فیض کی کتاب، جس سے اردو میں نئی روایت کا آغاز ہوا

آج سے ٹھیک 70 سال پہلے، یعنی 22 دسمبر 1952 کو اردو ادب کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں تھی۔

دستِ صبا فیض احمد فیض کا دوسرا شعری مجموعہ تھا (پبلک ڈومین)

یہ نو مارچ 1951 کی بات ہے جب فیض احمد فیض راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں سلاخوں کے پیچھے بند کر دیے گئے۔ وہ اس وقت پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے اور ان کا ایک شعری مجموعہ’نقش فریادی‘ کے نام سے شائع ہو چکا تھا۔
جیل میں فیض صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ان کی نظمیں اور غزلیں ادبی جریدوں اور اخبارات خصوصاً روزنامہ امروز میں شائع ہوتی رہیں۔ عبدالرؤف ملک نے اپنی کتاب ’فیض شناسی‘ میں لکھا ہے کہ ’راولپنڈی سازش کیس کو بہانہ بنا کر حکومت نے دہشت گردی اور خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا قائم کی جس کی یاد سے آج بھی جسم میں جھرجھری آجاتی ہے۔ حکومت نے اپنے تمام ذرائع ابلاغ سے یہ تاثر دیا کہ اس مبینہ سازس کے پیچھے پاکستان کمیونسٹ پارٹی کا ہاتھ تھا چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار پارٹی کارکنوں اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا، انہیں تشدد ، جسمانی اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‘
عبدالرؤف ملک نے لکھا ہے کہ کیوں کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی رکن تھے اور پارٹی کی ہدایات پر ہی پیپلز پبلشنگ ہاؤس چلا رہے تھے اس لیے ان کے خلاف بھی حکومت کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ شدت آ گئی تھی۔
عبدالرؤف ملک نے فیض کو ایک خط لکھا جس میں اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت کی اجازت طلب کی۔ فیض نے نہ صرف ان کے خط کا اپنے خاص مشفقانہ انداز میں جواب دیا بلکہ نو نومبر 1951 کو اپنی اہلیہ ایلس کے نام لکھے گئے ایک خط میں، جو ان کے خطوط کے مجموعے ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ شامل ہے،اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے ایلس کو لکھا کہ ’پیپلز پبلشنگ ہاؤس کے رؤف ملک کا بہت دردناک خط آیا ہے، لکھا ہے کہ ان لوگوں کے حالات بہت ابتر ہیں اور اگر میں اپنی نظمیں اور مضامین انہیں اشاعت کے لیے دے دوں تو وہ انہی شرائط پر انہیں چھاپ دیں گے جو موجودہ ناشر سے طے ہوئی ہے، میرے لیے اس فرمائش سے انکار مشکل ہے۔ ہمارے لیے کچھ ایسا فرق بھی نہیں پڑتا اور آج کل رؤف ملک کی امداد کرنے والے بہت کم ہوں گے، اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘
فیض سے عبدالرؤف ملک کی خط کتابت کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ فیض کے نام ایلس کے خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دست صبا کی اشاعت کے لیے راولپنڈی سازش کیس کی سماعت کے لیے قائم کیے گئے ٹربیونل کی خصوصی اجازت بھی حاصل کی گئی تھی۔ 26 اکتوبر 1952 کو ایلس نے فیض کے نام ایک خط میں لکھا کہ کیا دست صبا کی لانچنگ کے سلسلے میں ہونے والی پریس کانفرنس میں ان کا اراکین ٹربیونل کا شکریہ ادا کرنا مناسب ہو گا؟ کیونکہ اگر وہ لوگ چاہتے تو دوران اسیری اور مقدمہ اس کتاب کی اشاعت پر پابندی بھی لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے باقاعدگی سے اس کتاب کے چھپنے کی تحریری اجازت دی ہے اس لیے میرے خیال میں ہمیں اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
دو دن بعد 26 اکتوبر 1952 کو لکھے گئے ایک اور خط میں بھی ایلس فیض نے اس مجوزہ پریس کانفرنس کا ذکر کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’رؤف کا خیال ہے کہ کتاب مکمل ہوجانے کے بعد ہمیں کتاب کے سلسلے میں ایک پریس کانفرنس منعقد کرنی چاہئے جس میں کچھ اہم دوستوں، شاعروں اور ادیبوں کو بھی مدعو کرلیں گے۔ اس جلسے میں ہم کتاب پیش کریں گے۔ اس میں مجھے کچھ نہ کچھ ضرور کہنا ہوگا۔ اب تم بتاؤ کیا کیا جائے؟، تم بھی کچھ لوگوں کے نام لکھ بھیجو جنہیں پریس کانفرنس میں بلوایا جانا چاہیے۔‘


 1952 کے آخری چار پانچ ماہ میں دست صبا کی کتابت اور دیگر اشاعتی مراحل کا سلسلہ جاری رہا۔ دسمبر 1952 کے تیسرے ہفتے میں دست صبا شائع ہو گئی۔
عبدالرؤف ملک لکھتے ہیں کہ ’اشاعت سے پیشتر ہی کتاب کی تشہیر شروع کر دی گئی تھی۔ پاکستان ٹائمز اور امروز میں وقفے وقفے سے اشتہار شائع ہوتے رہے اس لیے کتاب کا خاصہ چرچا ہو گیا اور ملک بھر میں اہل ذوق اور فیض کے مداحین کتاب کی اشاعت کا بے تابی سے انتظار کرنے لگے، میں خود بھی بہت ایکسائٹڈ ہو رہا تھا، کیوں کہ دست صبا کی اشاعت اس زمانے میں پاکستان کی دنیائے شعر و ادب میں ایک اہم واقعہ ہی نہ تھا بلکہ میرے لیے بھی بہت تفخر کا باعث بھی تھا۔ میں نے کتاب کا متعارف کروانے کے لیے روایتی انداز میں محض اخبارا ت میں اشتہارات دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ کتاب کو پروجیکٹ کرنے کے لیے نت نئے طریقے بھی سوچے۔‘
عبدالرؤف ملک مزید لکھتے ہیں کہ ’ایک دن مسز فیض سے اس سلسلے میں باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے کہاکہ فیض تو یہاں ہیں نہیں کہ وہ خود اپنے دوستوں اور عزیزوں کو اپنی کتاب پیش کرتے کیوں نہ ہم کتاب کی اشاعت کے موقعے پر کچھ اخبار نویسوں، فیض کے احباب اور عزیزوں کو مدعو کرکے ایک پریس کانفرنس کریں اور کتابیں انہیں فیض کی جانب سے پیش کر دیں۔

خیال رہے کہ یہ بات 1952 کی ہے اس زمانے میں کسی کتاب کی اشاعت پر کوئی تقریب منعقد کرنے کا رواج نہ تھا بلکہ اس قسم کی تقریب کا تصور بھی ذہنوں میں نہ تھا۔ چنانچہ جب میں نے مسز فیض سے ایسی تقریب منعقد کرنے کا ذکر کیا تو اسے پریس کانفرنس کا نام ہی دے سکا کیونکہ اس زمانے میں ’تقریب رونمائی‘ کی ترکیب وضع ہوکر ابھی رائج نہ ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ انگریزی میں (Book Launching Ceremony) کی اصطلاح بھی عام طور پرمستعمل نہ تھی۔ اس لیے مسز فیض نے بھی میری مجوزہ تقریب کے متعلق فیض کو پریس کانفرنس کے متعلق ہی لکھا جس کے جواب میں فیض نے اپنے خط مورخہ 25 اکتوبر 1952 میں لکھا:
’کتاب کی اشاعت کہاں تک پہنچی ہے؟ پریشان افکار کے اس مجموعے کے لیے پریس کانفرنس منعقد کرنا مجھے کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے لیکن شاید اس میں کچھ فائدہ ہو۔ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں کہ ایسے موقعوں پر کیا کہنا چاہیے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام ادب خواہ وہ کسی سیاسی نظریے، کسی مکتب فکر یا کسی شخص کے متعلق ہو، بہرصورت قومی اثاثے کا جزو ہے اس لیے حالات کچھ بھی ہوں ادب کی تخلیق بہرصورت قومی خدمت کی ادائیگی ہے جس کا کچھ اعتراف اور کچھ قدر ہونی چاہئے۔ شاید یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر خادم قوم کی طرح، ہر ادیب کو کم از کم آزادی ضرور میسر ہونی چاہئے کہ وہ یہ خدمت انجام دے سکے۔ اس اعتبار سے اگر اس شخص کی شخصی آزادی کو گزند پہنچایا جائے تو اس اقدام سے صرف اس کی ذاتی ہی نہیں اور بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔‘
رؤف ملک لکھتے ہیں کہ ’فیض جیل میں تھے میں اور میرا ادارہ پیپلز پبلشنگ ہاؤس زیر عتاب، میرے کئی ساتھی بھی جیل میں تھے۔ ان حالات میں ہم لوگوں کی جانب سے کسی تقریب کا انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ سی آئی ڈی والے ہر وقت سائے کی طرح ساتھ رہتے حتیٰ کہ ریسٹورنٹ کے کار پردازان کو بھی پریشان کیا گیا۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر تقریب کی صدارت کے لیے کسی بااثر شخصیت یا وزیر وغیرہ سے استدعا کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے دیرینہ پڑوسی اور مربی جناب عبدالرحمن چغتائی سے صدارت کے لیے درخواست کی جو انہوں نے بلاتامل قبول کرلی۔ اس سے پیشتر فیض اور میری فرمائش پر وہ ‘دست صبا’ کا سرورق بھی ڈیزائن کرچکے تھے۔

’چنانچہ 22 دسمبر 1952 کو بوقت سہ پہر مال روڈ (شاہرہ قائداعظم) کے ایک ریسٹورنٹ جس کا نام ’ارجنٹینا‘ تھا، میں یہ پریس کانفرنس یا افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور یہ بات بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی کتاب کی یہ پہلی افتتاحی تقریب رونمائی تھی جو اسی طرز اور اہتمام سے منعقد ہوئی جس طرح کہ آج کل ایسی تقاریب عام طور پر منعقد ہوتی ہیں۔ میں فی زمانہ کتابوں کی منعقد ہونے والی تقاریب رونمائی کی روداد اخباروں میں پڑھتا ہوں تو معاً میرا ذہن ’دست صبا‘ کی اشاعت کے موقع پر اپنی طرف سے منعقد کردہ تقریب کی طرف چلا جاتا ہے اور فیض کا یہ شعر جو اس زمانے میں ‘دست صبا‘ کے اشتہارات میں بھی دیا کرتا تھا یاد آ جاتا ہے۔


ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
22 دسمبر 1952 کی شام کو ‘دست صبا’ کی اشاعت کی تقریب منعقد ہوئی اور دوسرے روز لاہور کے اخبارات میں اس کی خبر شائع ہوئی۔ روزنامہ امروز نے اپنے اسٹاف رپورٹر کی طرف سے اس تقریب کی خبر یوں شائع کی:
’پاکستان کے نامور شاعر فیض احمد فیض کے دوسرے مجموعہ کلام’دست صبا‘ کی اشاعت کی تقریب: فیض احمد فیض بہت بڑا فن کار ہے۔ وہ حسن و جمال کا متلاشی ہے۔ اس کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہی ہے اور اس کے نئے مجموعہ کلام ’دست صبا‘ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شاعر کس طرح سے مشکل سے مشکل موضوع کو گرفت میں لا سکتا ہے۔
یہ تھے وہ الفاظ جو آج پاک و ہند کے مشہور مصور عبدالرحمٰن چغتائی نے ایک تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کہے۔ یہ تقریب فیض احمد فیض کے نئے مجموعہ کلام ’دست صبا‘ کی اشاعت کے سلسلے میں اس مجموعہ کے ناشرین قومی دارالاشاعت کی طرف سے منعقد کی گئی تھی، اور اس تقریب میں لاہور کے چوٹی کے دانشوروں نے شرکت کی۔ جن میں صوفی غلام، مصطفی تبسم، ڈاکٹر باقر، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور حفیظ ہوشیار پوری بھی شامل تھے۔

سب سے پہلے فیض احمد فیض کی بچی سلیمہ نے مہمانوں میں کتابیں تقسیم کیں اس کے بعد احمد ندیم قاسمی نے فیض کے اس نئے مجموعہ کلام ’دست صبا‘ پر ایک مختصر تبصرہ پڑھا۔

انہوں نے کہا میرے خیال میں ہمارے ملک کے تمام ادب دوست اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ فیض احمد فیض اس دور کا مقبول ترین شاعر ہے اور میرے خیال میں اس بات پر بھی متفق ہوں گے کہ فیض کے دوسرے مجموعہ ’دست صبا‘ کی اشاعت ہماری ادبی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔
’قومی دارالاشاعت کے مہتمم عبدالرؤف ملک نے اس موقع پر ہدنوستان سے موصول ہونے والے مبارک باد کے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے۔‘
اس خبر میں قومی دارالاشاعت سے مراد پیپلز پبلشنگ ہاؤس ہی ہے کیونکہ آج سے 60 سال پہلے اردو تحریروں میں انگریزی الفاظ اور محاوروں کے استعمال کا چلن آج کی طرح عام نہ تھا۔
مذکورہ بالا خبر میں ہندوستان سے موصول ہونے والے مبارک باد کے جن پیغامات کا ذکر ہے وہ مجھے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار کے ایڈیٹر اور ترقی پسند مصنّفین کی طرف سے موصول ہوئے تھے۔ اس تقریب کا چرچا کئی دنوں تک ادبی محفلوں اور مجلسوں میں ہوتا رہا اور جہاں بھی کچھ اہل علم اور باذوق حضرات اکٹھے ہوتے وہیں فیض کی شاعری اور ’دست صبا‘ زیر بحث آتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غرضیکہ ’دست صبا‘ اپنے وقت کی سب سے اہم کتاب تھی اور اس کی اشاعت پاکستانی شعر و ادب میں ایک تاریخی واقعہ تصور کیا گیا۔ ’دست صبا‘ کی اشاعت سے قبل ہی اس کی اکثر نظمیں اور غزلیں مختلف رسائل و جرائد میں چھپ کر پڑھنے والوں میں مقبول ہوچکی تھیں۔
’دست صبا‘ فیض کا دوسرا مجموعہ کلام تھا۔ اس کے بعد فیض کے پانچ اور مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوئے اور پھر ان تمام مجموعوں کو یکجا کر کے فیض کا کلیات بھی ’نسخہ ہائے وفا‘ کے نام سے شائع ہوا۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو مقبولیت اور پذیرائی ‘دست صبا’ کو حاصل ہوئی وہ ان کے کسی دوسرے مجموعے کو حاصل نہ ہوئی۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ‘دست صبا’ کو حاصل ہوئی وہ ان کے کسی دوسرے مجموعے کو حاصل نہ ہوئی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ’دست صبا‘ کے علاوہ فیض کے باقی مجموعہ ہائے کلام فنی اور تخلیقی اعتبار سے کم تر ہیں بلکہ ان کی شاعری دوسرے مجموعوں میں نئی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے مگر ’دست صبا‘ کے حوالے سے ہی فیض کے اشعار و افکار پر مبسوط مضامین رقم کیے گئے جن میں ان کی شاعری اور نظریات کی تشریحات و توجیحات واضح طور پر پیش کی گئیں۔
دست صبا کایہ پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں چھپا تھا۔ اس کا سرورق ملک کے نامور مصور جناب عبدالرحمٰن چغتائی نے بنایا تھا اور اسے جناب عبدالرؤف ملک نے قومی دارالاشاعت لاہور کے اہتمام میں شائع کیا تھا۔
سید مظہر جمیل نے اپنی کتاب ’ایلس فیض کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘ میں لکھا ہے کہ ’دست صبا کا انتساب کلثوم کے نام تھا۔ دل دادگان فیض کے لیے یہ بات بجائے خود سنسنی خیز تھی کہ فیض کے قریبی دوستوں میں بھی کلثوم کی حقیقت سے کوئی واقف نہ تھا۔

’چنانچہ اس ضمن میں خوش گمانیوں اور خیال آفرینیوں کے امکانات وسیع تر تھے اور لوگ اس انتساب میں کسی خوش جمال محبوبہ کی جھلک دیکھتے تھے۔ چنانچہ فیض کے ساتھیوں میں بھی دلچسپ کرید لگی ہوئی تھی کہ دیکھیں یہ کلثوم کون ہیں؟ لیکن براہ راست پوچھنے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا اس راز سے اگر کوئی واقف تھا تو وہ خود ایلس اور فیض تھے۔ چنانچہ فیض اس صورت حال سے لطف اندوز ہورہے تھے، لیکن چند دنوں بعد ہی یہ استعجاب ختم ہوگیا اور لوگوں پر کلثوم کی حقیقت آشکارہ ہو گئی کہ کلثوم ایلس کا وہ مشرقی نام ہے جو نکاح وقت اختیار کیا گیا تھا اور اس کے بعد اسے کہیں دہرانے کی ضرورت پیش ہی نہیں آئی تھی۔‘
’دست صبا‘ کی اشاعت تک پریس کانفرنس کا اہتمام اردو کی ادبی دنیا میں ایک نئے باب کا نقطہ آغاز تھا۔ 1961 میں محسن بھوپالی نے اپنی کتاب ’شکست شب‘ کی اشاعت کے موقعے پر حیدرآباد کے ادبی اور ثقافتی ادارے فن کدہ کے اہتمام میں ایک باقاعدہ تقریب منعقد کر کے پہلی مرتبہ اردو کی کسی بھی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کی جس کے باقاعدہ کارڈ چھپے اور مقررین (مرزا عابد عباس، پروفیسر سید محمد نصیر، حمایت علی شاعر اور پروفیسر خالد وہاب) اور مہمان خصوصی (زیڈ اے بخاری) نے کتاب اور صاحب کتاب پر گفتگو کی۔

ادبی کتابوں کی اشاعت پر ان کی تقریب رونمائی یا تقریب پذیرائی اب ادبی دنیا کا ایک معمول کا واقعہ بن چکا ہے تاہم اس کی بنیاد فیض احمد فیض کی دست صبا کی اشاعت پر ہونے والی پریس کانفرنس یا ’شکست شب‘ کی اشاعت پر ہونے والی تقریب رونمائی ہی سمجھی جاتی ہے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب