سات چوٹیوں اور سات آتش فشانوں کو سر کرنے والا کم عمر ترین شخص

36 سال آسٹریلوی ڈینیل بل کی انٹارکٹیکا کے بلند ترین اور کرۂ ارض پر سب سے دور افتادہ آتش فشاں کو سر کرنے کی داستان

ڈینیل بل کے پاس سات چوٹیاں اور سات آتش فشاں سر کرنے کا عالمی ریکارڈ ہے (تصویر: وکی پیڈیا)

ڈینیل بل ماؤنٹ سڈلی کی چوٹی پر بیٹھا ہوا، برف اور منجمد پانی کی سفید دنیا میں کھویا ہوا کنارے پر سے زمین کو دیکھ رہا تھا۔ 36 سال کی عمر میں براعظم انٹارکٹیکا کا بلند ترین اور کرۂ ارض پر سب سے دور افتادہ آتش فشاں سر کر کے وہ تاریخ کا کم عمر ترین شخص بن چکا تھا جس نے سات چوٹیوں اور سات آتش فشانوں کو عبور کیا۔

ہر براعظم کی بلند ترین چوٹی تک پہنچنا ایک دہائی کے لمبے سفر، ناقابل یقین استقامت اور جنون کا متقاضی تھا جس کے لیے اسے موت اور زندگی کے درمیان کئی ان دیکھی دراڑیں عبور کرنا پڑیں۔

محض انٹارکٹیکا تک پہنچنے کے لیے بل کو پہلے سڈنی سے ہوائی جہاز کے ذریعے چلّی کے جنوبی کنارے تک جانا پڑا جہاں سے وہ ایک سابقہ روسی کارگو ہوائی جہاز سے انٹارکٹیکا میں خیمہ لگانے کی واحد جگہ یونین گلیشیئر کیمپ پہنچا۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس کے لیے کئی سال کی منصوبہ بندی، ہزاروں پاؤنڈز کے ٹکٹ اور اجازت نامے درکار تھے۔ یہاں سے ایک جزیرہ نما پار کرتے ہوئے مزید چار گھنٹے کی پرواز اور اس دوران میں کئی مرتبہ برف کی باریک سطح پر اترتے کرتے ہوئے وہ آتش فشاں کے دامن تک پہنچا۔ 

براعظم کی بلند ترین پہاڑی چوٹی ’ونسن‘ کے برعکس سڈلی خال خال ہی سر کی گئی ہے۔ 1934 میں یہ امریکی بحریہ کے افسر ریئر ایڈمرل رچرڈ ای برڈ نے دریافت کی تھی لیکن مزید 56 سال تک کوئی مہم جو اس کی چوٹی تک نہ پہنچ سکا۔ عالمی ریکارڈ توڑنے کے لیے بل کی کوشش تھی کہ 4285 میٹر (14 ہزار فٹ) بلند آتش فشاں عبور کرنے والا تاریخ کا محض 33واں انسان بن جائے۔ 

سڈلی کی طرف بلندی پہ جانے کا کوئی بنا بنایا راستہ نہیں۔ بل کی کوشش سے پہلے گذشتہ سال کسی نے اسے عبور بھی نہیں کیا تھا۔ چوٹی سر کرنا جنون، قیاس آرائی، گہرے شگافوں کی بھول بھلیاں پار کرنا اور ڈھلوانوں سے گزرنے کا معاملہ ہے۔ 40 کلو کے سازو سامان، خیمے، تکنیکی آلات، بنیادی اشیائے ضرورت سے لدی سلیڈ بھی بل کے پیچھے لنگر انداز تھی اور اسے ہمیشہ واپس پہاڑ کے دامن کی طرف کھینچتی رہتی۔ آخر کار اپنے تین مہم جو ساتھیوں کے ساتھ اس نے کیمپ بنانے کے لیے برف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ڈھونڈ لیا۔ انہوں نے اپنے سیٹلائیٹ فون سولر پینلز کی مدد سے چارج کیے، برتن دوبارہ خوراک سے بھرے اور کم آکسیجن والی ہوا میں نیند کا ہر قیمتی لمحہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن جیسے ہی صبح سویرے انہوں نے آگے بڑھنے کی تیاری کی ایک تیز طوفان نے آتش فشاں پر برف کی سفوف جیسی باریک تہہ بچھا دی۔ یونین گلیشیئر کی طرف سے مزید سفر جاری رکھنے کا اشارہ ملنے سے پہلے تناؤ سے بھرا انتظار کئی دنوں پر پھیل چکا تھا۔ بل خوشی، سکون، خوف اور اذیت کا مرکب تھا۔ لیکن بہت جلد اوپر کی جانب بڑھتے ہوئے ان کے گروہ کا ایک بندہ بیماری کی لپیٹ میں آ گیا اور اچانک توانائی کھو کر لڑکھڑانے لگا۔ اب سوائے واپسی کے کوئی چارہ نہ تھا۔ 

بل نے انڈپینڈنٹ کو بتایا، ’یہ صورتِ حال بہت بے رحمانہ تھی۔ جہاز آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا، برف نیلے ٹکڑوں میں آئس ہاکی کے میدان کی طرح عمودی زاویے میں جمی ہوئی تھی۔ اس سنگلاخ ڈھلوان پر چھ گھنٹے چڑھنے کے بعد میری کمر سخت دکھ رہی تھی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور لگتا تھا میرے پھیپھڑے بس پھٹنے والے ہیں۔

’موسم کی وجہ سے واپسی قبول کرنا آسان تھا۔ جب ہم نے نیچے کی طرف سفر شروع کیا تو مجھے لگا بس یہ مہم ختم ہو چکی۔ ریکارڈ توڑنا، سڈلی سر کرنے والا پہلا آسٹریلوی باشندہ ہونا، ہزاروں ڈالر، تیاری اور خاندان کی قربانیاں سب ضائع گیا۔ عام طور پر آپ اپنے ہی نقشِ قدم پر واپسی کی راہ لیتے ہیں لیکن سب کچھ برف سے ڈھکا پڑا تھا۔ دور کوئی افق نہ تھا۔ زمین اور آسمان ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک ہو گئے تھے اور سب خاموش تھے۔ جب ہم واپس پہنچے تو بہت تھکے ہوئے تھے۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ دوبارہ اوپر جانے کا موقع ملے گا یا نہیں۔‘

اگلی صبح فقط تین لوگوں نے دوبارہ اپنے سفر کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ ان کی جمع شدہ توانائی خرچ ہو چکی تھی اور پشتیں درد سے کراہ رہی تھیں۔ مزید کم سے کم خطرات مول لیتے ہوئے ہر گھنٹے بعد 60 سیکنڈ سے زیادہ وقفہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے پر اتفاق کیا۔

بل کہتے ہیں: ’میں اپنے بازو لہرا رہا تھا تاکہ میری انگلیوں میں خون کی حرکت رواں ہو جائے۔ لیکن آخر کار، ہم نے کھمبیوں کی طرح کے برف کے تودے دیکھ لیے جو آتش فشاں کے دہانے کی نشانی ہیں۔‘

ایک لمحے کے لیے وہ خود کو 1200 میٹر گہرے سوراخ میں دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکے۔ وہ ایک چھوٹے سے بھربھرے چھجے پر ٹکے ہوئے تھے جس کے دونوں طرف اتھاہ گہرائیاں منھ کھولے ہوئے تھیں۔ 

وہ کہتے ہیں ’ہوا ناقابل برداشت حد تک شدید تھی۔ کچھ بھی صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔ سردی اتنی شدید تھی کہ کچھ بولنا یا جھنڈا گاڑنا ممکن نہ تھا۔‘

اس کے بجائے بل نے اس جگہ کی نشان دہی کرنے کے لیے اپنے جی پی ایس آلے کا بٹن دبا دیا۔ ورلڈ ریکارڈ کی خوشی ایک بٹن دبا کر منائی گئی۔ نیچے واپس آتے ہوئے بل کو اپنے دو مہم جو ہمراہیوں سے جوڑنے والی رسی اچانک تن گئی۔ ٹیم کا ایک رکن نسبتاً کم گہری دراڑ میں گر گیا۔ خوف و ہراس کے عالم میں بل نے اپنا برفانی کلہاڑا ڈھلوان پر زور سے دے مارا اور خود کو بمشکل دراڑ میں گرنے سے بچایا۔ وہ کہتے ہیں: ’آخر کار وہ خود کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوا۔ خوش قسمتی سے یہ دراڑ زیادہ گہری نہیں تھی لیکن اس کے بعد یہ خندقی علاقہ عبور کرتے ہوئے ہم بہت زیادہ خوف زدہ رہے۔‘ 

افق پر دور کہیں دھندلا سا ہوائی جہاز کا ہیولا نظر آیا۔ جیسے ہی انہوں نے چند ڈگ بھرے تو بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو اور مصالحے دار شراب کی خوشبو ہوا کے دوش پر ان تک پہنچنے لگی۔ جہاز کے نیچے اس کے دو کینیڈین پائلٹوں نے باربی کیو شروع کر رکھا تھا۔

بل کہتے ہیں، ’صرف اسی وقت، جب ہم محفوظ مقام تک پہنچ گئے، تب جذبات نے ابھرنا شروع کیا۔ یہ محض ایک خواب یا ریکارڈ کی تکمیل نہیں تھی بلکہ کچھ ایسا تھا جس کا بہت طویل عرصے سے مجھے انتظار تھا۔‘ 

بل نے اپنا سیٹلائیٹ فون نکالا اور اپنے والد کو پیغام لکھا، ’امید ہے کہ ہم بہت جلد مغربی انٹارکٹیکا سے نکل آئیں گے۔ آپ کو دوبارہ دیکھنے کا متمنی۔‘ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین