پاکستان ہائی کمیشن لندن نے نیشنل لبرل کلب لندن میں قائداعظم کے پورٹریٹ کی رونمائی کی ہے جسے ترکی کے مشہور لبرل آرٹسٹ کیا مار نے بنایا ہے۔
اطالوی طرز تعمیر کا شاہکار لبرل کلب دریائے ٹیمز کے کنارے پر واقع ہے جس کی بنیاد برطانیہ کے تین بار وزیراعظم رہنے والے ولیم گلیڈ سٹون نے 1882 میں رکھی جو اگلے پانچ سالوں میں مکمل ہوا۔ اس وقت یہ لندن کا سب سے بڑا کلب تھا جس کا مقصد شروع میں لبرل پارٹی کے اراکین کو کلب کی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ کلب کے ارد گرد ویسٹ منسٹر، وائٹ ہال پیلس، ٹریفالگر سکوائر کی تاریخی عمارات واقع ہیں۔
اس کلب کی خاصیت یہ ہے کہ قائداعظم 16جون 1913 کو اس کے رکن بنے، کلب میں قائداعظم کے ہاتھ سے بھرا ہوا رکنیت کا فارم آج بھی موجود ہے۔ قائداعظم کی اس تاریخی کلب کے ساتھ وابستگی کا کھوج لگانے میں لندن کے چند نوجوانوں کو کردار بہت اہم ہے جن میں بلال شیخ، عارف انیس اور سمیر محمود شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان کو بھی اس مہم میں شریک کیا۔ جنہوں نے کلب کے موجودہ انتظامیہ کو قائل کیا کہ بانی پاکستان چونکہ ا س کلب کے رکن رہے ہیں اس لیے ان کا پورٹریٹ یہاں لگایا جائے۔
عارف انیس کہتے ہیں کہ ’نیشنل لبرل کلب کئی اعتبار سے جناح کے پرستاروں اور پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے اہم جگہ ہے۔ اسی کلب کے سیڑھیوں پر وہ چلے، کمروں میں بیٹھ کر بحثیں کیں۔ کھانے کھائے، کافیاں پیں اور سگار پھونکے، ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھا جو بالآخر پاکستان کی آزادی تک پہنچا ۔ قائداعظم لندن میں وقتاً فوقتاً 20 برس گزارے۔ لنکنز ان میں ان کی یادگار موجود ہے اور اب لبرل کلب میں بھی ان کی تصویر لگا دی گئی ہے، اب ہماری اگلی منزل برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے ان کا مجسمہ نصب کروانا ہے۔‘
بلال شیخ جو کہ اس اہم کارنامے کے روح ِ رواں اور مونٹ روز کالج کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میں 2019 میں جب اس کلب کا رکن بنا تو مجھے بتایا گیا کہ قائداعظم بھی اس کلب کے رکن رہ چکے ہیں۔ میں نے یہاں پر دادا جی نورو بھائی کی پورٹریٹ لگی دیکھی تو میں نے سوال کیا کہ قائداعظم کی پورٹریٹ یہاں کیوں نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب نہ صرف کوئی دینے کو تیار نہیں تھا بلکہ جب میں نے یہ جدوجہد شروع کی تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ دادا جی نورو بھائی کا پورٹریٹ بھی لارڈ بیلا مور نے لگوایا تھا۔
انہوں نے دادا جی نورو بھائی کی تصویر جس ترک آرٹسٹ سے بنوائی تھی قائداعظم کا پورٹریٹ بھی ہم نے اسی مصور سے بنوایا ہے۔
نیشنل لبرل کلب کی خاصیت یہ تھی کہ یہ اپنی قدروں میں آزاد تھا یعنی یہاں صرف گوروں کو ہی نہیں دوسری قومیت کے لوگوں کو بھی رکنیت دی جاتی تھی اور یہ لندن کا پہلا کلب تھا جہاں عورتوں کو بھی رکنیت ملتی تھی۔
تاہم ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے اس کلب کی اہمیت صرف قائداعظم کا رکن ہونا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی آزادی کے پہلے رہنما دادا بھائی نورو جی اس کے پہلے رکن تھے، جن کا تعلق نسلی اقلیت سے تھا۔ وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس کے بانی صدر تھے بلکہ 1892 میں وہ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے ایشیائی رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائداعظم بھی دادا جی نورو بھائی سے اکتساب فیض پانے والوں میں شامل تھے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ دادا جی کی ہی آواز اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں تھیں جنہوں نے آگے چل کر ہندوستان میں انگریز استعماریت کے خلاف مزاحمت پیدا کی۔ دادا جی نورو بھائی اس کلب کے رکن 1885 میں ہی بن گئے تھے جبکہ کلب قائم ہوئے ابھی صرف تین سال ہوئے تھے۔ کلب میں ان کے نام سے ایک میٹنگ روم بھی موجود ہے۔ ان کے بعد سی پی رامیش وانی جو ریاست ٹراونکور کے وزیراعظم بنے، گاندھی کے اتالیق گوپال کرشنا بھی اس کلب کے رکن رہ چکے ہیں اور گاندھی بھی ان کے مہمان بن کر اس تاریخی کلب میں آ چکے ہیں۔
کلب میں کئی نامور ڈرامے اور فلمیں بھی شوٹ ہو چکی ہیں۔ کلب کے ارکان میں برطانیہ کی نامور سیاسی، سماجی، کاروباری اور ادبی شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ونسٹن چرچل بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کا یہ ممتاز اور تاریخی کلب دنیا کے اڑھائی سو سے زیادہ کلبوں کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ یعنی اس کلب کے رکن کو دنیا بھر کے ممتاز کلب بھی رکنیت دیتے ہیں جن میں پاکستان کا اسلام آباد کلب، لاہور جم خانہ، چناب کلب، کراچی جم خانہ اور کوئٹہ کلب شامل ہیں۔