بالی وڈ انڈیا کے انتخابات میں معاون کردار ادا کر رہا ہے

انڈیا میں سینیما اور سیاست کا چولی دامن کا ہاتھ ہے اور خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے بالی وڈ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

بالی وڈ اداکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما متھن چکرورتی کا ایک بڑا پوسٹر 30 مارچ، 2021 کو کولکاتہ سے تقریباً 160 کلومیٹر مغرب میں نندی گرام میں (اے ایف پی)

انڈیا میں 19 اپریل سے یکم جون 2024 تک تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی عمل ہونے جا رہا ہے جس کے دوران سیاسی جماعتیں دوسرے ذرائع کے علاوہ سینیما کے ذریعے بھی رائے دہندگان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں تیسری مدت کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے، نے پارٹی کے مقاصد اور نظریات کو پھیلانے کے لیے دوسروں کے مقابلے میں سینیما کا ذریعہ استعمال کیا ہے۔

بی جے پی ہندوستان کو ہندو قوم قرار دیتی ہے۔ مودی حکومت ٹیکس چھوٹ دینے اور ریگولیٹری پابندیوں کو ختم کر کے بی جے پی کے نظریے کو فروغ دینے والی فلموں کی کھلے عام حمایت کرتی ہے، خاص طور پر جب ایسی فلمیں انتخابات سے پہلے ان کی حکمتِ عملی کے مطابق نمائش کے لیے پیش ہو رہی ہیں۔

مثال کے طور پر ہندو قوم پرستی کے پرجوش حامی کی زندگی پر بننے والی فلم ’سوتنتریہ ویر ساورکر‘ 2024 کے انتخابات کے لیے پولنگ شروع ہونے سے چند ہفتے قبل ریلیز کی گئی۔

انڈیا کی تفریحی فلم انڈسٹری ایک پیچیدہ صنعت ہے جو سالانہ تقریباً ڈیڑھ ہزار فلمیں ریلیز کرتی ہے، اور اس کے شائقین صرف انڈیا میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان فلموں کی خاص بات شاندار طور پر کوریوگراف کیے گئے رقص، دلکش گیت، یادگار مکالمے اور تاریخی اور مذہبی تصورات ہیں جو انہیں سیاسی جماعتوں کے لیے بھی خیالات کی ترسیل کا ایک پسندیدہ ذریعہ بناتے ہیں۔

سیاسی مقاصد کے لیے ہندوستانی مقبول سینیما کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے، جو دراصل آزادی سے پہلے تک جاتی ہے۔ ایک آرٹ مورخ کی حیثیت سے، میں نے اپنی 2009 کی کتابCelluloid Deities: The Visual Culture of Cinema and Politics in South India میں واضح کیا تھا کہ جنوبی انڈین ریاست تمل ناڈو میں سیاسی شخصیات کے ارد گرد ایک شجاعانہ تاثر پیدا کرنے کے لیے سینیما کا استعمال کیا گیا۔

سینیما اور سیاست کے درمیان اسی تعلق نے اسے متعدد کرشماتی سیاست دانوں کے طویل کیریئر کا بنیادی ذریعہ بنا دیا۔ ان میں سے کچھ سکرین رائٹر اور فلم پروڈیوسر، معروف اداکار اور اداکارائیں شامل ہیں۔ 1980 کی دہائی کے بعد رائے دہندگان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سینیما کے ذرائع کا استعمال کرنے کا ملک گیر رجحان شروع ہو گیا۔

انتخابی مہم کے لیے فلمی شائقین کو متحرک کرنا

سینیما گھر میں فلم دیکھنا ایک اہم اور خوشگوار تجربہ ہے جو بڑے پیمانے پر ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ماہر سماجیات لکشمی سری نواس نے اپنی 2016 کی کتاب ’ہاؤس فل‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ انڈیا میں انتہائی متوقع بلاک بسٹر فلموں کی ریلیز ایک تہوار کی مانند ہوتی ہے۔ اس دوران سب سے زیادہ حیرت انگیز چیز ناظرین کا جوش و خروش ہے جب وہ مکالمے سناتے ہیں، گیتوں پر رقص کرتے ہیں اور سکرین پر ظاہر ہوتے ہی ستاروں کی تعریف میں نعرے بلند کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی تناظر میں سینیما کا اثر فلم تھیئٹر سے لے کر سڑک تک اشتہارات، فیشن اور فلمی موسیقی کی شکل میں پھیلا ہوا ہے جو عوامی مقامات پر حاوی ہیں۔ آرٹ مورخ شالینی کاکڑ کا کہنا ہے کہ سینیما ناظرین کے اندر ایک جذباتی ردعمل پیدا کرتا ہے جو مذہبی جذبات کی مانند ہوتا ہے۔

انہوں نے فلمی شائقین کی بعض کیس سٹڈیز پر تبادلہ خیال کیا ہے جو گھر یا دکانوں میں فلمی ستاروں کے لیے مندر بنا کر دیوتاؤں کے طور پر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ پرستار اپنی پسندیدہ فلمی شخصیات کے لیے مذہبی تقریبات مناتے ہیں اور اپنے پسندیدہ ستاروں کے لیے عوامی میلوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

لیکن زیادہ تر شائقین ایک بڑے اور بااثر گروہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ میڈیا تھیوریسٹ ایس وی سری نواس نے لکھا ہے کہ فلمی شائقین ستاروں کے کیریئر اور زندگی وں کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ اگر کوئی سٹار سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فلمی مداح سٹار کی سیاسی مہم میں سرگرم حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اگر سٹار کچھ ایسا کرتا ہے جسے مداح ناپسند کرتے ہیں تو وہ آسانی سے اس کی فلموں کا بائیکاٹ کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے کیریئر کو بھی تباہ کر سکتے ہیں۔

سینیما اور سیاست کی صف بندی

تمل ناڈو کی سینیما انڈسٹری، انڈیا کے کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ، 1940 کی دہائی کے بعد سے اس خطے میں ہونے والے سیاسی اور سماجی ارتقا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھی ہے۔ تمل قوم پرستی کے نظریات کو تفریحی فلموں کے ذریعے طاقتور طریقے سے پیش کیا گیا جنہوں نے ایک سیاسی تحریک کی شکل میں تمل ناڈو میں تاریخ کا رخ بدل دیا۔ ان فلموں سے وابستہ اکثر شخصیات پارٹی اجلاسوں میں سیاست دانوں کے ساتھ خود بھی موجود رہتی تھیں۔

میں نے اپنی تحقیق میں پایا کہ تمل ناڈو میں سینیما اور سیاست کی صف بندی کو ایک جیسے اشتہاری میڈیا کے استعمال سے مدد ملی۔ سیاسی جماعتوں نے باقاعدگی سے اشتہار دہندگان کو سیاست دانوں کی ہاتھ سے پینٹ کی گئی ’سٹار تصاویر‘ تیار کرنے کا حکم دیا۔ سینیما انڈسٹری اور پارٹی کے ارکان دونوں کے لیے ایک پسندیدہ پبلسٹی ذریعہ ہاتھ سے پینٹ کیا گیا پلائی وڈ کٹ آؤٹ تھا۔ 20 فٹ سے 100 فٹ اونچی ان تصویروں میں تمل قوم پرست پارٹیوں کے کرشماتی رہنماؤں جیسے ایم کروناندھی اور مشہور فلم سٹار سے سیاست دان بننے والی جے جے للیتا کو دکھایا گیا ہے۔

اگرچہ یہ سیاسی پورٹریٹ ڈرامائی ہونے کے بجائے حقیقت پسندانہ تھیں، لیکن ان پورٹریٹس کا انداز اور پیمانہ سینیما سٹار امیج سے ملتا جلتا تھا۔ اس طرح انہوں نے سینیما سٹار امیج کی طاقت کو رہنما کی شبیہہ میں منتقل کرنے میں مدد کی۔

میرا خیال ہے کہ ان اشتہارات نے تمل قوم پرستی کی شناخت کی سیاست کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

لاکھوں لوگ یہ تصاویر دیکھتے تھے۔ جب فلمی ستاروں اور سیاسی رہنماؤں کی یہ رنگین تصویریں عوامی مقامات پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آئیں تو وہ آسمانی مخلوق کی طرح نظر آتے تھے۔ یہ تصاویر کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، لوگ ان کے آگے رقص کرتے ہیں، ان تصویروں کے ارد گرد جوش و خروش دکھاتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے ہیں۔

تمل قوم پرست تحریک کے کرشماتی سیاست دانوں نے اپنے اشتہارات میں فلمی ستاروں کی شبیہہ کی چمک، سیاسی تصویر کشی کی طاقت اور آئیکون کی دیوتاؤں جیسی کشش کو یکجا کرنے کا رجحان قائم کیا۔

تقسیم کی سیاست میں سینیما کا کردار

مودی کی قیادت میں، فلموں کے ایک گروپ میں تین موضوعات ابھر کر سامنے آئے ہیں، جو بی جے پی کے مقاصد اور پالیسیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور پارٹی ان کی حمایت کرتی ہے: فلاحی اقدامات کا کریڈٹ لینے کا دعویٰ، معاشرے میں ہندو قوم پرست عقائد کو فروغ دینا، اور ہندو اکثریت اور مسلم اقلیتی برادریوں کے درمیان تناؤ بڑھانا۔

مثال کے طور پر 2017 میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ’ٹوائلٹ: ایک پریم کی کتھا‘ ایک ایسے جوڑے کی کہانی بیان کرتی ہے جن کی شادی گھر کے اندر بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹنے لگتی ہے۔ فلم کے آغاز میں، جو ایک تفریحی میوزیکل میلوڈراما ہے، ناظرین کو بتایا جاتا ہے کہ جہاں مہاتما گاندھی صاف ستھرے ماحول کے حامی تھے، وہیں یہ مودی ہی ہیں جو ملک بھر میں بیت الخلاؤں کی تعمیر کے لیے بجٹ کے ذریعے اس خواب کو حقیقت بنا رہے ہیں۔

ایک اور قسم کی فلموں میں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کی تاریخی وراثت دکھائی گئی ہے۔ فلم ’پی ایم نریندر مودی،‘ جس نے رائے دہندگان کو وزیر اعظم کے غربت سے اٹھنے کی یادہانی کروائی گئی تھی، 2019 کے انتخابات سے ٹھیک پہلے ریلیز ہونے والی تھی۔ لیکن آزاد انہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے حکم دیا کہ فلم کو انتخابات کے بعد ہی ریلیز کیا جا سکتا ہے۔

تیسری اور زیادہ پریشان کن صنف سیاسی طور پر تقسیم کرنے والی فلمیں ہیں۔ ان فلموں میں مذہبی منافرت پر مشتمل حقیقی واقعات دکھائے جاتے ہیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی برادریوں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ ان فلموں کے سکرپٹ انتہائی متعصبانہ بیانیے کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں جن میں ہندوؤں کو متاثرین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو ولن قرار دیا جاتا ہے۔

اس صنف کی وسیع پیمانے پر دیکھی جانے والی مثالوں میں ’کشمیر فائلز‘ شامل ہیں، جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں ریاست کشمیر سے ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو ظاہر کرتی ہے جب انہیں کشمیری مسلمانوں کی پاکستان نواز مسلح بغاوت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ فلم، جس میں مسلمانوں کو بدنام کیا گیا ہے اور انہیں انتہائی وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ان فلموں میں سے ایک ہے جن کی خود وزیر اعظم نے عوامی طور پر حمایت کی ہے۔

فلم پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز جن کا میں نے اپنی تحقیق کے لیے انٹرویو کیا، وہ اس بات پر متفق تھے کہ انتخابات کے نتائج کی طرح یہ بھی درست اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ کوئی فلم باکس آفس پر کامیاب ہو گی یا نہیں۔

تاہم اگر بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہو گا کہ اس ہیٹ ٹرک کا ایک عنصر پارٹی پروپیگنڈے کے ذریعہ کے طور پر سینیما کی چالاکی سے حمایت کرنا تھا۔

اگر آنے والے انتخابات میں بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہو گا کہ انتخابی فتوحات کی اس ہیٹ ٹرک کا ایک عنصر پارٹی کے پروپیگنڈے کے لیے بڑی ذہانت سے سینیما کا استعمال بھی تھا۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر چھپی تھی۔ اسے پریمندا جیکب نے لکھا ہے جو امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں آرٹ ہسٹری اور میوزیم سٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا