طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان مذاکرات میں کون حاوی؟  

امریکہ، طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان جاری اہم امن مذاکرات کا ایک اور دور اتوار کو دوحہ میں ہو رہا ہے۔

افغان طالبان کے مرکزی مذاکرات کار  مئی میں  ماسکو میں ایک کانفرنس کے دوران (اے ایف پی)

جرمنی اور قطر کی ثالثی میں امریکہ، طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان جاری اہم امن مذاکرات کا ایک اور دور اتوار سے دوحہ میں ہو رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں اب تک ہوئی پیش رفت میں طالبان ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئے ہیں کیونکہ ان کے کچھ مطالبات مان لیے گئے ہیں جس سے ان کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ تقریباً دو دہائیوں بعد افغانستان سے انخلا کے لیے پر تول رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے 14 ہزار امریکی فوجیوں کا جلد از جلد انخلا چاہتے ہیں اور اس فیصلے میں ان کو حریف جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کی غیرمعمولی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم طالبان کے ساتھ دو ماہ سے جاری مذاکرات میں واشنگٹن کو امن معاہدے پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

کچھ ماہ پہلے افغان دھڑوں کے درمیان اسی قسم کی ملاقات ماسکو میں بھی ہو چکی ہے جسے ایک بریک تھرو کہا گیا تھا، لیکن اس میں خواتین کے حقوق، غیرملکی افواج کے انخلا، القائدہ اور حکومت سازی میں طالبان کے کردار سمیت اہم اور حساس معاملات کو حل نہیں کیا جا سکا تھا۔

امریکہ کی معاہدے کی بھرپور کوشش 

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گذشتہ ماہ دورہِ کابل کے دوران کہا تھا کہ ان کا ملک یکم ستمبر سے پہلے طالبان سے معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے، تاہم مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابات سے قبل امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی صورت میں ملک مزید افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔

امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد اس دوران سات بار طالبان سے دوبدو مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں اور شاید یہ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ طالبان اتوار کو قطر میں افغان نمائندوں سے براہ راست ملاقات کر رہے ہیں۔

طالبان اس سے قبل کابل حکومت سے کسی صورت مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ تاہم افغان حکام ذاتی حیثیت سے دوحہ میں ہونے والے اہم مذاکرات کا حصہ ہوں گے جن کا اہتمام جرمنی اور قطر مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کی سابق خصوصی نمائندہ لوریل ملر افغان حکومت کے بغیر ہونے والے کسی بھی معاہدے کو بامعنی تصور نہیں کرتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا ’میرے خیال میں امریکہ اور طالبان کے درمیان شاید ستمبر سے پہلے ہی معاہدہ طے پا جائے لیکن واشنگٹن اور عسکریت پسند تنظیم کے درمیان کوئی بھی معاہدہ افغانستان کے لیے امن معاہدہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘

’اس سے اُن سخت سوالات کے جوابات نہیں ملتے کہ ممکنہ معاہدے کے بعد طالبان کا حکومت میں کیا کردار ہوگا یا موجودہ حکومتی نظام کا کیا مستقبل ہوگا جس کو امریکی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔‘

لوریل ملر کے مطابق طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے اس مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔

مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟

ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ان مذاکرات سے ہم وسیع مگر غیر واضح بیانات کی توقع کر سکتے ہیں جس میں پُرامن اصولوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔‘

’اگرچہ یہ بات چیت ابتدائی مراحل میں ہے اور مجھے کسی قسم کی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں تاہم اس سے ان مذاکرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے اور یہ بذات خود ایک اہم کامیابی ہے۔ تناؤ اور غیرمستحکم افغان سیاسی ماحول میں مذاکرات ہونا اہم پیش رفت ہے۔‘

سوفن سینٹر تھنک ٹینک کے ماہر کالن کلارک نے کہا واشنگٹن 18 سال کی جنگ کے بعد بات چیت میں فوری پیش رفت کا خواہاں ہے۔

کلارک نے اے ایف پی کو بتایا: ’موجودہ امریکی انتظامیہ مسائل کو حل کرنے کے لیے تنہا مذاکرات کرتی رہی ہے کیونکہ اس کے خیال میں مذاکرات میں جتنے فریق شامل ہوں گے معاملات اتنے ہی زیادہ پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔ وہ جنگ سے باہر نکلنے کے لیے جلدی کر رہے ہیں۔ وہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور جلد از جلد خود کو فاتح قرار دینے کے لیے بے قرار ہیں۔‘

کلارک نے کہا اتوار کو ہونے والے مذاکرات، جن میں کابل حکومت کے نمائندے سرکاری طور پر شریک ہونے کے بجائے انفرادی طور پر شرکت کریں گے، افغان حکام کو سائیڈ لائن کرنے کے مترادف ہے۔

’لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات چیت ہو رہی ہے اور امید ہے مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھیں گے جیسا کہ دوحہ افغان دھڑوں کو ایک میز پر لانے میں کامیاب رہا ہے۔‘

تاہم مائیکل کوگلمن کا کہنا تھا ’اس امن اور مصالحت کے عمل کے ہر پہلو سے طالبان کو مدد ملی ہے اور یہ باعث حیرت نہیں کیونکہ طالبان طاقتور حریف کی حیثیت سے بات چیت کر رہے ہیں اور وہ اس حیثیت کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔‘

’اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ، کابل حکومت یا کوئی اور طاقت طالبان کو اس بات پر راضی نہیں کر پائے کہ وہ افغان حکام سے ذاتی حیثیت کے بجائے ان کی سرکاری حیثیت سے مذاکرات کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا