پاکستان کا خوبصورت ترین سرحدی گاؤں

سیاحت کے 20 سالہ عرصے میں سب سے شاندار کھانا منی مرگ میں کیفے ڈی مونٹاگنا کا تھا۔ پانچ ستارہ ماحول میں سیون سٹار ڈنر کا لطف اس وقت دو بالا ہوا جب 14 افراد کے دو ڈشز پر مشتمل کھانے کا بل پانچ ہزار روپے ملا۔

منی مرگ گاؤں (Muhammadyahyaqureshi - CC BY-SA 4.0)

قراقرم ہائی وے پر چلاس کی طرف سے جاتے ہوئے گھنٹہ بھر کی آسان مسافت کے بعد گلگت روڈ پر جگلوٹ سے 14 کلومیٹر پہلے استور کی جانب اترے تو دریائے سندھ میں استور دریا شامل ہو رہا تھا۔ پختہ اور کھلی سڑک دریا کنارے ہماری رہنمائی کرتی گئی اور ہم چھوٹی چھوٹی بستیوں سے گزر کر استور کی داخلی چیک پوسٹ تک پہنچ گئے۔

 ترشنگ، روپل، دیوسائی، چلم، منی مرگ اور دومیل جانے والے سیاح استور شہر میں داخل نہیں ہوتے، اس لیے ہم بھی شہر کو بائی پاس کرتے ہوئے 20 کلومیٹر دور استور کے بیرونی گاؤں گوری کوٹ کی 7713 فٹ بلندی پر پہنچ گئے۔

استور سے گوری کوٹ تک عیدگاہ اور فینا کی بستیاں راستے میں آئیں، جہاں ڈپٹی کمشنر استور ذوالقرنین سواگ نے بےنظیر پیلس میں ہمارے لیے فور بائی فور جیپوں کا بندوبست کر رکھا تھا اور ڈی سی آفس کا نمائندہ ہمارا منتظر تھا۔

گوری کوٹ سے نکلے تو ترشنگ نالے کو عبور کیا، یہیں سے ایک راستہ جنت نظیر گاؤں ترشنگ کی طرف جاتا ہے جو نانگا پربت کے روپل چہرے اور لاتوبو تک لے جاتا ہے۔ دوسرا راستہ چلم چوکی کی طرف مڑ جاتا ہے، سو ہم چلم کی طرف مڑ گئے۔

اسی مقام پر دو ندیاں باہم ملتی ہیں۔ ترشنگ سے آنے والی ندی کا پانی گہرے اور گدلے رنگ کا ہے جبکہ چلم کی طرف سے آنے والی ندی شفاف ہے۔ گلٹر، پکوری داس، میکال، پکوڑا، کشنٹ، خومیداس، گدائی، آئیگاہ، خرام اور داس بالا کی آبادیاں راستے میں پڑتی ہیں جہاں پر چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی موجود ہیں اور علاقہ بھی سنسان نہیں ہے۔

چلم بستی کے گھر لکڑی کے روایتی مکانات پر مشتمل ہیں اور ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے۔ چلم سے ایک راستہ بائیں جانب اٹھتا ہے جو مرتضی چوکی اور شیوسر جھیل سے ہوتا ہوا دیوسائی اور پھر سکردو تک جاتا ہے۔

دیوسائی کی برف اس سال جون کے پہلے ہفتے میں بھی پگھلی نہیں تھی، اس لیے یہ راستہ بند تھا۔ چلم فوجی چیک پوسٹ کے حوالے سے مشہور ہے اور ایک نیم فوجی علاقہ ہے۔

چیک پوسٹ پر تین سائن بورڈز نصب ہیں جن پر سیاحوں کی راہنمائی کے لیے ہدایات درج ہیں۔ ہم چیک پوسٹ پر رک گئے جہاں پر ہر سیاح سے منی مرگ جانے کا این او سی طلب کیا جا رہا تھا۔ دن بھر کی سیاحت کے بعد سہ پہر چار بجے تک لوٹ آنے والوں کے لیے ذرا نرمی تھی اور شب بسری کرنے والوں کو کچھ سکیورٹی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔

عام سیاح ڈپٹی کمشنر دفتر سے اجازت لے کر پاکستان فوج کے مقامی میس سے مہر لگواتے ہیں۔ ہم چھ بچوں اور چار خواتین سمیت کل 14 آوارہ گرد ڈپٹی کمشنر استور کے مہمان تھے اور اسسٹنٹ کمشنر شونٹر نے ہمارے لیے منی مرگ میں رہائش کا اہتمام کر رکھا تھا۔

چلم چوکی سے ہماری جیپیں آگے بڑھیں تو حیران کن مناظر نے ہمیں حیرت کے اک نئے جہان سے روشناس کرانا شروع کیا۔ سردار چوکی کی 11 ہزار 800 فٹ بلندی سے لے کر ناصر کیمپ تک شہدا کی یادگاریں اور تصاویر سر راہ آویزاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ برزل پاس کی چڑھائیاں تھیں جن پر ان گنت رنگوں کے پھول تھے اور پھولوں پر اڑتی تتلیوں کے رنگ چھوٹے چھوٹے پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے تھے۔ برزل ٹاپ کے 13 ہزار 808 فٹ بلندی پر ایستادہ برف کے انباروں کی کہانیاں الگ تحریر کی متقاضی ہیں اور ابھی ہم نے ناصر کیمپ کے بعد کی اترائیاں اور منی مرگ کے حسن کو بیان کرنا ہے۔

ہماری جیپیں چلم چوکی سے دو گھنٹے کا سفر طے کر کے منی مرگ میں داخل ہوئیں تو فوجی عمارتیں اور دفاتر ہمارے سامنے آئے۔ بلندی کی طرف کیفے کی شاندار عمارت ہے اور اترائی کی جانب منی مرگ کی آبادی ہے جن کے مکان لکڑی سے بنے ہیں۔

انہی مکانوں میں پی ڈبلیو ڈی کا وہ شاندار ریسٹ ہاؤس ہے جس میں ہم مہمان تھے۔ ریسٹ ہاؤس کے دو کمروں میں ضرورت کی تمام اشیا موجود تھیں اور بجلی کی فراہمی بھی جاری تھی مگر پانی کا پائپ کم پریشر کی وجہ سے غسل خانوں تک پانی پہنچانے میں ذرا کمزوری دکھا رہا تھا،اس لیے ہم نے صحن میں اگی بےترتیب گھاس میں گم ہو چکے پائپ کو تلاش کیا اور پانی کی بالٹیاں بھر کر ضروریات پوری کیں۔

منی مرگ کے نائب تحصیلدار اور پٹواری اپنی ٹیم کے ساتھ موجود رہے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھا۔ منی مرگ میں سول رہائش گاہ صرف یہی تھی۔

منی مرگ میں لوگ کاشت کاری کرتے ہیں اور طلوع صبح سے پہلے اپنے کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ریسٹ ہاؤس کے سامنے چراگاہوں میں جو مویشی چرتے تھے ان میں چند یاک بھی تھے۔

ٹریکٹر سے ہل چلانے کا انداز میدانی علاقوں جیسا ہے۔ میں نے صبح سویرے گاؤں میں نکل کر دیکھا تو فوجی جوان اپنے ٹرکوں میں ڈیزل بھر رہے تھے اور کچھ اپنی چائے کی کیتلیاں اٹھائے چولہوں کی طرف جا رہے تھے۔ فوجی رہائش گاہوں سے پراٹھے بننے کی آواز اور خوشبو بتاتی تھی کہ گھر سے دور رہنے والے ہاتھ اب اناڑی نہیں رہے۔

 شام ہوئی تو جیپیں ہمیں منی مرگ کی بلندی پر تعمیر ہوئے فرانسیسی نام والے کیفے ڈی مونٹاگنا لے گئیں، جہاں پر خوبصورت ہال کے سامنے دو ندیاں دیوسائی ٹاپ سے اتر رہی ہیں جن کا شور اور منظر دنیا کا دلکش ترین تحفہ ہے۔ کیفے کے لان میں الاؤ کے گرد ایک فن کار گٹار بجا رہا تھا اور حسین ترین وادی میں ان مدھر سروں نے ہم سب کو باہر بلا لیا۔

سیاحت کے 20 سالہ عرصے میں سب سے شاندار کھانا منی مرگ میں کیفے ڈی مونٹاگنا کا تھا۔ پانچ ستارہ ماحول میں سیون سٹار ڈنر کا لطف اس وقت دو بالا ہوا جب 14 افراد کے دو ڈشز پر مشتمل کھانے کا بل پانچ ہزار روپے ملا۔ کیفے مینیجر عامر محمود سے کم بل کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان فوج نے کنٹرول ریٹ لگانے کا حکم دے رکھا ہے اور مقدار بھی کم نہیں ہوتی۔ ناشتہ اس سے بھی بڑھ کر لذیذ تھا۔

منی مرگ ہربل ادویات میں استعمال ہونے والی قیمتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے بھی اہم گاؤں ہے۔ پہاڑی سلسلہ ہمالیہ میں موجود منی مرگ طرفین سے سرحدی گاؤں ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔

دیوسائی، ڈومیل، ناگائی، قمری، دودگائی اور زینکال کی وادیوں میں گھرا یہ گاؤں کارگل کی گزرگاہ بھی ہے۔ منی مرگ کے گاؤں میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو یہ بلندی سے اترائی کی طرف ڈھلکا ہوا قصبہ ہے جس کی اونچائی دیوسائی کی طرف ہے اور اترائی دومیل کی جانب ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ