بین سٹوکس کی کرکٹ میراث کا فیصلہ کن سال

انجریز کے ایک سلسلے کے بعد بین سٹوکس ہیڈنگلے میں ایک بار پھر اپنی بہترین آل راؤنڈ فارم میں واپس آ گئے ہیں، لیکن کیا ان کی کپتانی کا اختتام قریب ہے؟

26 فروری، 2024 کو انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس رانچی کے سٹیڈیم میں انڈیا کے خلاف اپنے چوتھے ٹیسٹ کرکٹ میچ کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

انگلینڈ کے سابق سٹرینتھ اینڈ کنڈیشننگ کوچ فل سکاٹ نے بہترین الفاظ میں بات واضح کی۔

فل سکاٹ بین سٹوکس کے بارے میں کہتے ہیں ’میں جانتا ہوں کہ تم خود کو تکلیف پہنچانا چاہتے ہو۔‘

فل مزید کہتے ہیں ’وہ جس شدت سے ٹریننگ کرتے ہیں، وہ دیکھنے والوں کے لیے ذرا خوف ناک ہوتا ہے کیوں کہ لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ ’یہ بندہ خود کو زخمی نہ کر بیٹھے۔‘

’زیادہ تر لوگ خود کو اس قدر انتہائی حد تک نہیں لے جا سکتے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود کو انتہائی تکلیف دہ حد تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

سٹوکس ابھی اپنی اسی تکلیف دہ جگہ سے لوٹے۔ دوسری مرتبہ ہیمسٹرنگ کی بڑی انجری، جو پہلے ہی سے چلتے ہوئے گھٹنے کے دیرینہ مسائل کے بعد پیش آئی۔

اس کا مطلب ہے کہ برسوں تک ہم انہیں بہترین فارم میں نہیں دیکھ پائے۔ یا کم از کم بہترین فٹنس کے ساتھ نہیں۔

فل نے یہ الفاظ ایمازون پرائم کی سٹوکس پر بنی دستاویزی فلم ’بین سٹوکس: فینکس فرام دی ایشز‘ کی ریکارڈنگ کے دوران کہے۔

یہ فلم 2022 میں ریلیز ہوئی جس میں جو روٹ بھی کہتے ہیں ’جب صورت حال مشکل ہو تو آپ کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ خود آپ کے پاس آ جاتے ہیں۔

’میرے خیال میں ان کے لیے سب سے مشکل بات بھی شاید یہی ہے۔‘

یہ باتیں 2022 میں کی گئیں لیکن 2025 میں بھی اتنی ہی درست ہیں۔ ہیڈنگلے میں چھ ماہ کے وقفے کے بعد اپنے صرف دوسرے میچ میں انڈیا اور پھر آسٹریلیا کے خلاف 10 ایسے ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے دن جو ان کی میراث کا تعین کرنے والے ہیں، انہوں نے گیند اپنے ہاتھ میں لی اور پھر اسے چھوڑا نہیں۔

دسمبر میں ایک اور انجری کے بعد جب سٹوکس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے جسم کی حفاظت کے لیے بولنگ کا بوجھ کم کرنے پر غور کریں گے تو ان کا واضح جواب تھا ’میں کوئی احتیاط نہیں کروں گا۔‘ اور وہ اپنے وعدے پر پورا اترے۔

چھ اوور کے سپیل کے بعد سات اوور کا سپیل آیا۔ ایک ایسے دن جب صرف تین وکٹیں گریں اور بلے بازوں کا پلڑا بھاری رہا، سٹوکس نے ان میں سے دو وکٹیں حاصل کیں۔

اننگز کے اختتام تک وہ 20 اوورز میں چار وکٹیں لے چکے تھے۔ وہ انگلینڈ کے سب سے بہترین بولر تھے۔ پھر کسی اور کو آزمانے کی کیا ضرورت تھی؟

سٹوکس کی بولنگ فارم کی واپسی سے لوگوں کو وہ دور یاد آ گیا جب گیند ان کے ہاتھ میں ہوتے ہی وہ بہترین کارکردگی دکھاتے تھے۔

وہ ایک برس کا عرصہ جو 2019 سے 2020 تک جاری رہا۔ اس دوران عروج کا لمحہ شاید کیپ ٹاؤن میں تماشائیوں کے بھرپور شور کے درمیان میچ جتانے والے وہ سپیل تھا، جب پانچویں دن کے آخری لمحات میں ان کی تین وکٹوں نے اکیلے ہی انگلینڈ کو جیت دلائی، حالاں کہ میچ ڈرا ہوتا نظر آ رہا تھا۔

سٹوکس کے تین اوورز میں تین وکٹیں۔ متعدد انگلش کھلاڑیوں کے نزدیک یہ فتح ان کے کریئر کی سب سے پسندیدہ جیتوں میں سے ایک ہے، جن میں خود سٹوکس بھی شامل ہیں۔

انڈیا کے خلاف اس میچ سے قبل سٹوکس نے کہا ’یہ زبردست بات ہے کہ آپ واپس جا کر ایسی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں جن میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ بہترین ردھم میں تھے۔

’میں نے کیپ ٹاؤن کے میچ کو اپنے لیے بصری حوالے کے طور پر استعمال کیا تاکہ دیکھ سکوں کہ میں اس وقت کیا کر رہا تھا کیوں کہ اس وقت میری بولنگ میں بہت مزا آ رہا تھا۔‘

سابق انگلش بولر اور ڈرہم میں سٹوکس کے ساتھی رہنے والے سٹیو ہارمیسن نے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بین لمحوں میں جیتا ہے۔ یہ ٹیم دراصل بین کی ہی نمائندگی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کھیلتے ہوئے دیکھنے میں اتنا لطف آتا ہے۔‘

46 برس کے ہارمیسن سٹوکس کو ڈرہم کی اکیڈمی کے زمانے سے جانتے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار ایک غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے 14 سالہ لڑکے کے بارے میں سنا تھا جو تیزی سے آگے آ رہا تھا۔

پھر وہ اس وقت بھی میدان میں موجود تھے جب سٹوکس نے 17 برس کی عمر میں سرے کے خلاف ڈیبیو کیا۔

ہارمیسن یاد کرتے ہیں ’وہ ایک طوفانی آمد تھی۔ انہوں نے فرسٹ ٹیم کرکٹ میں اپنی ابتدائی گیندوں میں سے ایک پر مارک رام پرکاش کو کلین بولڈ کر دیا۔‘

سٹوکس کے انگلینڈ کی شرٹ میں سب سے شاندار لمحات زیادہ تر بلے کے ساتھ ہی آئے۔ ہیڈنگلے 2019۔ 2019 کا ورلڈ کپ فائنل۔ 2022 کا ورلڈ کپ فائنل۔

اس کے برعکس ان کے کیریئر کا سب سے مایوس کن لمحہ، کارلوس بریتھ ویٹ کا نام یاد کریں، گیند کے ساتھ پیش آیا۔

2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل اوور میں جب 19 رنز بچانے تھے تو سٹوکس مسلسل چار چھکے کھا بیٹھے۔ لیکن اب تک گیند کے ساتھ ان کی حالیہ کارکردگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سٹوکس کی کہانی میں ابھی ایک اور باب لکھا جانا باقی ہے۔

صحت مند سٹوکس کا مطلب انگلینڈ کی متوازن ٹیم ہے۔ نمبر چھ یا سات پر بیٹنگ اور مکمل اوورز کرنے والے سٹوکس کی موجودگی انگلینڈ کو تین اضافی سپیشلسٹ فاسٹ بولر اور ایک سپنر کھلانے کی اجازت دیتی ہے. 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی وجہ ہے کہ انگلش شائقین ہر گیند کو دانت بھینچ کر دیکھتے ہیں۔ پلیز بین، کہیں دوبارہ زخمی نہ ہو جانا۔

جہاں شائقین ان دو اہم سیریز کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ سٹوکس کم بولنگ کریں، وہیں سٹوکس کی اپنی سوچ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اسے اپنی ضرورت سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ اور زیادہ بولنگ کریں۔

ہارمیسن سمجھتے ہیں کہ ہمیں سٹوکس کی اس سوچ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

ہارمیسن کہتے ہیں ’میں نے انہیں ٹرینٹ برج پر زمبابوے کے خلاف دیکھا اور گذشتہ کئی برسوں میں یہ اس وقت مجھے سب سے زیادہ فٹ لگا۔

’میں سمجھتا ہوں کہ بین نے اپنی ہیمسٹرنگ کی دو انجریز سے سبق سیکھ لیا۔ عمر کے ساتھ ایسی انجریز دوبارہ ہونے لگتی ہیں اور جسم خود ہی خبردار کرنے لگتا ہے۔‘

’اس لیے ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ان کا جسم ساتھ دے گا یا نہیں۔ بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں وہ آل راؤنڈر واپس مل گئے جو پانچ سال پہلے ہمارے پاس تھا۔

’انڈیا اور آسٹریلیا کو ہرانے کے لیے ہمیں اسی آل راؤنڈر کی ضرورت ہے تو اگر وہ 20 اوورز کرانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پر بھروسہ کرنا ہو گا کیوں کہ انہیں خود بھی پتا ہے کہ ان کے جسم نے کب انہیں خبردار کرنا ہے۔‘

یہ دو سیریز سٹوکس کو انفرادی طور پر بیان نہیں کریں گی۔ انگلش کرکٹ میں ان کی عظمت پہلے ہی مضبوط ہو چکی ہے۔

لیکن یہ اس انگلش ٹیم کی شناخت ضرور طے کریں گی جو دراصل اسی کی عکاسی کرتی ہے اور جب دوسروں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو سٹوکس پہلے سے بھی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔

ہارمیسن مزید کہتے ہیں کہ ’جب بھی میں بین کے بارے میں بات کرتا ہوں، مجھے بے انتہا فخر محسوس ہوتا ہے۔

’میں نے اس لڑکے کو مرد بنتے ہوئے دیکھا اور اس شخص کو زندگی کے انتہائی مشکل راستوں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ مجھے ان پر بطور انسان اور انگلینڈ کے کپتان بے حد فخر ہے۔'

’وہ پیدائشی فاتح ہیں۔ ان کی پرورش بھی فاتحین کے ماحول میں ہوئی۔ ان کے والد غیر معمولی انسان تھے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بین میں یہ خصوصیات کہاں سے آئیں۔‘

ایک ایسے انسان کے لیے جو لمحہ بہ لمحہ جیتا ہے، اس سے بڑا لمحہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایشز میں اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے آسٹریلیا جائے۔

یہ ’جارحانہ بولنگ‘ تجربے کا فطری اختتام ہو گا، چاہے برینڈن میک کلم کا معاہدہ 2027 تک ہے اور سٹوکس نے خود بھی ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے لگے کہ وہ رکنا چاہتے ہیں۔

لیکن پھر بھی یہ احساس موجود ہے کہ اگر سٹوکس جنوری میں سڈنی میں ایشز کی ٹرافی سر پر اٹھا لیں تو پھر کون سی منزل رہ جائے گی جسے وہ سر کرنا چاہیں گے؟

ہارمیسن انگلینڈ کے اس عظیم ترین کرکٹر کے مستقبل کے بارے میں کہتے ہیں ’مجھے نہیں لگتا کہ بین کو خود بھی معلوم ہے۔ اور یہ بات مجھے بے حد پرجوش کرتی ہے۔‘

’اسی طرح اگر انگلینڈ آسٹریلیا جا کر ہار بھی جائے تو بھی یہ بین سٹوکس کا اختتام نہیں ہونا چاہیے۔ شین وارن نے ایک بار کہا تھا کہ اگر 2005 میں آسٹریلیا انگلینڈ سے نہ ہارتا اور انگلینڈ کی خوشیاں نہ دیکھتا تو شاید وہ اسی وقت ریٹائر ہو جاتے۔

اس شکست اور جشن کو دیکھ کر اس میں مزید کھیلنے اور ایک ایسی ٹیم بنانے کا جذبہ پیدا ہوا جو اگلی بار انگلینڈ کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ بین میں بھی ایسا ہی جذبہ موجود ہے۔‘

اب عمومی طور پر یہی رائے ہے کہ 34 سالہ سٹوکس  پہلے سے زیادہ فٹ اور ذمہ دار ہو چکے ہیں۔ اپنی حالیہ انجری سے بہتر انداز میں صحت یاب ہونے کے لیے انہوں نے شراب بھی چھوڑ دی اور اب خود تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات میں اعتدال کی ضرورت کو سمجھنے لگے۔

اس وقفے نے انہیں اپنی ’پرانی والی‘ بولنگ ایکشن دوبارہ حاصل کرنے کا موقع دیا۔ وہی کیپ ٹاؤن والی بولنگ، جب سٹوکس اپنے عروج پر تھے لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی 34 برس کے ہیں۔

یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایٹلس کو ہمیشہ کے لیے دنیا اپنے کاندھوں پر اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔

انگلینڈ کی حقیقی دنیا میں سٹوکس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے خواہ یہ ذمہ داری صرف ایک برس ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ