سندھ میں لواری شریف کی درگاہ 37 سال بعد کھول دی گئی

’درگاہ سے منسلک دو گروہوں میں گدی نشینی پر ہونے والے جھگڑے کے دوران دونوں جانب کے سترہ، اٹھارہ افراد قتل ہوگئے تھے،جس کے بعد اس درگاہ کو 1983 میں حکام کے جانب سے سیل کردیا گیا تھا۔‘

ہر سال نواور دس  ذوالحج کو لواری شریف میں کرفیو لگایا جاتا ہے۔ (امر گرڑو)

صوبہ سندھ کے علاقے ’لاڑ‘ میں واقع قدیمی درگاہ 37 سال بعد عقیدت مندوں اور زائرین کے لیے کھول دی گئی ہے۔ ضلع بدین میں واقع یہ درگاہ روحانیت کے مشہور سلسلے نقشبندیہ سے تعلق رکھنے والے سلطان اولیاء خواجہ محمد زمان لواری شریف کی ہے۔ 

جنوبی سندھ کے اضلاع ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان کا شمار زیریں سندھ میں ہوتا ہے جسے اس نسبت سے لاڑ پکارا جاتا ہے۔

درگاہ لواری شریف کے نام سے مشہور یہ درگاہ بدین شہر سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لواری شریف شہر میں واقع ہے۔

محکمہ اوقاف کے حکام کی جانب سے اس درگاہ کو کھولنے کے اعلان کے بعد بلوچستان اور سندھ سے ہزاروں مرید درگاہ لواری شریف پہنچ گئے اور درگاہ کے اندر داخل ہونے کے لیے قطاریں بناکر انتظار کرتے رہے۔ 

جب کہ سیکورٹی کے لیے بدین ضلعی کے سات تھانوں کے 3 سو سے زائد اہلکاروں کو شہر میں تعینات کیا گیا۔

درگاہ میں داخل ہونے کی خواہش مند خواتین صبح سات بجے سے دوپہر 12 بجے جب کہ مرد شام تین بجے سے سات بجے تک داخل ہوسکیں گے۔

بدین شہر سے تعلق رکھنے والے صحافی ہارون گوپانگ کے مطابق درگاہ سے منسلک دو گروپوں میں ملکیت اور گدی نشینی پر جاری تصادم کے دوران دونوں جانب کے سترہ، اٹھارہ افراد قتل ہوگئے تھے، جس کے بعد اس درگاہ کو 1983 میں حکام کے جانب سے سیل کردیا گیا تھا جو 37 سال بعد دونوں گروپوں میں صلح کے بعد اب کھول دی گئی ہے۔

بقول ہارون گوپانگ : ’اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے افواہیں پھیلائیں کہ اس درگاہ پر عقیدت مند حج ادا کرتے ہیں ایسے الزامات کے بعد ہر سال نواور 10 ذوالحج کو لواری شریف میں کرفیو لگایا جاتا ہے اور کسی بھی فرد کو ان دو دنوں کے دوران شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اور یہ کرفیو کے نفاذ کا سلسلہ اب بھی جاری رہتا ہے۔‘

کرفیو کے دوران لواری شریف شہر کی دیگر درگاہوں کو بھی سیل کردیا جاتا ہے اور وہاں کسی کونماز بھی ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

کراچی کے صحافی صلاح الدین عباسی جو خود اس درگاہ کے مُرید ہیں، کے مطابق درگاہ کھولنے کے بعد انتظامیہ نے اعلان کیا ہے اب درگاہ پورا سال کھلی رہے گی مگر ذوالحج کے دوران کرفیو بھی معمول کے مطابق لگایا جائے گا۔

’ایک عقیدت مند کی حیثیت سے مجھے جو خوشی ہے وہ بیان نہیں کر سکتا۔ میں ابھی راستے میں ہوں وہاں پہنچا نہیں ہوں اور مجھ سے صبر نہیں ہورہا کہ کب وہاں پہنچوں اور کب دیدار کروں۔ شاید پچپن میں درگاہ کے اندر گیا تھا مگر مجھے یاد نہیں۔ مگر آج شاید زندگی میں پہلی بار درگاہ کو اندر سے دیکھ سکوں گا۔‘

مُریدوں اور عقیدت مندوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھی درگاہ کھلنے کا جشن منایا جارہا ہے۔ فیس بُک کے صارف مسعود لوہار نے ایک پوسٹ میں لکھا : ’میں بدین کا رہائشی ہوں۔ میری زندگی میں حضرت سلطان اولیاء خواجہ محمد زمان لواری کا مزار کھُلا ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔‘

تقریباً چار دہائیوں سے بند ہونے کے باعث درگاہ کی مرمت بھی نہیں ہوسکی ہے۔ عقیدت مندوں کے مطاق 2002 میں آنے والے زلزلے اور 2011 میں شدید بارشوں کے دوران درگاہ اور اس سے منسلک قدیمی مسجد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ضلع بدین کے رہائشی موسٰی جوکھیو کے مطابق درگاہ لواری شریف سولہویں صدی میں مخدوم محمّد زمان (اوّل) نے تعمیر کرائی تھی۔

بقول ان کے : ’آج اس درگاہ کے مُریدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ مرید نہ صرف سندھ میں ہیں بلکہ بلوچستان، سرائیکی بیلٹ، اور بھارت میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔‘

صلاح الدین عباسی کے مطابق درگاہ لواری شریف کے مریدوں میں نہ صرف مسلمان مُرید ہیں بلکہ ہندو اور دیگر مذاہب کے افراد بھی مریدوں میں شامل ہیں۔ اور درگاہ پر چلنے والے لنگر کے دوران کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔

سندھ میں روحانی گدیوں کے کئی سلسلے ہیں۔ پیر پگاڑا کی حُر جماعت، مخدوم امین فہیم کے خاندان سے منسلک مٹیاری ضلع کے ہالا شہر میں واقع مخدوم نوح سرور کی درگاہ کی سروری جماعت، بدین کی لواری شریف، خیرپور ضلع کے رانی پور شہر میں واقع درگاہ غوثیہ شریف سے منسلک پیر آف رانی پور، سندھ کی بڑی گدیوں میں شمار کی جاتیں ہیں۔

 اس کے علاوہ ملتان میں واقع حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی کی درگاہ سے منسلک، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خاندان کی غوثیہ جماعت کا بھی سندھ میں بڑا اثر ہے۔

صحافی سُہیل سانگی کے مطابق: ’پیر پگاڑا کی حُر جماعت اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت کے مُریدوں کی اکثریت پنجاب اور سندھ کے صحرائی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی درگاہوں کی بھی گدیاں ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ