کیا امریکہ نے پاکستان کو ’پتھر کے دور میں پہنچانے‘ کی دھمکی دی تھی؟

صدر مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو دھمکی دی تھی کہ نائن الیون کے بعد اگر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا۔

ایوان صدر ،  2003میں جنرل مشرف رچرڈ آرمیٹیج کا استقبال کرتے ہوئے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

13 ستمبر 2001 کی بات ہے، پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبرلین بگھی میں سوار ہو کر پاکستانی صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف سے ملاقات کرنے پہنچیں۔

ان کے پاس امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لیے سات مطالبات کی فہرست تھی، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔‘

نائن الیون کو ابھی صرف دو دن گزرے تھے، اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا اور اس سلسلے میں اسے پاکستان کی مدد درکار تھی، کیوں کہ پاکستان کے بغیر یہ کام ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور تھا۔

چیمبرلین امریکی سفارت خانے سے ایوانِ صدر پہنچیں۔ ان کی ملاقات دراصل پہلے سے طے تھی کیوں کہ انہوں نے کچھ ہی دن قبل امریکی سفیر کا عہدہ سنبھالا تھا اور سفارتی رسم کے مطابق انہیں اپنے کاغذات صدر کو پیش کرنا تھے، لیکن نائن الیون کے پیشِ نظر اس ملاقات کی اہمیت اور نوعیت کچھ سے کچھ ہو چکی تھی۔

مصنف سٹیو کول نے اپنی کتاب ’ڈائریکٹوریٹ ایس‘ میں لکھا ہے کہ جنرل مشرف سے ملاقات کے آغاز پر ہیلو ہائے کے فوراً بعد چیمبرلین نے اپنی ٹائپ شدہ مطالباتی فہرست نکالی اور پڑھ کر سنانے لگیں۔ 

  1. القاعدہ کے اہلکاروں کو سرحد پار کرنے سے روک دو، پاکستان سے افغانستان جانے والے تمام اسلحے کی ترسیل روک دو، اسامہ بن لادن کے لیے ہر قسم کی لاجسٹک امداد بند کر دو
  2. امریکی جنگی جہازوں کو ملک کے اوپر سے گزرنے اور اترنے کی مکمل آزادی دو
  3. امریکہ پاکستانی فضائی اور بحری اڈے اور سرحدیں حسبِ ضرورت استعمال کرنے کی اجازت دو
  4. مشتبہ دہشت گردوں کے بارے میں انٹیلی جنس اور امیگریشن کی معلومات فراہم کرو
  5. نائن الیون کے حملوں کی عوامی مذمت کرو
  6. طالبان کی ہر قسم کی ایندھن کی فراہمی بند کر دو اور پاکستانی رضاکاروں کو سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہونے سے روک دو
  7. اگر ثابت ہو جائے کہ نائن الیون میں اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہے اور طالبان اسامہ کو پناہ دیے ہوئے ہیں تو طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دو

چیمبرلین کو یہ فہرست امریکی وزیرِ دفاع کولن پاؤل اور نائب وزیرِ دفاع رچرڈ آرمیٹیج نے بھیجی تھی، اور ساتھ یہ تاکید بھی کی تھی کہ آخر میں یہ ضرور پوچھنا، ’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف؟‘

جنرل مشرف نے چیمبرلین کی فہرست سن کر جواب دیا، ’میں آپ کے ساتھ ہوں، خلاف نہیں ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں نے ماضی میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی وعدہ شکنیوں کے گلے شکوے شروع کر دیے۔

چیمبرلین نے مشرف کی بات درمیان میں کاٹ دی، ’جنرل مشرف، میں نے آپ کی طرف سے وہ بات نہیں سنی جو مجھے اپنے صدر کو بتانی ہے۔‘

مشرف نے کہا، ’ٹھیک ہے، ہم آپ کی ہر ممکن مدد کریں گے (support unstintingly)۔‘

اتفاق کی بات ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود احمد ان دنوں امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے اور نائن الیون کی صبح واشنگٹن میں موجود تھے۔

جنرل مشرف اپنی کتاب ’ان دا لائن آف فائر‘ میں لکھتے ہیں کہ مجھے جنرل محمود نے فون کر کے بتایا کہ رچرڈ آرمیٹیج نے انہیں دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر آپ نے دہشت گردوں کا ساتھ دیا تو ہم بمباری کر کے آپ کو پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔‘

رچرڈ آرمیٹیج صاحب کا تھوڑا سا تعارف بھی ہو جائے کہ وہ سفارت کاری کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے فوجی رہ چکے تھے اور انہوں نے ویت نام کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔

وہ شکل سے ڈپلومیٹ کم اور باکسر زیادہ لگتے تھے اور نائب وزیر بننے کے بعد بھی ویٹ لفٹنگ کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر بش نے نائن الیون سے کچھ ہی عرصہ قبل ان سے پوچھا تھا کہ آج تم کتنا وزن اٹھایا؟

آرمیٹیج نے جواب دیا،’ 6/330۔‘

ویٹ لفٹنگ کی زبان میں اس کا مطلب ہے 330 پاؤنڈ (ڈیڑھ سو کلو)، چھ بار۔

البتہ آرمیٹیج نے ایسی کسی دھمکی سے انکار کیا تھا۔ امریکی ٹیلی ویژن چینل کو 2006 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے الفاظ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ’میں فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی نہیں دیتا جب تک کہ اسے پورا نہ کیا جا سکے۔‘

صدر بش نے بھی اس دھمکی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے پہلی بار یہ بات اخبار میں پڑھی اور مجھے الفاظ کی سختی پر حیرت ہوئی۔‘

’بےرحمانہ فوجی تجزیہ‘

امریکی انکار سے قطع نظر، صدر مشرف اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ حیران کن حد تک ننگی دھمکی تھی اور ظاہر تھا کہ امریکہ نے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

مشرف لکھتے ہیں کہ یہ میرے لیے فیصلے کی گھڑی تھی۔ امریکہ اتنا طاقتور تھا کہ وہ ہماری فوج کو تہس نہس کر سکتا تھا۔ ہمارے پاس تیل نہیں تھا کہ ہم اپنی معیشت کو سہارا دے سکتے، اور نہ ہی ہمارے عوام ایسے تھے کہ ہو کسی مشکل گھڑی میں ایک ساتھ کھڑے ہوتے۔

مزید یہ کہ بھارت نے پہلے ہی امریکہ کو اڈے دینے کی پیشکش کر دی تھی، اگر ہم ساتھ نہ دیتے تو امریکہ یہ پیشکش قبول کر لیتا۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مشرف کے ذہن میں یہ بھی چل رہا تھا کہ طالبان اس بارے میں کیا سوچیں گے؟ پاکستان سعودی عرب اور عرب امارات کے بعد تیسرا ملک تھا جس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا، اور پاکستان میں افغانستان کا سفارت خانہ کام کر رہا تھا۔

تاہم انہیں فیصلے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہم طالبان سے ’دامن چھڑا لیں۔ ویسے بھی ان کا امریکہ سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ ہم کیوں اپنا قومی مفاد ایک دقیانوسی حکومت کے ساتھ نتھی کریں جسے شکست ہونے والی تھی؟‘

مشرف کہتے ہیں کہ یہی وہ ’فوجی‘ اور ’بےرحمانہ‘ تجزیہ تھا جو میں نے کیا، جس میں آرمیٹیج کی دھمکی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

مشرف نے لکھا ہے کہ ہم نے مطالبات مشروط طور پر مانے۔ مثلاً مطالبہ 2 کے تحت امریکہ نے پاکستانی فضا کے غیر مشروط استعمال کی اجازت مانگی تھی، مگر انہوں نے صرف ایک فضائی راہداری دی جو ’حساس‘ علاقوں سے پرے ہٹ کر تھی۔

بےچوں و چرا سرِ تسلیم خم کر لیا؟

اسی طرح مطالبہ 3 کے مطابق امریکہ نے تمام فضائی اور بحری اڈے مانگے تھے، ہم نے صرف دو فضائی اڈے یعنی شمسی اور جیکب آباد دیے۔

اس کے برعکس معروف امریکی صحافی باب وڈورڈ اپنی کتاب ’بُش ایٹ وار‘ میں لکھتے ہیں کہ کولن پاول نے مشرف کو فون کر کے یہی مطالبات دہرائے، اور اس وقت پاول کو سخت حیرت ہوئی جب مشرف نے ساتوں کے سات مطالبات بےچوں و چرا تسلیم کر لیے۔

خیر، اس کے بعد جنرل مشرف نے کور کمانڈروں کی میٹنگ اور کابینہ کے اجلاس میں یہ مطالبے اور اپنا فیصلہ دہرایا اور اس کے عواقب و نتائج پر اپنے تجزیے کی روشنی ڈالی اور لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور کیے۔ اس کے بعد انہوں نے بقول اپنے دانشوروں، ایڈیٹروں، ممتاز کالم نگاروں، تعلیمی شخصیات، طلبہ، قبائلی مشران اور مزدور یونینوں کے سربراہوں سے ملاقات کر کے انہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا۔

کالم نگار الیاس شاکر نے لکھا ہے کہ اخباروں کے مدیروں کی اسی طرح کی ایک مجلس میں ’نوائے وقت‘ کے مدیر مجید نظامی نے اعتراض کیا کہ ’جنرل صاحب، آپ نے بش نہیں بلکہ پاول کی ایک کال پر سرنڈر کر دیا۔‘

اس جواب پر مشرف نے کہا، ’اگر میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟‘

مجید نظامی نے جواب دیا، ’میں اپنا کام کر رہا ہوں، اگر آپ بھی اپنا کام کر رہے ہوتے تو یہ مشکل پیش نہ آتی۔‘

پرویز مشرف نے اصرار کیا کہ ’نہیں، فرض کیجیے، آپ ہوتے تو کیا کرتے؟‘

جواب ملا کہ ’میں ’ٹائم گین‘ کرتا اور کہتا کہ اس وقت نہ اسمبلی ہے نہ کیبنٹ اور پھر کچھ دوست ممالک سے بھی مشورے کرنا ہوں گے، یعنی چین، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائیشیا سے مشورہ کروں گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیر ہر طرف سے مطمئن ہو کر جنرل مشرف نے 19 ستمبر کو ٹیلی ویژن پر خطاب کر کے قوم کو اعتماد میں لیا، اور یوں افغانستان میں پاکستان امریکہ اشتراک شروع ہوا، جو لگ بھگ 20 برس جاری رہا۔

اب حالات بدل چکے ہیں، امریکہ 23 کھرب ڈالر لگا کر اور تین ہزار کے قریب فوجی گنوا کر افغانستان سے رخصت ہو گیا اور وہی طالبان، جن کو جڑ سے اکھاڑنے کی امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی، دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جاتے جاتے کوشش کی تھی کہ اسے پاکستان میں فوجی اڈے مل جائیں جہاں سے وہ افغانستان میں کارروائیاں کر سکے، مگر حکومت نے منع کر دیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے ’absolutely not‘ (ہرگز نہیں) کی پالیسی متعارف کروائی، جس کے تحت انہوں نے جون میں امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھا کہ ’امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پاکستان کو شریک مجرم قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں تحریک طالبان پاکستان اور دوسری تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔‘

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اگر ہم امریکہ کو اپنے ملک میں اڈے دے دیں تو پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑے گا، اس لیے ہم ’امن کے شراکت دار تو ہو سکتے ہیں، جنگ کے نہیں۔‘

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک امریکہ کی جانب سے ایسی کوئی اشارے سامنے نہیں آئے کہ اس نے پاکستان سے اڈے مانگے ہوں۔ اخبار ’دا نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک امریکہ عہدے دار نے صاف انکار کر دیا کہ امریکہ نے پاکستان سے اڈے مانگے ہیں۔ دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے سربراہ ولیم جے برنز پاکستان کے خفیہ دورے پر آئے تھے لیکن اخبار کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے بھی پاکستان سے اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ واقعی اڈوں کا مطالبہ کرتا اور ساتھ میں آرمیٹیج کی پہلوانی سٹائل کی دھمکی بھی شامل ہوتی تب بھی کیا موجودہ حکومت ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ کہتی؟

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ