مودی سرکار کا بالی وڈ: بھئی پروپیگنڈا کریں مگر ڈھنگ سے

مودی جی اب ہم ناقص سکرپٹ، پاکستان انڈین لڑائیوں اور سازشوں کی فارمولا کہانیاں، بے تکے مکالمے اور تھکی ہوئی ایکٹنگ سے اکتا چکے ہیں۔ کچھ تو بہتر کریں۔ کچھ تو نیا کریں۔

نومبر 2014 کی اس تصویر میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی مشہور بالی وڈ اداکار سلمان خان کے ساتھ (اے ایف پی/ PIB)

ہالی وڈ کے معروف فلم ساز سٹیون سپیل برگ کی ’شنڈلرز لسٹ‘ ان کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ یہ فلم ہولوکاسٹ پر بنی عمدہ ترین فلموں میں سے ایک ہے۔

بلیک اینڈ وائٹ میں عکس بند کرنے سے پہلے سپیل برگ نے سکرپٹ کے ساتھ تقریباً 20 برس گزارے۔

انہوں نے رومن پولنسکی اور مارٹن سکورسیزی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہ فلم بنائیں۔

رومن پولنسکی نے ہولو کاسٹ میں اپنا خاندان کھویا تھا، بعد میں اسی موضوع پر انہوں نے ’دی پیانسٹ‘ بنا کر داد سمیٹی۔

عرب لیگ نے سپیل برگ کی فلموں کی بائیکاٹ مہم چلائے رکھی کہ وہ اسرائیل کی باقاعدہ مالی امداد کرتے ہیں۔

ایک جذباتی یہودی ہونے کے باوجود سپیل برگ کیوں 20 برس تک موضوع پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے رہے؟ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک موضوع کے ساتھ ان کی ’حد سے بڑھی ہوئی جذباتی وابستگی‘ تھی۔

انہیں خدشہ رہا کہ ایسا نہ ہو فلم کی جمالیاتی قدر صفر ہو اور خالی خولی پروپیگنڈا رہ جائے۔

خالی خولی پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے؟ تاریخی طور پر شمالی کوریا، روس اور نازی جرمنی کا سینیما اس کی مثالیں رہی ہیں۔

اس صف میں آج کل بالی وڈ سب سے نمایاں ہے۔ لوگوں کے نزدیک ہالی وڈ کا معاملہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔ لیکن ان کے ہاں کوئی کرافٹ، کوئی موضوع، کچھ جمالیات تو نظر آتی ہیں۔

وہ جو منٹو نے کہا تھا کہ گالی ذرا ڈھنگ سے دو تاکہ آپ کا منہ ٹیڑھا نہ ہو۔ یہ پروپیگنڈا دیکھ کر آپ سحر زدہ رہ جاتے ہیں کہ کون لوگ ہیں یہ۔

رومن پولنسکی کا پورا خاندان ہولوکاسٹ میں مارا گیا تھا۔ اسی کہانی کو بنیاد بنا کر انہوں نے ’دی پیانسٹ‘ بنائی، کیا شاندار فلم ہے۔

مارٹن سکورسیزی کی ہر فلم میں مسیحی تعلیمات کا ذکر ہوتا ہے مگر سکرپٹ میں ایسے پیوست اور برجستہ کہ بس۔

بالی وڈ شروع سے پروپیگنڈا فلمیں بناتا آیا لیکن مودی سرکار کے عہد میں تو یہ باؤلا ہی ہو گیا ہے۔ 1964 میں ریلیز ہونے والی چیتن آنند کی فلم ’حقیقت‘ ایک خالص پروپیگنڈا فلم ہے جسے انڈین وزارت دفاع نے فنڈ کیا۔ لیکن دیکھیے اس میں مدن موہن، کیفی اعظمی اور بلراج ساہنی جیسے لوگوں نے کام کیا۔

ستیہ جیت رے نے اس کے ’مناظر‘ اور ’موسیقی‘ کی بے حد تعریف کی تھی۔ یہ چین اور انڈیا کی جنگ کے تناظر میں ایک عمدہ وار فلم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منی رتنم کی فلمیں انڈین نیشنل ازم سے لتھڑی ہوتی ہیں۔ لیکن تبلیغی ٹائپ مکالموں کے باوجود کیمرے کا ایسا خوبصورت استعمال کہ آپ آواز بند کر کے پوری فلم دیکھ سکتے ہیں۔

اس طرح کی پروپیگنڈا فلم آرٹ نہ بھی بنے تو رعایت برتی جا سکتی ہے کہ کاروبار کی بنیاد نفرت نہیں محض نیشنل ازم ہے۔ لیکن مودی کا دور بالی وڈ میں پروپیگنڈے کی نئی مثال قائم کر رہا ہے۔

سرکاری ٹی وی دور درشن نے چند روز قبل فیصلہ کیا ہے کہ وہ ریاست کیرالہ میں ’دی کیرالہ سٹوری‘ نشر کرے گا۔

 گذشتہ برس ریلیز ہونے والی اس فلم میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 32 ہزار ہندو لڑکیاں مسلم جہادیوں نے ورغلا کر اپنے ساتھ شامل کر لی ہیں۔ یہ فلم دراصل تین خواتین کی کہانی پر مبنی ہے جو اسلام میں دلچسپی پیدا ہونے کے بعد اسے قبول کرتے ہوئے ہندو مذہب چھوڑ دیتی ہیں۔ کچھ عرصے بعد انہیں افغانستان میں اسلامی ریاست کے کیمپس میں بھیجا جاتا ہے۔

 ’لو جہاد‘ کے موضوع پر مبنی یہ فلم مسلم ہندو پس منظر میں انتہائی حساس ہے۔ اسی حساسیت کو اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ سینیما گھروں کے برعکس سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے سے یہ فلم کہیں زیادہ لوگوں تک پہنچے گی۔

یہ تو ایک پرانی فلم کو سرکاری ٹی وی پر نشر کرنے کا معاملہ تھا۔ انتخابات کے دوران چند نئی فلمیں بھی سینیما گھروں کی زینت بنیں گی جن کا مقصد مودی سرکار کے حق میں ناظرین کی ذہن سازی کرنا ہے۔

’سواتنتریہ ویر ساورکر‘، ’بستر: دا نکسل سٹوری، جہانگیر نیشنل یونیورسٹی اور دا سبرمتی رپورٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔

رندیپ ہڈا کی ہدایت کاری میں بننے والی بائیوپک فلم ’سواتنتریہ ویر ساورکر‘ جنگ آزادی کے جنگجو ساورکر کی زندگی پر مبنی ہے۔

 ’دی کیرالہ سٹوری‘ کی کامیابی کے بعد پروڈیوسر وپل امرت لال شاہ کی نئی فلم ’بستر: دا نکسل سٹوری‘ ریلیز کے لیے تیار ہے۔

فلم کا ٹریلر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فلم کا موضوع دیش کے اندر موجود دشمن کے ایجنٹ ہندو ریاست کی ترقی روکنا چاہتے ہیں۔

یہ فلم پاکستان دشمنی، ہندو نیشنل ازم اور مذہبی منافرت کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہو گی۔

انوراگ کیشپ نے ’بلیک فرائیڈے‘ بنائی تھی جس کا موضوع 1993 کے ممبئی حملے ہیں۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ فلم میں پروپیگنڈا نہ ہو مگر کیسی عمدہ فلم ہے۔ آپ کو دیکھ کر وقت برباد کرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک تجسس جو آخر تک آپ کو اٹھنے نہیں دیتا۔

مودی نے اپنی سیاست کا آغاز نفرت سے کیا تھا جو کامیاب رہی۔ وہ اسے چھوڑنے والے نہیں۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ ایک ایسا میڈیم جو لاکھوں لوگوں کو متاثر کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے وہ نوجوان نسل کو کس ڈگر پہ ہانک رہا ہے۔

وہ کسی بھی قیمت پر غالب سیاسی قوت رہنا چاہتے ہیں۔ ہندو مسلم نفرت ان کی طاقت ہے۔  پروپیگنڈا ہوتا رہے گا۔ فلم ساز ٹیکس سے چھوٹ حاصل کرنے کے لیے مودی سرکار کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے۔

مودی کو الیکشن ہارنے کا کوئی خوف نہیں۔ وہ آرام سے واضح برتری حاصل کریں گے۔ پھر بھی یہ حال ہے۔ میڈیا پر پابندیاں اور سینیما پروپیگنڈا مشین۔

بھئی پروپیگنڈا دنیا بھر کا سینیما کرتا ہے آپ بھی کریں مگر ذرا ڈھنگ سے۔ مودی جی اب ہم ناقص سکرپٹ، پاکستان انڈین لڑائیوں اور سازشوں کی فارمولا کہانیاں، بے تکے مکالمے اور تھکی ہوئی ایکٹنگ سے اکتا چکے ہیں۔ کچھ تو بہتر کریں۔ کچھ تو نیا کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ