مقبرہ جانی خان: لاہور کا ایک لاوارث مقبرہ

اس مقبرے پر تختی لگی ہے کہ اسے نقصان پہنچانے پر سزا ملے گی مگر جس حالت میں یہ مقبرہ موجود ہے اس سے زیادہ اسے کوئی کیا نقصان پہنچائے گا؟

 مورخین میں اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون دفن ہے  (تصویر ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری)

آج اگر کوئی لاہور کے علاقے باغبانپورہ کو دیکھے تو اسے حیرت ہو گی کہ اس بھیڑ بھاڑ والی پرہجوم جگہ کو یہ نام کیوں دیا گیا۔

اسے یہ نام یوں ملا کہ ایک زمانے میں یہاں کئی خوبصورت چھوٹے بڑے باغ تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے گئے اور اب صرف باغیچی سیٹھاں والی (مہابت خان باغ) اور شالامار باغ جیسے کچھ باغ بچے ہیں۔

اس علاقے میں باغوں کے علاوہ اور بہت سی تاریخی عمارتیں بکھری ہوئی ہیں جیسا کہ مغلیہ دور میں بنایا جانے والا ’جانی خان‘ کا مقبرہ۔

یہ مقبرہ جی ٹی روڈ پر باغبانپورہ ڈاک خانے کے ساتھ گلی میں، چار دیواری کے اندر واقع ہے۔

لاہور کے دیگر کچھ مقبروں کی طرح اس مقبرے پر بھی مورخین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

کچھ پرانے مورخین کے مطابق جانی خان نواب قمر الدین خان کے بیٹے اور مغل دور کے وزیر نواب معین الملک عرف منو کے بھائی تھے لیکن کچھ انہیں نواب معین الملک کا سسر بھی کہتے ہیں۔ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ نواب صادق خان کا ہے۔

کنہیا لال اپنی کتاب ’تاریخِ لاہور‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ مقبرہ بادشاہ احمد شاہ کے عہد میں بنا۔ جانی خان، محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں نوابی رتبے پر پہنچا اور انتظام الدولہ خطاب پایا۔

’اس کا وزیر باپ قمر الدین خان کرنال کے مقام پر احمد شاہ درانی کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔ پھر اس نے اپنے بھائی میر معین الملک کے احمد شاہ درانی کو شکست دی۔

’درانی کے کابل چلے جانے کے بعد معین الملک نے پنجاب کا انتظام سنبھالا اور جانی خان افسر فوج مقرر ہوا۔ آخر 1778 میں فوت ہو کر یہاں مدفون ہوا۔

’خدا کی قدرت ہے کہ اتنے بڑے امیر کبیر کی قبر بھی باقی نہیں رہی اور مقبرے میں شیراز زمین دار نے اپنا بھوسہ ڈال رکھا ہے۔‘

مورخ سید محمد لطیف نے اپنی کتاب میں جانی خان کی بجائے اس مقبرے کو خانِ خاناں یامین الدولہ کا مقبرہ لکھا ہے۔ ان کے مطابق: ’یہ خانِ خانان، یامین الدولہ کا مقبرہ ہے جو دہلی کے سلطان محمد شاہ کے قزیر نواب قمر الدین خان کا بڑا لڑکا تھا۔

’اِس کا چھوٹا بھائی نواب معین المک (جو میر منّو کے لقب سے جانا جاتا تھا) تھا۔ اسے مغل بادشاہ احمد شاہ نے ’خانِ خاناں‘ کا لقب دیا۔‘

’یہ اپنی بہن اور ان کے شوہر خان بہادر کے بیچ کچھ مسائل حل کروانے لاہور آئے لیکن 1778 میں یہیں انتقال کر گئے اور یہاں دفن ہوئے۔‘

لیکن کچھ احباب کے مطابق نواب قمر الدین کے بیٹے انتظام الدولہ کو 1759 میں عماد الملک کے کہنے پر دہلی میں قتل کر دیا گیا تھا، اس لیے جانی خان، انتظام الدین نہیں ہو سکتے۔

اس مقبرے کی اصل تاریخ جو بھی ہو لیکن عمارت کی نفاست سے انکار ممکن نہیں۔ بھلے وقتوں میں یہ مقبرہ ایک باغ کے بیچ میں موجود تھا جس کا دروازہ بھی کافی عرصہ موجود رہا لیکن ایک زمین دار نے اسے حکومت سے خرید کر برباد کر دیا۔

اس مقبرے کی موجودہ ہیئت کی بات کریں تو مقبرہ چار دیواری میں گھرا ہوا ہے۔ مجبوراً دیوار پھلانگ کہ اندر جانے پر معلوم ہوا کہ اس کی شمالی سمت میں ایک چھوٹا سا دروازہ بھی ہے جو اس وقت بند تھا۔

مقبرہ چہار پہلو طرز پر بنا ہوا ہے جس کا گنبد مخروطی طرز کا اور قدرے ہموار ہے۔ یہ دیگر مقبروں کی طرح گولائی میں نہیں بنایا گیا ہاں البتہ یہ سرو والے مقبرے سے مشابہت رکھتا ہے۔

اس کے اوپری حصے پر نیلے اور پیلے رنگ کی چینی ٹائلوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہے، جو اب بس مٹنے کو ہے۔

چھت کے چھجے کے نیچے خوبصورتی کے لیے بہت سے پشتے یا سہارے بنائے گئے ہیں جو پکی اینٹ کے بنے ہیں۔ ہر جانب ان کی تعداد 14 ہے۔

عمارت کے چاروں جانب دو دو محرابی جھروکے (یا طاقچے) اور ایک ایک محرابی دروازہ ہے جو جھروکوں کے درمیان واقع ہے۔

چاروں جانب ان پر جالی لگا کر بند کر دیا گیا ہے البتہ شمالی سمت میں اندر جانے کے لیے راستہ رکھا گیا ہے۔

محرابوں پر نقش و نگار اب بھی موجود ہیں جو اکثر مغل عمارات میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اندر جائیں تو تین کچی قبروں پر نظر پڑتی ہے جن پر بچھی چادریں اب گرد آلود ہو چکی ہیں۔ چاروں جانب مٹی ہی مٹی ہے۔ یہاں پختہ فرش موجود نہیں ہے۔

چاروں جانب محرابی دروازوں کے اوپر ایک ایک محراب بنائی گئی ہے، جبکہ ایک ایک بڑی محراب چاروں کونوں پر موجود ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اندرونی دیواروں، محرابوں اور چھت پہ کیا گیا شاندار فریسکو کا کام اب بھی نظر آ رہا ہے۔

اوپر گنبد پر دو مختلف اشکال کے آٹھ پھول بنے ہیں جبکہ گنبد کے مرکزی حصے پر چھوٹے سائز کی اینٹ اور مغل دور کے دیگر مقبروں میں استعمال ہونے والا روایتی مصالحہ نظر آ رہا ہے۔

محرابوں اور اندرونی دروازاں پر بنا مستطیل و چوکور ڈیزائن، پتے، گلدان اور قسم قسم کے پھول ابھی بھی بہتر حالت میں موجود ہیں جن کے کِھلتے ہوئے مدھم رنگ بتا رہے ہیں کہ ایک دور میں یہ مقبرہ شاندار رہا ہو گا۔

ان تین قبروں میں سے جانی خان کی قبر کون سی ہے اور دیگر دو قبریں کس کی ہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا۔

حاصلِ تحریر یہ کہ مقبرے پر کیا گیا روغنی اینٹوں اور موزیک کا کام، فریسکو کا کام اور اس کا نچلا گنبد وہ خصوصیات ہیں جو اسے منفرد و ممتاز بناتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقبرے کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے ٹکڑے اور لکڑیوں کی شاخیں جبکہ باقی اطراف میں خودرو گھاس و جھاڑیاں موجود ہیں۔

شمالی سمت کے دروازے کے اوپر نیلے رنگ کی تختی لگی ہے جس کے مطابق یہ عمارت حکومت کی جانب سے محفوظ عمارت ہے جسے نقصان پہنچانے والے کو جرمانہ یا قید کی سزا ہو گی۔

لیکن ہمارا سوال ہے کہ جس حالت میں یہ مقبرہ اب موجود ہے اس سے زیادہ اسے کوئی کیا نقصان پہنچائے گا؟

سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہے کہ اسے چار دیواری میں نظر بند کر کے عوام کی نظروں سے بھی غائب کر دیا گیا ہے جیسے یہاں بہت بڑا خزانہ دفن ہو۔

حکومت کو چاہیے کہ لاہور کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لیئے یہاں موجود تاریخی ورثے کی خوبصورتی بھی بڑھانی چاہیے جس کے لیے سب سے پہلے تو مقبرہ جانی خان اور اس جیسی دیگر تاریخی عمارتوں کی بحالی و مرمت ہو، یہاں تاریخ سے متعلق آگاہی کتبے یا بورڈ لگائے جائیں اور پھر یہاں تک عوام الناس کو رسائی ملنی چاہیے تاکہ تاریخ و فنون لطیفہ کے دیوانے ان سے فیض یاب ہو سکیں۔


تصاویر: ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ