دھرما راجیکا سٹوپا جہاں اب ویساکھ ڈے منایا جاتا ہے

ٹیکسلا میں ایک سٹوپا ہے جسے اشوکِ اعظم نے بنوایا تھا اور بدھ مذہب کے مرکزی مقامات میں سے ایک ہے۔

ٹیکسلا کا دھرماجیکا سٹوپا جسے بحال کر کے سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے (Sasha Isachenko - CC BY-SA 3.0)

یہ251 قبل مسیح ہے۔ منظر ہے ٹیکسلا میں واقع عظیم الشان سٹوپا دھرما راجیکا، جسے بنے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ اشوک نے بدھا کی راکھ یہاں رکھ کر اس سٹوپا کو متبرک ترین درجہ دے دیا ہے۔

ٹیکسلا میں ویساکھ ڈے منایا جا رہا ہے جس میں شرکت کے لیے اشوکِ اعظم اپنی راجدھانی مگدھ سے ٹیکسلا آیا ہوا ہے۔ مئی کا مہینہ ہے اور پورے چاند کی رات ہے۔ بدھ روایات کے مطابق گوتم بدھ 564 ق م میں مئی کے مہینے میں پورے چاند کی رات پیدا ہوئے تھے۔ جب 35 سال کی عمر میں انہیں نروان ملا تب بھی مئی کا مہینہ تھا اور پورے چاند کی رات تھی اور جب 80 سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا تب بھی مئی کا ہی مہینہ تھا اور پورے چاند کی رات تھی۔

اشوکِ اعظم جس کی سلطنت کی سرحدیں برما سے وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہیں، وہ اپنی وضع قطع سے درویش ہی لگتا ہے۔ دور دراز سے بھکشو اور زائرین دھرما راجیکا سٹوپے کے گرد طواف کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک اشوک بھی ہے۔

اس میں، بھکشوؤں اور عام زائرین میں فرق ہے تو بس اتنا کہ اس کے ساتھ چند محافظ بھی ہیں، مگر بادشاہ کی موجودگی اور طواف سے اس مذہبی فریضے کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ عام زائر اور بھکشو ہاتھوں میں پھول لیے ہوئے ہیں جنہیں وہ ترتیب کے ساتھ سٹوپے کے گرد ڈھیر کر رہے ہیں۔

طواف مکمل ہوتے ہی بھکشو اور عام زائرین دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بدھا کے فرامین کے تلاوت بھی رک جاتی ہے۔ اسی دوران بادشاہ سٹوپے کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر حاضرین سے مخاطب ہوتا ہے:

’جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میرے 99 بھائی تھے۔ میرا باپ میرے بڑے بھائی سوئم کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا۔ جب بادشاہ بیمار ہوا تو سوئم ٹیکسلا میں تھا۔ وہ مر گیا اور میں نے بزورِ بازو تخت پر قبضہ کر لیا۔ سوئم بھی تخت نشینی کی اس جنگ میں مارا گیا۔ میرے جن بھائیوں نے سوئم کا ساتھ دیا وہ بھی تہہ تیغ ہوئے۔

’میں شکل و صورت سے اچھا نہیں۔ مجھے سب برا سمجھتے تھے اور مجھ سے نفرت کرتے تھے۔ بدلے میں سب سے نفرت کی آگ جو مجھ میں جل اٹھی تھی وہ اس وقت جا کر ٹھنڈی ہوئی جب کلنگا کی فتح میں ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے گئے، اتنے ہی بھوک اور بیماری سے مر گئے۔

’تب میں نے سوچا کیا میں اب خوبصورت ہو گیا ہوں؟ میں نے لوگوں سے پوچھا میں کیسا لگتا ہوں؟ لوگ میری آواز سن کر تھرتھر کانپنے لگتے تھے۔

تب میں نے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھا۔ جواب آیا، ’پہلے سے زیادہ بدصورت!‘

’پھر مجھے ایک بھکشو ملا اس نے مجھے بتایا کہ ’خوبصورتی محبت ہے جو آخری سچ ہے اور نفرت جھوٹ ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا ابدی حقیقت ہے۔

’تب میرے دل کی کایا پلٹ گئی۔ میں اب آپ سب کو حکم دیتا ہوں کہ میری سلطنت میں انسانوں ہی نہیں تمام جانوروں کو امان دے دی گئی ہے۔ جانور ذبح کرنا اور ان کا شکار کرنا جرم تصور ہو گا۔ بلااجازت کوئی درخت بھی نہیں کاٹا جائے گا مزید سایہ دار درخت لگائے جائیں گے۔

’رعایا اعتدال اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرے۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا خیال رکھا جائے۔ میں اور میرے اہلکار ہر وقت رعایا کی شکایات سننے کے لیے موجود ہیں۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ بدھ تعلیمات کو عام کیا جائے مگر کسی دوسرے دھرم کو بھی اتنی ہی آزادی کی ضمانت ہے جتنی بدھ کو۔

’خدا کی مدد و نصرت کا راز محبت میں ہے اور یہ کہ اس کے حق دار صرف انسان ہی نہیں تمام جاندار ہیں۔ ایسی تمام مذہبی رسومات جو غیر اخلاقی ہیں ان پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ بادشاہ کے غیر ضروری دوروں اور سیر سپاٹوں کو بھی بند کیا جاتا ہے۔ اگر رعایا کے دل میں تسکین ہو گی تو بادشاہ بھی چین کی نیند سوئے گا۔ میں نے اپنے یہ فرمان پتھروں پر کنندہ کرا دیے ہیں تاکہ سند رہے۔‘

یہ کہہ کر اشوک سیڑھیاں اترتا ہے۔ بھکشو، زائرین اور بادشاہ سب ایک دوسرے کو پرنام کرتے ہیں۔ ٹیکسلا میں ویساکھ ڈے کے موقعے پر آج چاند ہی نہیں زندگی بھی جوبن پر ہے۔ امن اور خوشحالی کے سرچشمے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس منظر کے تقریباً اڑھائی ہزار سال بعد وہی دھرما راجیکا سٹوپا ہے وہی ٹیکسلا ہے مگر نہ ہی یہاں زائر ہیں، نہ ہی بھکشو اور نہ ہی کوئی اشوک۔ امن اور خوشحالی بھی یہاں کی زمین سے روٹھ گئی ہے بس ایک چیز جو باقی بچی ہے وہ ٹیکسلا کا نام ہے جو سر جان مارشل کی کھدائیوں کی دین ہے۔ اشوک نے تب انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں، درختوں اور پرندوں کو بھی و امان دی تھی مگر اب یہ امان یہاں کے پہاڑوں سے بھی چھین لی گئی ہے جنہیں کاٹ کاٹ کر لہولہان کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیکسلا میں گئے دنوں کو آواز دینے کے لیے ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے گندھارا رسورس سینٹر قائم کیا ہے جس نے گذشتہ پانچ سالوں سے دھرما راجیکا میں ویساکھ ڈے منانا شروع کیا ہے جس کا مقصد جہاں ویساکھ کی اہمیت سے مقامی آبادی کو روشناس کرانا ہے، وہیں عالمی برادری کو بھی یہ پیغام دینا ہے کہ بدھ مت کے لیے متبرک ترین یہ سٹوپا بدھ زائرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔

’ٹیکسلا ٹائم‘ اخبار کے مصنف انجینیئر مالک اشتر مالک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دھرما راجیکا کی نسبت اشوک اعظم سے ہے۔ یعنی راجے کا دھرم، اس نے جب بدھ مت قبول کیا تو یہ سٹوپا سب سے پہلے بنوایا اور اس میں بدھا کی راکھ اور دانت لا کر رکھے گئے۔ سر جان مارشل نے جب کھدائیاں کر کے انہیں نکالا تو اس کا کچھ حصہ رنگون اور سری لنکا بھجوا دیا گیا اور کچھ آج بھی ٹیکسلا میوزیم میں موجود ہے۔

’اس لیے اس سٹوپا کی بدھ مت میں حیثیت بہت متبرک ہے اور یہاں آنے کے لیے پوری دنیا کے بدھ بیتاب ہیں مگر یہاں کے حالات اور مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کا رجحان نہیں بن رہا۔‘

ویساکھ ڈے کو اقوام متحدہ نے عالمی دن قرار دے رکھا ہے جو دنیا کے 50 کروڑ بدھ ہر سال مئی میں پورے چاند کی رات کو مناتے ہیں۔ جہاں آج پاکستان، بھارت، چین اور وسطی ایشیا ہیں یہاں پانچویں صدی عیسوی تک بدھ مت سب سے بڑا مذہب تھا۔ آج بھی چین، جاپان، جنوبی کوریا، بھوٹان، برما، کوریا، سنگا پور، سری لنکا، تائیوان، تھائی لینڈ، فلپائن، ویت نام منگولیا، کمبوڈ، نیپال یا وغیرہ میں بدھ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

اگر پاکستان بدھ مت کے عبادت گاہوں اور آثار کوترقی دے کر اس قابل بنائے تو سالانہ لاکھوں کی تعداد میں زائرین آ سکتے ہیں جس سے پاکستان مذہبی سیاحت کے ذریعے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

ویساکھ اور بیساکھ میں کافی فرق ہے۔ بیساکھی کا تہوار ہر سال 13 اپریل کو منایا جاتا ہے جب کسان گندم کی فصل کٹنے کی خوشی مناتے ہیں۔ اس کی دوسری نسبت سکھ مذہب سے بھی ہے۔ تاہم ویساکھ خالصتا ً بدھ مت سے منسوب ہے اور یہ بدھ مت کا متبرک ترین دن ہے۔

پاکستان میں بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی چند ہزار ہے جو زیادہ تر سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں رہائش پذیر ہیں۔ 2017 کی ووٹر لسٹ میں 1884ووٹرز ایسے تھے جن کا مذہب بدھ مت تھا۔ نوشہرو فیروز سے بدھ مذہب کے ماننے والوں کا ایک وفد بھی ہر سال گندھارا ریسورس سینٹر کے تعاون سے ٹیکسلا آتا ہے اور ویساکھ ڈے کی تقریبات میں شرکت کرتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ٹیکسلا میں ویساکھ ڈے کی تقریبات کا سہرا مقامی لوگوں کے سر جاتا ہے جنہیں یہ امید ہے کہ ٹیکسلا میں مذہبی سیاحت کے فروغ سے وہاں نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ٹیکسلا کی قدیم بازیافت بھی ہو سکے گی۔

ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2018 سے انہوں نے مقامی آبادی کی آشیر باد سے یہاں ویساکھ ڈے منانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور یورپ کے بھکشو بھی شرکت کر چکے ہیں ا س کے علاوہ سر ی لنکا، جنوبی کوریا، ملائشیا، فلپائن اور دیگر ملکوں کے سفیر بھی آ چکے ہیں۔

اس سال یہ دن سات مئی بروز اتوار کو منایا جا رہا ہے۔ ویساکھ ڈے منانے کا مقصد جہاں پر مذہبی سیاحت کا فروغ ہے وہاں پر بدھ ملکوں کے ساتھ کلچرل ڈپلومیسی کا احیا بھی ہے۔ ہم پاکستان کا سافٹ امیج ابھارنا چاہتے ہیں اور دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔ اگر ویساکھ ڈے کے فروغ پر حکومت توجہ دے تو صرف دھرما راجیکا میں ہر سال لاکھوں لوگ آ سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ