Auto-Emancipation" سے اخذ کیا تھا جو 1882 میں شائع ہوئی تھی اور اس میں لیون پنسکر نے لکھا تھا کہ اب ہمارا راہبر فقرہ Now or Never ہو گا۔

کے کے عزیز مزید لکھتے ہیں کہ ’ناؤ اور نیور‘ کا پورا مسودہ چوہدری رحمت علی نے تن تنہا تحریر کیا تھا، لیکن اسے ایک نمائندہ حیثیت دینے کے لیے انہوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کی تلاش شروع کی جو اس پمفلٹ پر ان کے ساتھ دستخط کر دیں۔

یہ تلاش آسان ثابت نہ ہوئی کیوں کہ ہندوستانیت کی گرفت برطانوی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوانوں پر اس قدر مضبوط تھی کہ انہیں تین ماہ سے زیادہ عرصے کی تلاش کے بعد لندن میں صرف تین نوجوان ایسے ملے جنہوں نے اس پمفلٹ کو پڑھنے اور اس پر بحث و مباحثہ کرنے کے بعد اس پر دستخط کرنے اور اس بارے میں اپنے تعاون کی پیشکش کی۔

ان نوجوانوں کے نام محمد اسلم خان خٹک (صدر، خیبر یونین)، شیخ محمد صادق (صاحبزادہ) اور عنایت علی خان (آف چار سدہ) (سیکریٹری، خیبر یونین) تھے۔

ان دستخط کرنے والوں میں سے کوئی بھی کیمبرج کا طالب علم نہ تھا۔ محمد اسلم خان خٹک اوکسفرڈ میں تھے، صاحبزادہ شیخ محمد صادق بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور لندن میں کسی انز آف کورٹ کے طالب علم تھے جبکہ خان عنایت اللہ خان انگلینڈ کے کسی ویٹرنری کالج کے طالب علم تھے۔

اسلم خٹک نے اس پمفلٹ پر خود خیبر یونین کے صدر کی حیثیت سے دستخط کیے اور عنایت اللہ خان نے اس یونین کے سیکریٹری کی حیثیت میں۔

کے کے عزیز نے ان دستخط کنندہ گان کا تعارف اس طرح کرایا ہے: ’ہمیں صاحبزادہ محمد صادق کے بارے میں کسی قسم کا کوئی علم نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ جونا گڑھ ریاست کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

’اسلم خان خٹک جن کا تعلق شمال مغربی سرحدی صوبے سے تھا وہ اوکسفرڈ یونیورسٹی میں گریجویشن کے طالب علم تھے بعدازاں وہ صوبائی ایجوکیشن سروس میں اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان ڈپلومیٹک سروس میں چلے گئے۔

’عنایت اللہ خان کے بارے میں رحمت علی نے 1947 میں بتایا کہ وہ کسی ویٹرنری کالج میں نہ تھے بلکہ انجینیئرنگ کے کسی ادارے میں تھے۔

’رحمت علی نے یہ بتایا کہ ان طلبہ کا کام صرف اس اعلان پر دستخط کرنے تک محدود رہا اور بعدازاں انہوں نے پاکستان کا نام رکھنے یا پاکستان کے تصور کی تشہیر میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘


کے کے عزیز نے مزید لکھا ہے: ’خٹک اور عنایت اللہ نے مارچ 1933 میں اس کتابچے سے دست برداری اختیار کر لی تھی۔

’عنایت اللہ خان نے 1934 میں لندن یونیورسٹی سے سول انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی، ہندوستان واپس آکر پہلے تو انہوں نے پشاور میں میونسپل انجینئر کی حیثیت میں کام کیا اور اس کے بعد صوبائی پی ڈبلیو ڈی سے وابستہ ہو گئے، جہاں سے وہ 1966 میں ریٹائر ہوئے۔‘

عنایت اللہ نے کے کے عزیز کو بتایا کہ جنوری 1933 میں اسلم خٹک، رحمت علی کو ان سے ملوانے کے لیے ان کی قیام گاہ پرآئے اور بحث و مباحثے کے بعد ان تینوں نے اس اعلان پر دستخط کردیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ Now or Never پر دستخط کرنے کے بعد ان کی چوہدری رحمت علی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ رحمت علی کے دلائل سے قائل ہوکر Now or Never پر دستخط کرنے والے یہ تینوں طلبہ اپنے دستخطوں پر پچھتائے اور آئندہ کے لیے اس بارے میں اپنے تعاون سے دستبرداری اختیار کر لی۔

 کے کے عزیز لکھتے ہیں: ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ نے رحمت علی کے نہایت مضبوط دلائل کے تحت اور ان کی بارعب شخصیت سے متاثر ہوکر دستخط تو کر دیے تھے، اب انہوں نے اس بارے میں دوبارہ غور کیا اور اپنے دستخطوں سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘

17 مارچ، 1933 کو اسلم خٹک نے رحمت علی کو ایک خط لکھا جو نیشنل میوزیم کراچی میں محفوظ ہے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا کہ ’میں یہ کہنے کی معذرت چاہتا ہوں کہ آج خیبر یونین کی انتظامیہ نے آپ کے اعلان سے اپنی لاتعلقی کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اسی خط میں اسلم خٹک نے مزید تحریر کیا کہ ’خیبر یونین کے صدر کی حیثیت سے میں یہ بتانے کی خواہش رکھتا ہوں کہ اس یونین کا Now or Never کے عنوان کے تحت چھپنے والے پمفلٹ سے کوئی تعلق نہیں۔

خیبر یونین کے صدر (یعنی میں) اور سیکریٹری (عنایت اللہ) نے اس پمفلٹ پر دستخط اپنی ذاتی حیثیت میں کیے تھے ناکہ خیبر یونین کے نمائندوں کی حیثیت میں جو مکمل طور پر ایک سماجی تنظیم ہے اور اس کا کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


کے کے عزیز لکھتے ہیں: ’اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس اعلان کے مصنف صرف اور صرف رحمت علی تھے، لیکن اس کے نیچے چار دستخطوں نے اس بات کو مستقل طور پر ذہنوں میں ڈال دیا کہ یہ تصور مسلم طلبہ کے ایک گروہ کا تھا۔‘

چوہدری رحمت علی نے تین فروری 1951 کو وفات پائی جبکہ اسلم خٹک کا انتقال 10 اکتوبر، 2008 کو ہوا۔

وہ سول سروس اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ افغانستان اور ایران میں سفارت کار کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے اور کئی مرتبہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کی یادداشتیں بھی ’اے پٹھان اوڈیسی‘ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ