کراچی میں ہیٹ ویو: کچی آبادی کی خواتین کیسے گزارا کرتی ہیں؟

سائیکلون ’وایو‘ کے قریب آتے ہی کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں آگیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق شہر جمعرات اور جمعہ کو ہیٹ ویو سے متاثر رہے گا جبکہ سمندری ہوائیں بھی بند رہیں گی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بحیرہ عرب میں جنم لینے والے سمندری طوفان ’وایو‘ بدھ کی صبح کو شدت اختیار کر کے کیٹگری ون کے ٹراپیکل سائیکلون میں تبدیل ہو گیا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بدھ کی صبح آٹھ بجے کراچی سے 725 کلومیٹر کی دوری پر موجود یہ انتہائی خطرناک سمندری طوفان جمعرات کی دوپہر یا شام تک بھارتی ریاست گجرات سے ٹکرائے گا اور اس طوفان کا اثر 24 گھنٹے تک رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات کے ٹراپیکل وارننگ سینٹر کے مطابق سائیکلون ’وایو‘ سے پاکستان کی ساحلی پٹی کو کوئی خطرہ نہیں تاہم اس طوفان کے اثرات کے تحت سندھ کی ساحلی پٹی بشمول بدین، ٹھٹھہ اور تھر پارکر اضلاع میں آندھی اور شدید بارشوں کا خطرہ ضرور موجود ہے۔

دوسری جانب سائیکلون ’وایو‘ کے قریب آتے ہی کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں آگیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق شہر کراچی جمعرات اور جمعہ کو ہیٹ ویو سے متاثر رہے گا جبکہ سمندری ہوائیں بھی بند رہیں گی۔

جرمن واچ نامی ادارے کے جاری کردہ گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمی تغیر سے متاثر ملکوں میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلوں کے دیگر اثرات کے ساتھ پاکستان ہیٹ ویو سے شدید متاثر ہے۔

اپریل 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو شہر کی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑی آفت مانی جاتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس ہیٹ ویو کے دوران 1300 افراد کی موت واقع ہوئی، مگر ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 9000 سے زائد تھی۔ مرنے والوں میں اکثریت دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کی تھی، جن میں سے بیشتر کا تعلق کراچی کی مختلف کچی آبادیوں سے تھا۔

 سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے مطابق کراچی شہر میں 403 کچی آبادیاں ہیں۔

کوثر نیازی کالونی ایسی ہی ایک کچی آبادی ہے جو 13 کلومیٹر لمبے گجر نالے کے کنارے پر واقع ہے۔ اس گندے نالے کے دونوں کناروں پر 13 کلومیٹر تک کچی آبادیوں کی ایک قطار ہے۔ رجسٹر نہ ہونے کے باعث سرکاری طور پر ان کچی آبادیوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے سرکاری طور پر ان آبادیوں کو پانی، گیس، بجلی، تعلیم اور صحت سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت نہیں دی جاتی۔

رجسٹر نہ ہونے کے باعث ہر وقت گھر مسمار ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ اس لیے بغیر منصوبہ بندی کے بنی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں چھوٹے سے پلاٹ پر بلاکوں سے پتلی دیواروں کے کمروں پر ٹِن کی چھت ڈال دی جاتی ہے۔ شدید گرم موسم میں یہ چھوٹے کمرے ٹِن کی چھت کے باعث تندور کی طرح تپنے لگتے ہیں۔

سرکاری کنکشن نہ ہونے کے باعث کہیں کہیں اپنی مدد آپ کے تحت پانی کا بندوبست کیا جاتا ہے، مگر گرم موسم کے باعث پانی پر رش بڑھ جاتا ہے تو مکین پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔

سندھ کے صحرائے تھر، کاچھو جیسے پانی سے محروم علاقوں کی طرح کراچی کی ان کچی آبادیوں میں بھی پانی لانے کا فریضہ یا تو بچے سرانجام دیتے ہیں یا خواتین۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسیہ ایسی ہی ایک اور کچی آبادی اللہ والی کالونی میں رہتی ہیں۔ وہ گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہیں۔ ان کے شوہر کا دو سال پہلے انتقال ہوگیا۔ ان کے پانچ بچے ہیں اور 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو میں ان کی چھوٹی بیٹی کا انتقال ہوگیا تھا۔

'میں کام پر تھی بچے گھر پر تھے بڑی بیٹی سب کا خیال رکھ رہی تھی۔ چھوٹی کو کب لو لگ گئی پتہ بھی نہیں چلا۔ جب میں گھر آئی تو وہ بیہوش تھی۔ ہسپتال لے گئے جہاں وہ دم توڑ گئی۔‘

نم آنکھوں کے ساتھ آسیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چار سال گزنے کے باوجود ایک ماں کیسے اپنی بیٹی کو بھول سکتی ہے۔

ان کی پڑوسن نے ٹی وی دیکھ کر دو دن پہلے بتایا کہ کراچی میں شدید گرمی پڑنے والی ہے جو شاید 2015 سے بھی خطرناک ہو۔

خوفزدہ آسیہ نے بات کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو بازو سے پکڑا اور کہا: ’یہ سن کر تو میری سانس رک گئی، میں کل سے کام پر نہیں گئی میری چھوٹی بیٹی چھ سال کی ہے۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتی۔‘

’گرمی سے محفوظ رکھنے کے لیے بچوں کو بار بار نہلانا پڑتا ہے مگر پانی نہیں ہے۔ پانی خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے روزانہ کالونی سے باہر جانا پڑتا ہے شدید گرمی کے باوجود دو کلومیٹر تک پیدل چل کر پانی لاتی ہوں۔‘

ٹِن کی چھت کے باعث جب گھر رات کو تندور بن جاتا ہے تو آسیہ بچوں کو لے کر کالونی کے بیچ میں بڑے میدان میں آجاتی ہیں جہاں گرمی کے ستائے ان کے کئی پڑوسی بھی بچوں کے ہمراہ سوتے ہیں۔

کراچی میں اربن فاریسٹ یعنی شہری جنگلات ختم ہونے، شہر میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں، عمارتوں کی بہتات، فرج، اے سی جنریٹر جیسے آلات کے استعمال میں اضافہ اور آبادی کے باعث شہر گرم جزیرے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق مستقبل میں کراچی میں ہیٹ ویو تواتر سے آئیں گی جن کی شدت بھی زیادہ ہوگی۔

عالمی موسمیاتی تنظیم، ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائیزیشن کی جانب سے دی گئی تشریح کے مطابق جب کسی خطے میں اس وقت کے اوسط درجہ حرارت سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ٹمپریچر ہواور وہ پانچ دن تک لگاتار رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔

کراچی میں 2015 کی خطرناک ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاویز کر گیا تھا۔ کراچی میں 2015 کی ہیٹ ویو کے دوران گلشن اقبال ٹائون، ملیر اور گلبرگ ٹائون گرم ترین علاقے تھے جبکہ ہیٹ ویو کے باعث 75 فیصد اموات 30 یوسیز میں ہوئیں۔ 

 محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ ہیٹ ویو کے دوران کراچی میں درجہ حرارت 42 ڈگری تک جا سکتا ہے۔ 2015 میں ہونے والی ہلاکتوں کی تین بنیادی وجوہات تھیں جن میں ماہ رمضان کا ہونا، لوڈ شیڈنگ کی شدت اور اسی وجہ سے واٹر پمپ نہ چلنا شامل ہیں۔

شہر میں آج زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 سے 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہے گا اور صبح کے اوقات میں ہوا میں نمی کا تناسب 70 سے 80 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے ۔

 محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سال 2015 کی نسبت موجودہ ہیٹ ویو کی شدت کم رہے گی۔

چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید کے مطابق 2015سے اب تک رواں سال پانچواں گرم ترین سال ہوگا.

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان