برطانوی اور اطالوی کوہ پیما ’قاتِل پہاڑ‘ کیوں سر کرنا چاہتے تھے؟

نانگا پربت کا موسم سرما میں ناقابل تسخیر ہونا ہی ٹام بیلرڈ اور ان کے ساتھی ڈینلی نوردی کے لیے کھلا چیلنج تھا

اے ایف پی فوٹو

برطانوی کوہ پیماہ ٹام بیلرڈ اور ان کے اطالوی ساتھی ڈینلی نوردی اب دوبارہ کبھی کوئی چوٹی سر نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع نانگا پربت کی بے رحمی کا شکار ہو گئے ہیں۔

نانگا پربت کو اس کی ہلاکت خیزی کی وجہ سے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔

حکام رواں ماہ 30 سالہ ٹام اور 42 سالہ ڈینلی کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے ہیں۔

ٹام اکثر مذاقاً کہا کرتے تھے کہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے ہی اپنی ماں کے پیٹ میں پہاڑ تسخیر کرتے رہے ہیں جبکہ پہاڑی مہم جوئی کا شاندار ریکارڈ قائم کرتے ہوئے وہ 30 برس کی عمر تک یورپ کی چھ سب سے خطرناک چوٹیاں صرف ایک ہی موسم سرما میں فتح کر چکے تھے۔

ٹام کی والدہ ایلیسن خود بھی ایک کوہ پیما تھیں جہنوں نے 1995 میں اکیلے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

ایلیس اِسی سال پاکستان میں واقع کے ٹو کی چوٹی سر کرنے کی مہم کے دوران ہلاک ہو گئیں اور انہوں نے سوگواران میں اپنے شوہر جِم کے ساتھ دو بچے ٹام اور بیٹی کیٹ چھوڑے۔

ٹام نے اپنی والدہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موسمِ سرما میں 8126 میٹر سے بلند نانگا پربت سر کرنے کی مشکل اور مہلک مہم جوئی کا فیصلہ کیا۔

دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ بھی ٹام کو متاثر نہ کر سکی جس کو صرف 2018 میں 800 سے زیادہ کوہ پیما سر کر چکے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹام کے والد جِم کا کہنا ہے کہ انہیں موسمِ گرما میں کے ٹو یا دوسری پر ہجوم چوٹیاں سر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

ٹام اور ان کے کوہ پیما ساتھی ڈینلی کی موسم سرما میں نانگا پربت سر کرنے کی کوشش غیر معمولی تھی۔

ٹام اور ڈینلی 8126 میٹر بلند نانگا پربت کو اب تک کے ناممکن روٹ ’میمری‘ سے سر کر کے تاریخ رقم کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہ روٹ ہے جس کے دونوں اطراف کو برف اور چٹانوں کی عمودی دیواروں نے گھیر رکھا ہے۔

تاریخ میں اس سے پہلے کوئی کوہ پیما موسم سرما میں اس روٹ سے چوٹی سر نہیں کر پایا ہے جبکہ ڈینلی 2014 اور 2015میں اسی روٹ سے چوٹی فتح کرنے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔

ڈینلی کے پاکستانی ساتھی اور ٹور آپریٹر علی محمد نے انڈِپینڈنٹ کو بتایا کہ ڈینلی کو اس روٹ سے چوٹی سر کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا تاہم خراب موسم کے باعث انھیں یہ مہم ادھوری چھوڑنا پڑی تھی۔

علی محمد کا کہنا ہے کہ نانگا پربت موسم سرما میں برفانی تودوں، تیز ہواؤں، گہرے بادلوں اور صفر حدِ نگاہ کے باعث مزید خطرناک ثابت ہوتا ہے اور انہی وجوہات کے باعث اسے قاتل پہاڑ کہا جاتا ہے۔

لی کا مزید کہنا تھا کہ 2016 میں ایک اور بین الاقوامی کوہ پیما ٹیم نانگا پربت کو موسم سرما میں کسی بھی روٹ سے سر کرنے کی ناکام کوشش کر چکی تھی اور اس موسم میں یہ چوٹی ابھی تک نا قابل تسخیر ہے۔ شاید ٹام اور ڈینلی کے لیے اسے سر کرنے کی یہی وجہ رہی ہو گی۔

2016 میں نانگا پربت کو موسم سرما میں سر کرنے کی کوشش کرنے والی بین الاقوامی کوہ پیما ٹیم کے ایک رکن سائمن موری کے مطابق ’میمری‘ روٹ سے چوٹی سر کرنا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔

’اس روٹ سے کیمپ ٹو تک پہنچنے کے لیے آپ کو جگہ جگہ برفانی تودوں، چٹانوں اور گہرے شگافوں کو عبور کرنا پڑتا ہے جبکہ کیمپ ٹو کے بعد آپ کا واسطہ چٹانوں کی عمودی دیواروں سے پڑتا ہے۔

ٹام اور ڈینلی کا بیس کیمپ سے آخری رابطہ 6300 میٹرکی بلندی پر ہوا تھا جس کے دو ہفتوں بعد ہسپانوی کوہ پیما ایلکس ٹیکسیکان نے جدید دوربین لینز کی مدد سے ان کی لاشوں کو ڈھونڈ نکالا۔

علی نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ڈینلی نے ممکنہ خطرے سے آگاہی کے باوجود اس روٹ کا انتخاب کیوں کیا جبکہ ان کا ایک پولش ساتھی گذشتہ برس اسی راستے پر ہلاک ہو گیا تھا۔ ’میں یہ شاید کبھی نہ جان پاؤں۔‘

 شاید نانگا پربت کا موسم سرما میں ناقابل تسخیر ہونا ہی ٹام بیلرڈ اور ڈینلی نوردی کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ وہ اسے شکست دینے کے عزم کے ساتھ ’قاتل پہاڑ‘ سے ٹکرا  گئے جہاں ان کی باقیات رہتی دنیا تک دفن رہیں گی۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین