انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے احاطہ کیا گیا ہے۔
دنیا میں ٹیکنالوجی کے تیز رفتار سفر کا رخ مریخ، مصنوعی ذہانت اور سائبورگ کی جانب ہے اور کئی ترقی یافتہ ممالک اس حوالے سے بڑی چھلانگیں لگا رہے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان حوالوں سے کسی تحقیق یا پیش رفت کی توقع رکھنا درست نہیں لیکن یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کوئی ترقی نہیں کی۔ ہم یہاں ٹیکنالوجی پر مشتمل ان شعبوں کا ذکر کر رہے ہیں، جن میں پاکستان نے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔
1. تھری اور فور جی سروسز
پاکستان میں موبائل نیٹ ورک 1990 کی دہائی کے اواخر میں عام ہونا شروع ہوا اور 2000 کی دہائی میں اس کے صارفین میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ اُس زمانے میں انٹرنیٹ کے لیے ایج اور ٹو جی انٹرنیٹ سروس استعمال ہو رہی تھی، جو سست روی اور مہنگا ہونے کی وجہ سے عام شہری کے دسترس سے باہر تھی۔
2014 میں تھری اور فور جی لائسنس کی نیلامی کے بعد ملک میں حقیقی طور پر موبائل انٹرنیٹ کا انقلاب برپا ہوااور وجہ تھی ان نیٹ ورکس کا تیز رفتار اور سستا ہونا۔
سمارٹ فونز پر انٹرنیٹ کے ذریعے شہروں کے علاوہ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں نہ صرف رابطے آسان ہو گئے بلکہ ان نیٹ ورکس کی بدولت ملک میں معاشی سرگرمیاں اور روزگار کے مواقع بھی بڑھے۔
پی ٹی آئی کے اکتوبر،2019 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت ملک میں تھری اور فور جی کے سات کروڑ 30 لاکھ صارفین ہیں اور تقریباً 22 کروڑ آبادی کا 34.72 فیصد حصہ اس سہولت سے استفادہ کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ براڈ بینڈ انٹرنیٹ کے ملک میں سات کروڑ 50 لاکھ صارفین ہیں جو آبادی کا 35.69 فیصد بنتا ہے۔
یوں ہم با آسانی کہہ سکتے ہیں پچھلی ایک دہائی میں پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروس سب سے بڑا ٹیکنالوجی کا انقلاب تھا۔
2. سمارٹ ڈیوائسز
پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ عام ہونے میں سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
2000 کی دہائی میں سمارٹ فونز عام ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن 2007 میں ایپل کے مشہور زمانہ آئی فون (ٹو جی/ایج)متعارف ہونے کے بعد اس شعبے نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
دنیا کی دو بڑی سمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں ایپل اور سام سنگ کے درمیان مقابلے کا فائدہ پاکستانی عوام کو بھی ہوا اور مقامی موبائل مارکیٹ ایپل، سام سنگ، ایل جی، ایچ ٹی سی کے سمارٹ فونز سے بھر گئے۔
تاہم یہ سمارٹ فون مہنگے ہونے کی وجہ سےغریب طبقے کی دسترس سے باہر تھے۔
صورتحال میں تبدیلی اُس وقت آئی جب ملک میں ہواوے اور اوپو سمیت چینی کمپنیوں کے تھری اور فور جی صلاحتیوں والے سستے سمارٹ فونز آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئے۔
ملک میں ٹیکنالوجی انقلاب کے لیے تھری اور فور جی صلاحیتوں والے سمارٹ فونز کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق، اکتوبر، 2019 تک ملک میں 16 کروڑ 30 لاکھ سیلولر صارفین ہیں جو آبادی کا 77.24 فیصد ہے۔
3. ای کامرس
یوں تو پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا آغاز 2000 کی دہائی میں ہوا تھا لیکن اس میں زبردست ترقی پچھلی دہائی کے دوران موبائل انٹریٹ اور براڈ بینڈ کے عام ہونے پر نظر آئی۔
پچھلے دس سالوں کے دوران ملک میں ٹیکنالوجی کی اہم پیش رفت میں آن لائن کاروبار کا فروغ بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں وہ کاروبار بھی ہیں جو اب تک روایتی طور پر (دکان، شو روم اور آؤٹ لیٹس کی صورت میں) چل رہے تھے اور پچھلے دس سالوں میں آن لائن بھی منتقل ہوئے اور اس میں وہ کاروبار بھی ہیں جو صرف آن لائن ہیں اور ان کی کوئی دکان یا شوروم وغیرہ نہیں۔
روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018 میں 40.1 ارب روپے کی ای کامرس سیلز ہوئی، تاہم اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سیلز توقعات سے کہیں کم ہے اور ابھی ملک میں ای کامرس کی ترقی کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔
اقتصادی ماہرین ویب سائٹس کا انگریزی زبان میں ہونا اور ادائیگیوں کے طریقوں میں شفافیت اور عدم اعتماد کو ملک میں ای کامرس کی ترقی میں رکاوٹ کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
اس وقت ملک میں تقریباً تمام بڑے ریٹیل کاروبار آن لائن موجود ہیں اور بڑے ناموں میں دراز، گوٹو، میگا۔ پی کے، ہوم شاپنگ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پاک ویلز، زمین اور او ایل ایکس وغیرہ عام لوگوں کو خرید و فروخت کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے میں سر فہرست ہیں۔
4. آن لائن رائیڈنگ سروسز
ملک کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی انتہائی مخدوش صورتحال سے پریشان عوام کے لیے آن لائن رائیڈنگ سروس تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔
آج سے تین چار سال پہلے تک کراچی کی سڑکوں پر بسوں کے پائیدانوں پر لٹکے مسافر اور لاہور کی ویگنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھنسے مسافر عام بات تھی، لیکن 2015 کے آخر میں کریم اور 2016 میں اوبر ایپس کی آمد کے بعد صورت حال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور بڑے شہروں کے لوگوں کو اپنے سمارٹ فونز پر ایک ٹچ کی صورت میں آمد و رفت کے آرام دہ ذرائع ملنا شروع ہو گئے۔
رفتہ رفتہ آن لائن رائیڈنگ سروسز میں بائیکیا، سویول اور ایئر لفٹ کی صورت میں نئے کھلاڑیوں کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد اب کراچی کی سڑکوں پر دلہن کی طرح سجی اور تاریخی W-11 منی بسیں خال ہی نظر آتی ہیں۔
ملک میں ٹرانسپورٹ کے طریقوں میں یہ بڑی تبدیلی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی ممکن ہو پائی ہے اور ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
5. آن لائن سروسز
اگر آپ کے گھر میں پانی کی پائپ لائن خراب ہے، یا بجلی یا برقی آلات کا مسئلہ ہے تو آج کل کئی آن لائن سروسز موجود ہیں جن کی ایپس پر جا کر آپ ان کی خدمات گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔
کیا آج سے دس سال پہلے یہ سوچنا ممکن تھا؟ نہیں۔ اور یہ سب کچھ بھی ملک میں ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا ہے۔
پاکستان میں ای پیمنٹس کا سلسلہ 2000 کی دہائی سے جاری ہے۔ تاہم، اس میں ترقی اور بہتری 2010 کی موجودہ دہائی میں آئی جب کئی پلیئرز مثلاً ایزی پیسہ، جاز کیش، یو پیسہ وغیرہ نے ای پیمنٹس کی بہتر سہولیات متعارف کرائیں۔
اس کے علاوہ بینکوں نے بھی آن لائن سروسز میں نمایاں بہتری لاتے ہوئے اپیس بھی بنائیں۔
ای پیمنٹس کی مددسے یوٹیلیٹی بلز، ریلوے اور ہوائی سفر کی ٹکٹس، چالان، کاروبار کے لیے پیسے منتقل کرنا یا آن لائن شاپنگ کرنا انتہائی آسان اور محفوظ ہو چکا ہے۔
ان سروسز کا سب سے بڑا فائدہ بینک اکاؤنٹس نہ رکھنے والےغریب طبقے کو ہوا جو دور دراز علاقوں میں اہل خانہ کو بروقت پیسے بھیج سکتے ہیں۔
ان سروسز کے مقبول ہونے کے بعد اب پوسٹ آفس کا منی آرڈر سلسلہ بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
7. سٹریمنگ سروسز
ایک زمانہ تھا جب پورا خاندان ایک سرکاری ٹی وی چینل کی نشریات سے محظوظ ہوتا تھا، پھر ڈش اور کیبل کا زمانہ آیا اور اب لوگ آن لائن سٹریمنگ سروسز مثلاً یو ٹیوب، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم اور آئی فلکس وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان کے پاس موجود سمارٹ ڈیوائسز اور سستا انٹرنیٹ انہیں تفریح کے روایتی طریقوں مثلاً ٹی وی سے دور لے گیا ہے۔
اس کے علاوہ اسی عشرے کے دوران سٹریمنگ سروسز کی وجہ سے امریکہ اور دوسرے ملکوں کے ڈراما سیریئل پاکستان میں مقبول ہونا شروع ہوئے۔ یہاں کے لوگوں نے بھی ’گیم آف تھرونز،‘ ’ہاؤس آف کارڈز،‘ بگ بینگ تھیوری،‘ ’منی ہائیسٹ،‘ ’پرزن بریک،‘ ’ویسٹ ورلڈ‘ جیسے مشہور ڈرامے اب پاکستان میں بھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔
اس سروسز کی وجہ سے یہ سہولت ہو گئی ہے کہ اب نوجوان کہیں بھی کسی بھی وقت اپنی مرضی کے مطابق فلمیں، ڈرامے، کھیلوں اور خبروں تک با آسانی رسائی رکھتے ہیں۔
8. سوشل میڈیا
فیس بک اور ٹوئٹر 2000 کی دہائی میں لانچ ہونے کے وقت سے دنیا بھر میں مقبول ہیں لیکن پاکستان میں موجودہ دہائی کے دوران ان دونوں پلیٹ فارمز کا منظم استعمال شروع ہوا۔
پاکستان میں انتخابات کا موقع ہو، یا کسی کے ساتھ نا انصافی یا جرم کا ارتکاب، سماجی یا سوشل مسائل ہوں، ٹوئٹر اور فیس بک کو انتہائی موثر انداز میں استعمال کرکے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں۔
تاہم اس کا دوسرا رخ بھی ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر منفی سرگرمیوں اور پروپیگنڈا کی وجہ سے کئی مسائل نے بھی جنم لیا۔
ان پلیٹ فارمز کا صحیح یا غلط استعمال کا دارومدار ایک صارف پر ہوتا ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ پلیٹ فارمز اس دہائی کے سب سے طاقت ور ٹول کے طور پر دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
9. جرائم کے خلاف جنگ
ترقی یافتہ ملکوں میں ہر دور میں دستیاب ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم کی روک تھام اور ان کا خاتمہ کئی صدیوں سے جاری ہے۔
پاکستان میں بھی ماضی کے برعکس رواں دہائی کے دوران جرائم کے خلاف لڑائی میں ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں سیف سٹی منصوبے شروع ہوئے، یعنی ایسے کیمرے جو تمام شہر پر نظر رکھتے ہیں، اور لوگوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے بعد مجرموں کی نشاندہی میں مدد ملنے لگی۔
اس کے علاوہ کوئی جرم سرزد ہونے کے بعد پاکستان میں پولیس اور سکیورٹی اداروں نے موبائل ڈیٹا، جیو فینسنگ اور ڈے این اے ٹیکنالوجی کی مدد سے بیشتر کیس کامیابی سے حل کیے۔
قصور میں جنوری 2018 میں ایک چھ سالہ بچی زینب کا ریپ اور قتل کیس سی سی ٹی وی کیمروں اور ڈی این اے پروفائلنگ کی مدد سے حل کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اسی سال مردان میں ایک اور بچی اسما کا قاتل بھی ڈی این اے پروفائلنگ کی مدد سے پکڑا گیا۔
10. بائیو میٹرک سسٹم
پاکستان میں سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بھی ٹیکنالوجی کی مدد لی گئی۔ اس حوالے سے 2013 میں خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بائیو میٹرک سسٹم کی مدد سے تعلیمی اداروں اور دوسرے سرکاری محکوں میں حاضریوں کا نیا نظام متعارف کرایا، جس سے سرکاری ملازمین کی حاضری میں بے پناہ بہتری دیکھنے میں آئی۔
اسی طرح اس ٹیکنالوجی کو دوسرے شعبوں میں بھی سیکورٹی کے لیے متعارف کرایا گیا۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ترقی کمرشل مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ تھری اور فور جی سروسز ہوں، یا آن لائن شاپنگ، رائیڈنگ یا پھر دیگر سہولیات، ان سب میں بہتری براہ راست معاشی مفادات سے جڑی ہے۔
ملک میں عوامی خدمت پر مبنی شعبے جیسے صحت، تعلیم وغیرہ میں ٹیکنالوجی کی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی، جو افسوس ناک ہے۔
مثلاً پچھلی ایک دہائی میں صحت کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کینسر کے مریضوں کے لیے واحد سائبر نائف روبوٹ ہے جو کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں نصب ہے۔
اسی طرح رواں دہائی میں ریسرچ کے شعبے میں بھی کوئی قابل ذکر ترقی دیکھنے کو نہیں ملی۔ سپارکو دسمبر، 2018 میں چین کے لانچنگ پیڈ سے ایک سیٹلائٹ لانچ کیا تھا۔ سپارکو کے مطابق سیٹلائٹ کے تمام آلات پاکستانی انجینیئروں اور سائنس دانوں نے بنائے تھے، جو قابل تعریف ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان حکومت نے گورننس بہتر بنانے اور عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کر نے کے لیے سیٹیزن پورٹل اور جیسے اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ سفر کا آغاز ہے اور دیکھنا ہے کہ 2020 میں پاکستان میں براہ راست عوامی مفادات سے جڑی ٹیکنالوجی میں کتنی پیش رفت ہوتی ہے۔