مودی حکومت کیسے الیکشن کمیشن کی آزادی سلب کر رہی ہے؟

حکومت نے الیکشن کمشنروں کے انتخاب میں خود کو کھلی چھوٹ دے دی، جس کے بعد انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔

15 اپریل، 2024 کو نئی دہلی میں انتخابات سے پہلے لوگ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے کے ماڈل کے پاس سے گزر رہے ہیں(اے ایف پی/منی شرما) 

انڈیا میں شہری آزادیوں کے خلاف نریندر مودی کا کریک ڈاؤن ملک کے آخری کچھ آزاد اداروں میں سے ایک یعنی الیکشن کمیشن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 

ماضی میں انڈیا کے انتہائی پیچیدہ اور کثیرالجہتی انتخابات کے منصفانہ انعقاد کے لیے مشہور اس ایجنسی کو اب ناقدین مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایتی تنظیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 

یہ تنزلی رجعت پالیسی اور عملے کی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوئی جو مودی کی حکومت برسوں سے کر رہی ہے۔ 

کمیشن کی آزادی پر قدغن لگانے کی آخری کوشش کو سپریم کورٹ نے گذشتہ سال مارچ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے اس عمل میں ردوبدل کیا جس کے ذریعے سربراہ سمیت اس کے تین کمشنروں کی تقرری کی جاتی ہے۔ 

روایتی طور پر ان اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری انڈیا کے صدر وزیر اعظم کی سفارش پر کرتے تھے لیکن عدالت نے وزیراعظم، قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس آف انڈیا پر مشتمل ایک سلیکشن پینل تشکیل دے دیا۔ 

یہ ایک عارضی اقدام تھا جب تک کہ پارلیمنٹ مستقل حل کے لیے قانون سازی نہ کرے۔ پارلیمنٹ نے اس فیصلے کی پیروی کی اور دسمبر 2023 میں ایک قانون نافذ کر دیا۔ 

لیکن نئے قانون نے الیکشن کمیشن کو مزید کمزور کرنے کا کام کیا۔ اس نے چیف جسٹس کو نکال کر وزیر اعظم کے ذریعے نامزد کردہ ایک وفاقی وزیر کو پینل کا حصہ بنا دیا جس سے مودی کی حکومت کو تقرریوں کے لیے مؤثر طریقے سے آزادی مل گئی۔ 

انتخابی نگرانی کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے بانی رکن پروفیسر جگدیپ ایس چھوکردی نے انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ ‘پہلے جب ان عہدے داروں کی تقرری کی جاتی تھی تو اس عمل میں آزادی کی جھلک نظر آتی تھی۔

’لیکن اس حکومت نے ایسے لوگوں کا تقرر کرنا شروع کر دیا جو واضح طور پر ان سے منسلک تھے یا ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔‘ 

نئی سلیکشن کمیٹی نے گذشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں سابق بیوروکریٹس گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو کو الیکشن کمشنر مقرر کیا تاکہ چیف کمشنر راجیو کمار کے ساتھ کورم پورا کیا جا سکے، جو 2022 سے اس عہدے پر ہیں۔ 

ان کی تقرری کو فوری طور پر چیلنج کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔

عدالت نے 2023 کے قانون کو روکنے سے بھی انکار کر دیا جس کے تحت نیا سلیکشن پینل تشکیل دیا گیا تھا۔ 

دو روز بعد یعی 16 مارچ کو الیکشن کمیشن نے قومی انتخابات کا اعلان کیا جہاں مودی غیر معمولی تیسری بار جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انتخابات 19 اپریل سے یکم جون تک سات مرحلوں میں ہوں گے اور ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہوگی۔ 

مودی کے ناقدین نے الزام لگایا کہ کمار اور سندھو دونوں حکمران بی جے پی کے ساتھ ہیں اور آنے والے انتخابات میں اس کی حمایت کریں گے۔ 

فرنٹ لائن میگزین کے مطابق دونوں عہدے داروں نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی حمایت کی ہے۔ 

گیانیش کمار نے جموں اور کشمیر کی تنظیم نو میں اہم کردار ادا کیا تھا جب 2019 میں مودی حکومت نے اسے تقسیم کرتے ہوئے انڈین یونین کے اندر شامل کیا اور اس متنازع خطے کی نیم خودمختار حیثیت چھین لی تھی۔

یہ ایک ایسا اقدام تھا جسے بڑے پیمانے پر بی جے پی کے ہندو قوم پرست نظریے سے کارفرما سمجھا جاتا ہے۔ سندھو کو لوک پال کے لیے چنا گیا تھا۔ ایک حکومتی ادارہ ہے جو بدعنوانی کے نگران کے طور پر کام کرتا تھا۔ 

اس تناظر میں چھوکر اس ضرورت پر زور دیتا ہے کہ الیکشن کمشنرز حکمران جماعت کی مداخلت کے بغیرصرف آئین کے سامنے جوابدہ ہوں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ انتخابات ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے جمہوریت چلتی ہے۔ جمہوریت کے قیام کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے۔ اور انتخابات کے منصفانہ ہونے کے لیے، انتخابات کے انعقاد کے ذمہ داروں کو اس وقت کی حکومت کی کسی بھی ممکنہ مداخلت یا اثر و رسوخ سے پاک ہونا چاہیے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ حکمران جماعت کو کمشنروں کے انتخاب کے لیے آزادی دینا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے خطرہ ہے۔ 

ان کے بقول اگر وزیر اعظم یا کسی سینئر وزیر پر  ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تو الیکشن کمیشن کو باضابطہ طور پر خلاف ورزی کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوگی۔

ایسا نہیں ہو سکتا اگر کمیشن حکمران جماعت کے حمایتی بن جائے۔ اشوک لواسا کی مثال سبق آموز ہے۔ اشوک جن کو اپریل 2021 تک چیف کمشنر بننا تھا، انہوں نے اگست 2020 میں اچانک استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے مودی پر 2019 کے عام انتخابات کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا، لیکن دیگر دو کمشنروں نے اسے مسترد کر دیا۔ 

اشوک نےانتخابی خلاف ورزیوں سے متعلق کمیشن کے فیصلوں پر اختلافی نوٹ ریکارڈ کرنے کے لیے کہا لیکن اسے دوبارہ مسترد کر دیا گیا۔ 

ان کے استعفے کے فوراً بعد ان کا موبائل نمبر پیگاسس سپائی ویئر کے ممکنہ اہداف کی لیک ہونے والی فہرست میں ظاہر ہوا اور ان کے خاندان کو تفتیشی ایجنسیوں نے نشانہ بنایا۔ 

دی اکنامک ٹائمز نے 2019 میں رپورٹ میں کہا تھا کہ سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز (سی بی ڈی ٹی) نے مبینہ انکم ٹیکس چوری پر اشوک خاندان کے افراد کے خلاف کارروائی شروع کی۔ ان کی اہلیہ اور بیٹے کو آئی ٹی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ 

سیاسی مبصرین کا الزام ہے کہ ان کے خلاف یہ انتقامی کارروائی تھی۔ 

الیکشن کمشنرز کی تقرری کے نئے قانون کو جب پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن قانون سازوں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ 

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسدالدین اویسی نے زور دیا کہ یہ قانون کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔ 

انہوں نے کہا: ‘اگر ووٹرز یہ محسوس کرنے لگیں کہ یہ غیر جانبدار اور نیوٹرل ادارہ نہیں ہے تو ہماری جمہوریت کی قانونی حیثیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔’ 

انہوں نے مزید کہا کہ قانون سازی کی جا رہی ہے تاکہ ایک ایسا الیکشن کمیشن بنایا جاءے جو وزیر اعظم مودی کے زیر سایہ کام کرے۔  

مجوزہ قانون کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے باہر سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ 

قانونی ماہر گوتم بھاٹیہ انڈیا ٹائمز میں لکھتے ہیں کہ ‘آئینی جمہوریتوں میں، انتخابی نگران اداروں کے ایک سیٹ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں چوتھی شاخ کے اداروں کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں الیکشن کمیشن، انفارمیشن کمیشن وغیرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان کا بنیادی کام مؤثر طریقے سے انفراسٹرکچر کی نگرانی کرنا اور اسے نافذ کرنا ہے جو شہری حقوق کو موثر بنانے کے لیے درکار ہے۔

’اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، یہ چوتھی شاخ کے اداروں کو مؤثر طریقے سے ایگزیکٹو سے آزاد ہونا چاہیے کیونکہ ان کے کرداروں میں سے ایک ایگزیکٹو کی حد سے زیادہ رسائی کو چیک کرنا ہے۔’ 

ادھیر رنجن چوہدری، جو اپوزیشن لیڈر کے طور پر پینل پر بیٹھے تھے، نے نئے کمشنروں کے انتخاب سے اختلاف کیا اور اختلافی نوٹ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں مارچ میں ہونے والے اجلاس سے قبل امیدواروں کے بارے میں تفصیلی معلومات یا ابتدائی شارٹ لسٹ نہیں ملی تھی۔ 

چوہدری نے بعد میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ‘میں نے اختلافی نوٹ دیا کیونکہ مجھے آدھی رات کو 212 نام دیے گئے تھے، لیکن میٹنگ میں، میں نے صرف چھ نام دیکھے۔میں ان لوگوں کے بارے میں کیسے جان سکتا ہوں؟’ 

'یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومت جسے چاہے چن سکتی ہے لیکن اس میں بھی کسی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔’ 

مودی نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے الیکشن کمیشن میں بہتری لائی ہے۔

انہوں نے کانگریس پر پارٹی کے قریبی لوگوں کو الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ‘اس سے پہلے وزیراعظم ایک فائل پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن بناتے تھے۔ اور جو ان خاندان کے قریب تھے وہ الیکشن کمشنر بن گئے۔ ہم نے الیکشن کمیشن میں بہتری لائی ہے۔ آج اگر الیکشن کمیشن بنتا ہے تو اپوزیشن بھی اس میں شامل ہے۔’ 

اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کے مطابق انڈیا 2020 کے ڈیموکریسی انڈیکس کی عالمی درجہ بندی میں 53ویں پوزیشن پر چلا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ حکام کی طرف سے جمہوری پسپائی اور شہری آزادیوں پر کریک ڈاؤن ملک کی درجہ بندی میں مزید گراوٹ کا باعث بنا ہے۔ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا