’کرونا وارڈ میں کام کرنے والی میری بیوی کو بھی شہید کا درجہ دیا جائے‘

گجرات کے عزیز بھٹی ہسپتال میں سانس کی بیماری کے باوجود آخری وقت تک کرونا وارڈ میں کام کرنے والی نرس صدف حسین کے شوہر کا مطالبہ ہے کہ انہیں شہید کا درجہ دیا جائے۔

عالمی ادارۂ صحت نے 2020 کو نرس اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اسی کی مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک خصوصی سیریز تیار کی ہے۔ مندرجہ ذیل رپورٹ اسی کا حصہ ہے۔ اس سیریز کے دوسرے حصے یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔

گذشتہ ماہ کرونا (کورونا) وائرس سے ہلاک ہونے والی سینیئر سٹاف نرس صدف حسین نے سانس کی تکلیف میں مبتلا ہونے کے باوجود آخری وقت تک اپنے ہسپتال کے کرونا وائرس وارڈ میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے مریضوں کا خیال رکھا جس کی وجہ سے ان کے شوہر کا مطالبہ ہے کہ انہیں سرکاری احکامات کے مطابق شہید کا درجہ دیا جائے۔

صدف کے شوہر جمیل احمد کے مطابق ان کی اہلیہ گذشتہ 10 سالوں سے ضلع گجرات کے عزیز بھٹی ہسپتال میں نوکری کر رہی تھیں۔ کرونا وبا شروع ہونے کے بعد ان کی ڈیوٹی ہسپتال کے کرونا وارڈ میں لگ گئی۔

جمیل احمد کا کہنا تھا صدف کو سانس کی بیماری تھی، جس کے پیش نظر انہوں نے ہسپتال انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ ان کی ڈیوٹی اس وارڈ سے ہٹائی جائے کیونکہ ان کی تکلیف میں اضافہ ہو رہا تھا، تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور صدف جس وارڈ میں کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں ایک دن اسی وارڈ میں خود مریض بن کر وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لیتے ہوئے فوت ہوگئیں۔

38 سالہ سینیئر سٹاف نرس صدف حسین کا تعلق گجرات کے علاقے شاہ دولہ ٹاؤن سے تھا اور وہ پچھلے 10 سالوں سے عزیز بھٹی ہسپتال میں 16گریڈ پر سینیئر سٹاف نرس کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ گذشتہ سال صدف نے نرسنگ کورس میں سپیشلائیزشن بھی کی تھی۔

صدف کی جمیل سے پسند کی شادی تھی، جس سے ان کے دو بیٹے احمد اور عبدللہ اور بیٹی فاطمہ ہیں۔ ان کے شوہر اب تین بچوں کی اکیلے دیکھ بھال کرتے ہیں، جن میں سب سے چھوٹا بیٹا صرف تین سال کا ہے۔

جمیل کے مطابق صدف کی موت کے بعد ان کی زندگی مشکل ہوگئی ہے کیونکہ انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کے لیے کھانا بھی پکانا پڑتا ہے جبکہ روز آفس جانے کے لیے بچوں کو مجبوراً گھر میں لاک کرنا پڑتا ہے۔

’میرا تین سالہ بیٹا آج بھی پورے گھر میں اپنی ماما کو تلاش کرتا ہے۔ میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں؟ ایک ماں کی طرح ان کی دیکھ بھال کیسے کروں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘

ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اپنے احکامات کے مطابق ان کی اہلیہ کو شہید کا درجہ دے کیونکہ ان کی موت کرونا سے لڑنے والے فرنٹ لائن ورکر کی طرح ہوئی ہے اور انہیں وہ رتبہ دیا جائے جس کی وہ حق دار ہیں۔

صدف کی طبعیت کب اور کیسے خراب ہوئی؟

عزیز بھٹی ہسپتال گجرات میں صدف کی ساتھی نرس اور ینگ نرسز ایسوسی ایشن گجرات کی صدر شفق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ سال صدف کو سرکاری خرچے پر ڈیپوٹیشن یعنی مزید ٹریننگ اور سپیشلائیزشن کے لیے لاہور پوسٹ گریجوئیٹ نرسنگ کالج بھیجا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دوران ان کی تھوڑی طبعیت خراب ہوئی تو انہوں نے لاہور کے ایک نجی ہسپتال سے اپنا علاج کروایا۔ علاج کے دوران انہیں لگنے والے ایک انجیکشن سے ری ایکشن ہونے کے باعث پھیپڑوں اور گردوں میں انفیکشن ہوگیا، ان کی طبعیت اس قدر خراب ہوگئی کہ وہ کئی دن تک لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں آئی سی یو میں بھی رہیں۔

'طبعیت سمبھلنے کے بعد صدف نے اپنی ٹریننگ کا امتحان دیا اور واپس عزیر بھٹی ہسپتال گجرات میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔'

شفق کے مطابق لاہور سے واپس آنے کے بعد چار سے پانچ ماہ تک صدف بیمار رہیں، اس دوران ان کی ایک بار نمونیا سے بھی طبعیت خراب ہوئی۔

’ہسپتال کے تمام سٹاف کو صدف کی صحت کے حوالے سے معلوم تھا، اس لیے ہم سب نرسز نے مل کر انتظامیہ سے درخواست کی کہ ان کی ڈیوٹی ڈینگی وارڈ میں لگا دی جائے کیونکہ وہاں مریضوں کی تعداد اور کام کم تھا۔‘

تاہم فروری میں جب پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز آنے شروع ہوئے تو عزیز بھٹی ہسپتال گجرات میں ڈینگی وارڈ کو کرونا وارڈ میں تبدیل کردیا گیا اور صدف حسین کی ڈیوٹی اس وارڈ میں جاری رکھی گئی۔

صدف نے دو ماہ تک کرونا وارڈ میں ڈیوٹی جاری رکھی لیکن انہیں ایک بار پھر نمونیا ہوگیا۔ عزیز بھٹی ہسپتال میں ہی پھپڑوں کے ڈاکٹر اعتزاز بشیر نے صدف کو سختی سے ہدایت کی کہ وہ اس وارڈ میں ڈیوٹی نہ کریں اور اگر انہوں نے احتیاط نہیں کی تو ان کی طبعیت اور بگڑ جائے گی۔

لاہور سے واپسی کے بعد بیمار رہنے کے باوجود صدف نے نوکری نہیں چھوڑی کیونکہ ان کے شوہر کے مطابق وہ دونوں مل کر گھر چلاتے تھے اور صدف کو نرسنگ کے شعبے سے بہت محبت تھی اس لیے وہ طبعیت خراب ہونے کے باعث اپنا کام چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں۔

ہسپتال انتظامیہ کا ڈیوٹی تبدیل کرنے سے مبینہ انکار

ڈاکٹر کی ہدایت اور سانس لینے میں تکلیف کے باعث صدف نے ہسپتال انتظامیہ کو درخواست جمع کروائی جس کے بعد ان کی ڈیوٹی رات کے وقت یورولوجی وارڈ میں منتقل کردی گئی۔

تاہم 10 دن دوسرے وارڈ میں ڈیوٹی کرنے کے بعد ان کی ڈیوٹی پھر سے کرونا وارڈ میں لگادی گئی۔ ان کے شوہر کے مطابق اس وقت صدف کو چیسٹ انفیکشن بھی تھا، جس کا علاج وہ ڈاکٹر اعتزاز سے کروا رہی تھیں۔ یاد رہے کہ کرونا وائرس ان لوگوں کے لیے جان لیوا ہوسکتا ہے جو پہلے سے ہی کسی اور بیماری کا شکار ہوں۔

جمیل کے مطابق: ’ڈاکٹر اعتزاز نے نرسنگ سپرنٹنڈنٹ خنصہ اقبال سے بات کی کہ صدف کی ڈیوٹی کرونا وارڈ میں نہ لگائی جائے کیونکہ ان کی قوت معدافت کم ہے اور انہیں چیسٹ انفیکشن بھی ہے لیکن نرسنگ سپرنٹنڈنٹ نے یہ کہہ کر ڈیوٹی تبدیل کرنے سے انکار کردیا کہ ’مجھے اسے سزا دینی ہے‘۔‘

اس معاملے کی تصدیق کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے عزیز بھٹی ہسپتال گجرات کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آصف سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے صدف کا نام سنتے ہی خاموشی اختیار کرلی اور متعدد بار کالز اور میسجز کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔

جمیل کے مطابق ڈیوٹی نہ تبدیل ہونے پر انہوں نے خود عزیز بھٹی ہسپتال جاکر انتظامیہ اور نرسنگ سپرنٹنڈنٹ سے بات کی لیکن انہیں بھی منع کر دیا گیا۔

تاہم کرونا وارڈ میں مزید دو دن ڈیوٹی کرنے کے بعد تیسرے دن صدف کی طبعیت خراب ہوگئی اور ان کا چیسٹ انفیکشن مزید بڑھ گیا۔ صدف عزیز بھٹی ہسپتال میں ہی تقریباً آٹھ دن داخل رہیں جہاں ڈاکٹر بابر کی نگرانی میں ان کا علاج کیا گیا۔ 26 مارچ کو ہسپتال سے ڈسچارج  ہونے کے بعد ایک ہفتے تک صدف نے اپنے گھر میں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آرام کیا۔

ایک ہفتے بعد صدف نے پھر ہسپتال میں ڈیوٹی جوائن کرلی لیکن اس بار سپرنٹنڈنٹ نے ان کی ڈیوٹی گائنی، ٹروما اور سی سی یو وارڈ میں لگائی جو کہ صدف کے شوہر جمیل اور عزیر بھٹی ہسپتال کی نرس شفق کے مطابق ہیوی ڈیوٹی والے وارڈز ہیں۔ تین دن ڈیوٹی کرنے کے بعد صدف کی طبعیت ایک بار پھر خراب ہوئی اور انہیں سانس لینے میں بے حد تکلیف محسوس ہونے لگی۔

صدف کے شوہر جمیل احمد کے مطابق عزیز بھٹی ہسپتال میں کنسلٹنٹ اسامہ طلت نے صدف کو 7 اپریل سے 13 اپریل تک کا بیڈ ریسٹ دیا۔ اس دوران گھر میں ہی ان کی اچانک طبعیت خراب ہوئی تو ان کے شوہر انہیں 9 اپریل کو عزیز بھٹی ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر  گئے۔ وہاں ڈاکٹر نے صدف کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی کیونکہ وہ سانس نہیں لے پارہی تھیں اور ڈاکٹرز کے مطابق صدف میں کرونا وائرس کی تمام علامات ظاہر ہو رہی تھیں۔

کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی 10 اپریل کی رات صدف حسین کا انتقال ہوگیا۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے دستاویزات کے مطابق اس رات ڈاکٹر ناصر نعیم کی نگرانی میں سانس کی نالی میں انفیکشن کی وجہ سے صدف کا انتقال ہوا جو کہ حتمی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک ان کے کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔

صدف کی وفات کے بعد ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کی انکوائری کی گئی جس میں ہسپتال انتظامیہ کا یہ موقف تھا کہ صدف حسین نے جب کرونا وائرس کے وارڈ میں ڈیوٹی کی تو اس وقت وارڈ میں کرونا کا کوئی مریض موجود نہیں تھا۔

تاہم صدف کے شوہر جمیل احمد اور عزیز بھٹی ہسپتال کی نرس شفق نے اس بات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ جن دنوں صدف کی ڈیوٹی کرونا وارڈ میں تھی اس دوران عزیز بھٹی ہسپتال کے کرونا وارڈ میں تین سے زائد کرونا کے پازیٹو مریض تھے۔

ان کے شوہر کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے باوجود ہسپتال نے صدف کا کرونا ٹیسٹ نہیں کروایا، بلکہ ان کے اور بچوں کے نمونے لیے ٹیسٹ کے لیے لیکن اب اس کی رپورٹ نہیں دے رہے۔

انہوں نے کہا: ’اگر شروع میں ہی ہسپتال انتظامیہ نے صدف کی بات پر یقین کرلیا ہوتا تو ہمیں ایک ماں، ایک بیوی اور ایک محنتی نرس کو نہیں کھونا پڑتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان