کیا پاکستان کو بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے؟

حال ہی میں سیاستدانوں کے علاوہ عدلیہ نے بھی ڈیموں کی متنازعہ سیاست میں قدم رکھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ایک ڈیم بنانے کا بھاری بیڑہ اٹھایا۔ یہ کام کسی طرح بھی ان کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا۔

تربیلا ڈیم سپل وے کا ایک فضائی منظر (اے ایف پی)

پاکستان میں ڈیم بنانا یا ان کی جگہ کا انتخاب ہمیشہ ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ خاص طور پر سیاسی اور علاقائی وجوہات کی بنا پر کافی متنازع رہا اور اسی وجہ سے مشرف دور میں تھوڑی بہت پیش رفت کے باوجود یہ ڈرائنگ بورڈز اور پلاننگ بورڈز تک ہی محدود رہا۔

حال ہی میں سیاستدانوں کے علاوہ عدلیہ نے بھی ڈیموں کی متنازعہ سیاست میں قدم رکھا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے، جو کہ میڈیا میں پیش پیش رہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، بھی ایک ڈیم بنانے کا بھاری بیڑہ اٹھایا۔ یہ کام کسی طرح بھی ان کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک طرح سے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا، سول اور فوجی ملازمین اور بینکوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کی ذہنی اختراع کے پودے کی مالی آبیاری کریں۔

یہ کسی بھی مہذب ریاست میں ایک غیرقانونی کام سمجھا جاتا اور آئینی اور قانونی ادارے حرکت میں آ جاتے مگر اس ملک ناپرساں میں چیف جسٹس کے غیرقانونی احکامات کے خلاف آواز آپ اپنے گھاٹے پر ہی اٹھا سکتے تھے جو عین ممکن ہے کہ توہین عدالت اور جیل یاترا پر منتج ہوتا۔ اب چاہیے تو یہ کہ ثاقب نثار کے اس غیرآئینی اور غیرقانونی اقدام کے خلاف سول سوسائٹی عدالت عالیہ کی قانونی رائے لے تاکہ پھر آئین و قانون کے کسی اور رکھوالے کو اس طرح کا کام کرنے کی جرأت نہ ہو۔

عموما بڑے ڈیم بنانے کے تین مقاصد ہوتے ہیں۔ اول بجلی پیدا کرنا، دوم آبپاشی کے لیے پانی مہیا  کرنا اور سوم سیلابوں سے بچاؤ کے کام آنا ہے۔ لیکن یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ان بڑے ڈیموں کے نقصانات بھی اسی طرح بڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جن جگہوں پر بڑے ڈیم بن سکتے ہیں وہ زلزلہ والی فالٹ لائن پر یا اس کے قریب واقع ہیں۔ مثلاً پچھلے ماہ کا زلزلہ، جو کہ منگلا ڈیم کے قریبی علاقے میں آیا، اگر ذرا بھی زیادہ شدت کا ہوتا تو ڈیم کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں بڑی آبادیوں والے وسیع علاقے سیلاب کی تباہی کا سامنا کر رہے ہوتے۔ ماہرین کے مطابق بھاشا ڈیم بھی فالٹ لائن کے انتہائی قریب ہے اور یہ کسی بھی بڑے زلزلے کی صورت میں پورے ملک کو ایک بہت بڑی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔

اسی طرح بڑے ڈیم بنانے کے لیے بڑی جھیل کی بھی ضرورت پڑتی ہے جسے بنانے کے لیے کئی دیہات اور قصبوں کو خالی کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً ہزاروں خاندان اپنے صدیوں کے آبائی مکانوں کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو کہ ان بڑی آبادیوں کے لیے نہ صرف ایک جذباتی بلکہ مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ان متاثرین کو قانونی طور پر طے شدہ معاوضہ دینے کی بھی کوئی روایت نہیں ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد بھی تربیلا اور منگلا ڈیم کے بےشمار متاثرین کے نقصان کا ابھی تک مکمل طور پر مالی ازالہ نہیں کیا گیا ہے جو کہ ایک طرح سے حکومتوں کے لیے نہ ختم ہونے والے سیاسی اور سماجی مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بڑے ڈیم کے لیے خطیر سرمایہ کاری اور طویل وقت درکار ہوتا ہے اور عموما تکمیل تک اخراجات ابتدائی تخمینہ سے بہت تجاوز کر چکے ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 1934-2007 کے درمیان بننے والے 245 بڑے ڈیموں کی لاگت ابتدائی تخمینے سے تقریبا 96 فیصد زیادہ رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں ہمارے ڈھنگ تو کچھ نرالے ہی ہیں۔ حالیہ نیلم جہلم آبی منصوبے میں ابتدائی تخمینے سے ناقابل یقین 500 فیصد سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ ان مسائل کے علاوہ بڑے ڈیموں کے چنیدہ نقصانات میں ماحولیاتی نظام کی تباہی اور دریاؤں کے ڈیلٹا کا کٹاؤ بھی شامل ہیں۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت ساری قدرتی آفات ہمارے ماحولیاتی نظام کے بارے میں عدم توجہی اور اس میں منفی تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ شمالی امریکہ میں انہی بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے بہت سارے بڑے ڈیموں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔

ان گمبھیر مسائل کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ ڈیموں کی مختصر زندگی ہوتی ہے۔ تربیلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں پچھلے 40 سالوں میں تقریبا 36 فیصد کمی ہوگئی ہے اور منگلا ڈیم کے بننے کے صرف 35 سال بعد ہمیں خطیر قرضہ حاصل کرنا پڑا ہے تاکہ ڈیم کی تہہ میں بڑھتی ہوئی مٹی کی وجہ سے اس کی دیواروں کو اونچا کیا جائے۔ تو یہ مسائل اور اخراجات ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کب تک اور کہاں تک دیواروں کو اونچا کرتے رہیں گے اور کیا انجینئرنگ کے اصولوں کی بنیاد پر یہ ممکن بھی ہے؟

آبی ماہرین اکثر بڑے ڈیموں کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کی سیلابوں کی روک تھام کی صلاحیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم واپڈا کی 1992 کی رپورٹ دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے آبی ذخیروں میں سیلاب روکنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ 1992 کے اس سیلاب کو روکنے میں منگلا ڈیم بری طرح ناکام ہوا بلکہ نقصان میں اضافے کا باعث بھی بنا۔ سیلابوں سے نمٹنے کے لیے مغربی ممالک میں ڈیموں سے ہٹ کر نت نئے حل، اصول اور طریقہ کار وضع کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں بھی ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

آبی ذخیروں کے لیے ڈیم بنانا واحد ذریعہ نہیں رہا ہم پاکستان کے تمام موجودہ اور مجوزہ ڈیموں کے ذریعے صرف 50 MAF پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں. کالا باغ ڈیم صرف 7 MAF پانی ذخیرہ کر سکے گا۔ اس کے برعکس ہمارے دریاؤں سے متصل علاقوں میں تقریبا 3000 MAF پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جو کہ جدید آبی انتظامی نظام کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے یہ نظریہ درست نہیں کہ صرف بڑے ڈیموں کے ذریعہ ہی پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ صرف لاہور میں تربیلا ڈیم کے ذخیرے کے برابر کا ایکوافر (Aquifer) موجود ہے جسے بارشوں کے پانی کو جدید طریقوں سے ذخیرہ کرنے اور دریائی نظام میں بہتری لا کے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ پانی کے موثر اور کم صرف کو نئی آبپاشی والی ٹیکنالوجی ڈرپ اور فواروں کے استعمال سے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے ہمارے زیر زمین آبی ذخائر پر بھی بڑھتا ہوا بوجھ کم ہوگا۔ اس سلسلے میں کافی زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہوگی جو کہ حال ہی میں قائم ڈیم فنڈ میں موجود رقوم سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

پانی کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے بھی اب بہت ارزاں متبادل پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پن بجلی کا تازہ ترین منصوبہ نیلم جہلم تقریبا ہزار روپے میں ایک واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اگر اس میں سود کی شرح بھی شامل کی جائے تو یہ رقم اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔ اس طرح ہم سو واٹ کے بلب پر ٹیکس دہندگان کے تقریبا ایک لاکھ روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شمسی توانائی کی ایک واٹ بنانے پر تقریبا پچاس روپے خرچ ہوتے ہیں جوکہ نیلم جہلم سے تقریبا 20 گنا کم قیمت ہے۔

اب یہ ٹیکنالوجی بھی مارکیٹ میں آ رہی ہے جس سے شمسی توانائی کو مؤثر طریقے سے محفوظ کر کے دن اور رات کو استعمال کیا جاسکے گا۔ آنے والے دنوں میں شمسی اور ہوائی توانائی کی لاگت میں اور بھی کمی ہوگی۔ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اس کی پیداواری صلاحیت اور ترسیلی نظام کو سستا، بہتر اور آسان بنانے کی ضرورت ہوگی۔

اب یہ ضروری ہے کے ان قومی مسائل کو ذاتی شہرت، سیاسی فائدے اور مالی مفاد حاصل کرنے کی بجائے انہیں حقائق پر مبنی تجزیے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو زیر نظر رکھتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کریں اور بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے ڈیموں اور بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع پر توجہ دیں۔

ان مسائل پر ایک قومی مکالمہ کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش آبی، ماحولیاتی اور توانائی کے مسائل کے بارے میں عوام کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے اور کسی بھی بڑے ڈیم کے بارے میں اتفاق رائے سے فیصلہ سازی ہونی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ