عالمی ادارۂ صحت نے 2020 کو نرس اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اسی مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک خصوصی سیریز تیار کی ہے اور مندرجہ ذیل رپورٹ اسی کا حصہ ہے۔ اس سیریز کے دوسرے حصے یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔
ہسپتال کے ٹراما سینٹر اور ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والی نرسیں بھی روتی ہیں۔ مریضوں کو تکلیف میں دیکھ کر ان کا بھی دل دکھتا ہے اور کبھی کبھی بعض دل دہلا دینے والے مناظر عمر بھر کے لیے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں، جو کبھی خواب کی صورت تو کبھی جاگتے صورت مضطرب کیے رکھتے ہیں۔
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی نرس ساجدہ دلدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے یاد ہے جب 29 سال پہلے میں نے ایف ایس سی کے بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں نرسنگ کا شعبہ اختیار کیا تھا۔ میں نوجوان اور باہمت تھی۔ کبھی حادثات کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔
'بہت جلد میری ڈیوٹی ایمرجنسی میں لگا دی گئی، جہاں میں انسانی دکھ اور تکالیف کو دیکھ کر کانپ اٹھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ میرے پاس واحد آپشن یہی ہے کہ اپنے غم بھول کر دلیری کے ساتھ مریضوں کی دیکھ بھال کروں۔‘
ساجدہ نے کہا کہ ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں ڈپریشن ہو گیا اور انہیں اس کے لیے گولیاں کھانی پڑ گئیں۔ ’دوران ملازمت اپنی سگی بہن سے لے کر مختلف بم دھماکوں اور حادثات کے زخمیوں تک کو سنبھالا۔ یہاں تک کہ آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہوا جو سب سے زیادہ خوف ناک اور درد ناک تھا۔ کسی کا ایک بچہ تو کسی کے دو بچے دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ میں نرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہوں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں خود کو اس غم میں مبتلا ہونے سے روک پاتی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اے پی ایس واقعے میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کی بیوی کو گولیوں سے چھلنی کر کے ان کے جسم کو مکمل طور پر جلا دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں آج بھی ہسپتال میں کہیں اگر ڈاکٹر صاحب کو دیکھ لیتی ہوں تو وہ منظر میری انکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔‘
ساجدہ کا کہنا ہے کہ صرف وہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ڈیوٹی دینے والی نرسز کی اکثریت ڈپریشن کی گولیاں کھا کر گزارا کر رہی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے کبھی ماہرین نفسیات کی مدد لینے کی کوشش کی یا پھر ہسپتال نے خود انہیں علاج کی پیشکش کی ہو؟ تو انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کہا کہ نرسیں بہت کام کر رہی ہیں، وہ ڈپریس ہو کر لوگوں سے جھگڑنے تک لگ جاتی ہیں۔
’29 سالوں میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ہسپتال نے نرسز اور دیگر سٹاف کے لیے کسی سیر و سیاحت وغیرہ کا انتظام کیا ہو۔ یہاں تک کہ ہمیں چھٹیا٘ں بھی بمشکل ملتی ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ہمارے لیے نفساتی دباؤ کم کرنے کے لیے سیشنز کا بندوبست کیا جائے۔‘
’نرسیں خود ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں‘
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے شعبۂ نفسیات سے وابستہ نائلہ ریاض اعوان نے دماغی صحت میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ نرسز کے عموماً بہت مسائل ہوتے ہیں لہٰذا جب یہ ٹراما کے کیس دیکھتی ہیں تو اور بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، جس سے ان کی ذاتی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
’میں نے ایسے مریضوں کے علاج کے لیے باہر سے سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ لی ہوئی ہے۔ یہ عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصول ہیں جن کے مطابق میں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے عملے کے بعض لوگوں کو پہلے بھی ورکشاپس دی ہوئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا جو نرسیں سمجھتی ہیں کہ انہیں سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ نہیں ملی، انہیں چاہیے کہ خود نفسیات کے شعبے سے رابطہ کریں۔ ’ہمارے فرنٹ لائن پر جتنے بھی ورکرز ہیں انہیں سب سے زیادہ سیشن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ اپنا خیال نہیں رکھیں گے تو مریضوں کا خیال کیسے رکھیں گے۔ سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ (پی پی اے) میں مختلف ماڈیولز کے ذریعے ذہنی دباؤ اور ٹراما کا علاج کیا جاتا ہے۔‘
نائلہ اعوان نے کہا کہ اگر کوئی نرس حادثات کے کیسز کے سامنے زیادہ ایکسپوز ہو رہا ہو تو انہیں ہر ہفتے سیشن لینا چاہیے جب کہ نارمل حالات میں ہر تین مہینے میں ایک بار سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ کا سیشن لینا ضروری ہوتا ہے۔