پانی کے لیے 100 کلومیٹر پیدل مارچ

دریائے سندھ کے بحرعرب میں گرنے سے پہلے آخری شہر کھارو چھان سے شروع ہونے والا مارچ آخر کار ٹھٹھہ میں اختتام پذیر ہو گیا۔

انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں پچھلے کئی دہایوں سے پانی کی قلت ہے (تصویر ذوہیب احمد)

پیر 27 جون کو دریائے سندھ کے بحرعرب میں گرنے سے پہلے آخری شہر کھارو چھان سے پانی کی شدید کمی کے خلاف شروع ہونے والا مارچ آخر کار ٹھٹھہ میں اختتام پذیر ہو گیا۔

کھارو چھان سے ڈیڑھ سو لوگوں پر مشتمل پیدل مارچ شدید گرمی کے باوجود جب ایک سو کلومیٹر بعد ٹھٹھہ پہنچا تو شرکا کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔

مارچ کے شرکا نے ٹھٹھہ کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مطالبات حل کرانے کی یقین دہانی کے بعد مارچ تو ختم کر دیا مگر اعلان کیا ہے کہ مطالبات نہ مانے گئے تو مارچ دوبارہ شروع کریں گے۔

مارچ کے سربراہ ایاز لاشاری نے اںڈپینڈنٹ اردو کو بتایا  ٹھٹھہ ضلعے کے ساحلی شہر، جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا حصہ ہیں، پانی کی شدید کمی کے باعث متاثر ہیں۔

ان کے مطابق انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں پچھلے کئی دہایوں سے پانی کی قلت ہے، جس کے باعث ماضی کے زرخیز علاقے کی زراعت مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور ہزاروں مکین ہجرت کر چکے ہیں۔

لاشاری کا کہنا تھا پچھلے سال کینالوں اور واٹر کورسوں میں پانی سیم کر ضائع ہونے کا کہہ کر حکومت نے کینال اور واٹر کورسز کو سیمنٹ سے پکا کروایا مگر غلط منصوبہ بندی کے باعث واٹر کورسز اوپر ہو گئے اور پانی آنا بند ہوگیا۔

’ہم نے یہ مارچ اسی کے خلاف کیا ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ غلط منصوبہ بندی سے پکے کیے گئے آبپاشی نظام کو درست کرکے پانی دیا جائے۔ اس پر انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد ہمارے مطالبات پر عمل کیا جائے گا بصورت دیگر ہم دوبارہ مارچ کریں گے۔‘

 کوئی بھی دریا جس جگہ سمندر میں گرتا ہے اُس علاقے کو ڈیلٹا کہتے ہیں۔ دریائے سندھ تقریباً تین ہزار کلومیٹر کا طویل سفر طے کرکے سندھ کے  ٹھٹھہ ضلعے میں بحرِ عرب سے ملتا ہے۔

سمندر میں گرنے سے پہلے دریائے سندھ 17 کریک یعنی کھاڑیوں میں بٹ کر وسیع علاقے میں پھیل جاتا ہے۔ ماضی میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا کا اعزاز رکھتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دریا کی کھاڑیاں وسیع علاقے میں پھیلی ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ زرخیز ہوا کرتا تھا، مگر دریائے سندھ پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر کے باعث ڈاؤن سٹریم کوٹری میں پانی آنا بند ہوگیا اور اس طرح ماضی کا یہ زرخیز علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

مارچ میں شریک ایک اور سماجی کارکن ذوہیب احمد نے بتایا 1991 کے پانی معاہدے کے تحت ڈاؤن سٹریم کوٹری میں کم سے کم 10 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی چھوڑنا ضروری ہے جبکہ ضرورت 35 ایم اے ایف کی ہے۔

'ضرورت کا پانی نہ چھوڑنے کے باعث ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کی 25 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین مکمل طور پر بنجر ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں ڈیلٹا کے باسی ہزاروں خاندان دربدر ہو گئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند لوگوں نے مارچ شروع کیا مگر شدید گرمی کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی، لہذا حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔'

ٹھٹھہ ضلعے سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا پانی کی صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے مگر بار بار مطالبہ کرنے کے باجود انڈس ریور سسٹم اٹھارٹی (ارسا) ڈاؤن سٹریم کوٹری میں پانی دینے کو تیار نہیں۔

’میں اس پر شدید احتجاج کرتی ہوں اور ارسا سے دوبارہ بات کروں گی۔ اس کے علاوہ ٹھٹھہ میں قائم غیرقانونی فش فارمز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات