آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف اپیل مسترد

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی توہین مذہب کے مقدمے میں بریت کے خلاف اپیل کی سماعت سپریم کورٹ نے میرٹ پر مسترد کر دیا ہے۔

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے۔ فائل فوٹو ۔اے پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی درخواست خارج کردی۔

سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل خارج  ہونے کے بعد اس کیس میں اب مزید قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست قانونی طور پر آخری فورم ہے۔ 

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے درخواست گزار قاری عبدالسلام کی جانب سے دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی، اس دوران وکیل غلام مصطفیٰ نے دلائل دیے۔

2018 اکتوبر میں سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے الزام سے بری قرار دیئے جانے کے بعد مذہبی  تنظیموں خصوصا تحریک لبیک کی جانب سے کئی روز تک احتجاج کا آغاز کر دیا گیا تھا۔  حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کو  عدالتی فیصلے کے بعد سے پاکستان میں کسی محفوظ مقام پر رکھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اکثر فوری طور پر مسترد کر دی جاتی ہیں لیکن اس مقدمے کے ساتھ جڑے خوف اور غصے کی وجہ سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ تاہم آسیہ کے وکیل سیف الملوک  کو بھی امید ہے کہ اپیل مسترد کر دی جائے گی۔

سیف الملوک کو اکتوبر میں عدالتی فیصلے کے بعد سکیورٹی کے مدنظر انہیں بیرون ملک منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا:  ”انہوں نے اپیل کمزور بنیادوں پر کی ہے ناکہ آئینی بنیاد پر۔فیصلہ آسیہ کے حق میں آئے گا اور وہ کہیں بھی جانے کی آذادی پا لیں گی۔”

وہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے دوبارہ اسلام آباد پہنچے ہیں اور سماعت میں شرکت کریں گے۔

نئے چیف جسٹس جسٹس  آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ اس اپیل کی سماعت کرے گا۔

حکومت نے تحریک لبیک کو احتجاج کے دوران یقین دلایا تھا کہ اپیل پر فیصلے تک آسیہ بی بی کو ملک سے جانے نہیں دیا جائے گا۔ توقع ہے کہ ان کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد آسیہ کو ملک چھوڑنا پڑے گا۔ انہیں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پہلے ہی  نومبر میں کہا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ اس بابت رابطے میں ہیں۔

آسیہ بی بی پر جو کھیتوں میں کام کرتی تھیں دیگر عورتوں کے ساتھ زبانی جھگڑے  کی بنیاد پر 2010 میں توہین مذہب کی مرتکب قرار  پائیں تھیں۔ وہ آٹھ برس تک اس فیصلے کے خلاف سماعت کے انتظار میں جیل میں رہیں۔

مذہبی جماعتوں کے کارکن ایسی سماعت میں اکثر عدالت کے احاطے میں موجود ہوتے ہیں۔ سول سوسائٹی تنظیموں نے اپنے کارکنوں کو بھی اس موقع پر وہاں بڑی تعداد میں موجود ہونے کی اپیل کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان