سرسبز و بلند پہاڑوں میں گھرے کوہالہ کے تاریخی پل ’بابِ کشمیر‘ کو پار کر کے دریائے جہلم کی مخالف سمت میں مظفرآباد شہر کی جانب سفر کریں تو یہاں گھنے سرسبزو شاداب درخت، فلک بوس پہاڑ، بہتے پانی کے چشمے، آبشاریں، شفاف دریائے جہلم کا نیلا پانی اور تازہ ہوا کے جھونکے جنتِ ارضی کا سماں پیش کرتے ہیں۔
یہ مقام نیلم ویو پوائنٹ کے نام سے ایک ممتاز حیثیٹ رکھتا ہے۔ حسین اور دلکش مناظر سے بھرپور اس وادی سے گزرتے ہوئے آگے بڑھیں تو تین کلومیٹر دور، برسالہ گاؤں کے سنگم پر، دریا کنارے ایک صدی پرانا ڈوگرہ راج کے طرزِ تعمیر کا بنگلہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا نظر آتا ہے۔
مقامی تراشیدہ پتھر، قیمتی لکڑی اور چادر سے بنے خوبصورت فنِ تعمیر کے حامل اس تاریخی ریسٹ ہاؤس کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 26 جولائی، 1944 کو کشمیر کے دورے کے بعد سری نگر سے راولپنڈی واپسی پر یہاں قیام کیا تھا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ سیاحت کے تحت چلائے جانے والا یہ ریسٹ ہاؤس یہاں آنے والے سیاحوں کی آنکھوں کو نہ صرف اپنے حسین نظاروں سے خیرہ کرتا ہے بلکہ بڑی حد تک سیاحتی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔
قائد اعظم ٹورسٹ لاج برسالہ میں تعینات نگران منتظم محمد ظہور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ کاٹیج، جسے قائداعظم میموریل ریسٹ ہاؤس بھی کہتے ہیں، اسلام آباد سے 100 کلومیٹر، جب کہ مری سے 40 کلومیٹر دور مظفرآباد روڈ پر واقع ہے۔ یہاں سے مظفرآباد کا مزید فاصلہ 30 کلومیٹر ہے۔‘
تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ جب 1849 میں انگریزوں نے لاہور دربار کی 50 سال سے قائم آزاد سلطنت کا خاتمہ کیا اور مہاراجہ گلاب سنگھ کو کشمیر فروخت کر دیا تو کوہالہ ایک دفاعی اہمیت کی حامل ریاست کشمیر اور برطانوی ہندوستان کی سرحد بن گیا۔
دریا کے آر پار انگریزوں اور سکھوں نے اپنی اپنی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ اُس پار انگریز حکام نے مختلف دفاتر اور ریسٹ ہاؤس تعمیر کیے جبکہ اس جانب مہاراجہ کا کسٹم ہاؤس، تھانہ اور یہ برسالہ ریسٹ ہاؤس بنوایا گیا۔
ظہور بتاتے ہیں کہ اس بنگلے کی تاریخی اہمیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب 1944 میں کشمیر کے دورے کے دوران محمد علی جناح نے اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ واپسی پر یہاں قیام کیا اور کشمیری سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
یہ عمارت ایک قومی ورثے کی مانند ہے۔ یہاں قائد اعظم کے عارضی قیام کے وقت زیرِ استعمال رہنے والی اشیا، جن میں سٹڈی ٹیبل، کرسی اور پلنگ ہیں، کو محکمے نے محفوظ کر کے یادگار کے طور پر رکھا ہے۔
سالہا سال ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد انہیں دیکھنے آتی ہے۔
ماہرِ تعلیم، محقق اور قانون دان سعید احمد عباسی بتاتے ہیں کہ کوہالہ صدیوں سے ایک اہم تجارتی گزرگاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔
گھکڑ اقتدار کے بعد جب اٹھارویں صدی کے وسط میں لاہور دربار کی حکمرانی قائم ہوئی تو کوہالہ کا بازار بھی بنا۔
بعدازاں انگریز دورِ حکومت میں اس تجارتی راہ داری کو مزید موثر بنانے کے لیے 1871 میں کوہالہ کا تاریخی پل تعمیر کروایا گیا جو حوادث زمانہ اور سیلابی ریلوں کا شکار ہوتے ہوئے اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہا لیکن آج بھی خستہ حال شکل میں موجود ہے۔
اسی پل کی بدولت راولپنڈی کا سرینگر سے تجارتی رابطہ قائم ہوا اور کشمیر اور پنجاب باہم منسلک رہے۔
فاضل مصنف اور صحافی عبیداللہ علوی مرحوم نے لکھا: ’1947 تک کوہالہ کی 85 فیصد تجارت ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھی اور مقامی مسلمان محض خریدار تھے۔
یہاں ہندو ساہوکار مقامی لوگوں سے اونے پونے غلہ خریدتے اور پھر انہیں ہی تین گنا قیمت پر واپس بیچتے۔‘
1948 میں کشمیر کی لڑائی کے ایک اہم کردار سردار یعقوب خان آف عباسیاں کے پوتے اور سیاست دان ساجد قریش کے بقول کوہالہ کو ہر دور میں ایک امتیازی حیثیت حاصل رہی مگر برطانوی راج کے دوران اور اس کے بعد یہ ’بابِ کشمیر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول انگریز نے اس کی سیاسی، دفاعی اور تجارتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے سیاحتی مقام بھی بنایا اور دریا کے اُس پار جو علاقہ برطانوی راج کے ماتحت تھا، میں ایک عالیشان ریسٹ ہاؤس، تار گھر اور کئی اور اہم عمارات تعمیر کیں جب کہ دریا کے مشرقی جانب ڈوگرہ ہندو حکمرانوں نے تعمیرات کیں۔
عہدِ حاضر میں اگرچہ انگریز کی قائم کردہ تعمیرات حکومت پنجاب کی عدم توجہی کے باعث منہدم ہو چکی ہیں۔
وہیں دوسری جانب ڈوگرہ دور کی تعمیرات، جن میں قائد اعظم میموریل ہٹ بھی شامل ہے، کو محکمہ سیاحت نے مکمل تزئین و آرائش کے بعد نہ صرف اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر رکھا ہے بلکہ اس سے تاریخی سیاحت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔
'آج وادیِ نیلم کی سیر کو جانے والے سیاح، جنہیں تاریخ اورثقافت سے گہرا لگاؤ ہے، کوہالہ پل پار کر کے کشمیر میں داخل ہوتے ہی اپنا پہلا پڑاؤ اسی مقام پر کرتے ہیں جہاں ہر طرف سکون کا ڈیرہ ہے۔ یہ سیاح دنیا کے شور وغل سے دُور قدرتی رعنائیوں سے بھرپور قائدِاعظم کی رہائش گاہ کو قریب سے دیکھ کر یوں محسوس کرتے ہیں کہ جیسے آج ہی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح اس مقام پر آرام کر کے کہیں آگے نکلے ہوں۔‘