پچھلے دس سال کی دس بہترین فلمیں

رواں صدی کا آغاز پاکستانی سینیما کے لیے اچھا نہیں رہا اور اس کی پہلی دہائی میں صرف چند ہی قابلِ ذکر فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

رواں عشرے پاکستان میں کئی کامیاب فلمیں بنیں۔ 

(انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسرے حصے پڑھنے کے لیے نیچے ’مزید پڑھیے‘ پر کلک کیجیے)


رواں صدی کا آغاز پاکستانی سینیما کے لیے اچھا نہیں رہا اور اس کی پہلی دہائی میں صرف چند ہی قابلِ ذکر فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

تاہم اس صدی کی دوسری دہائی کے آغاز ہی میں شعیب منصور کی ’بول‘ نے فلم بینوں کو ایک بار پھر سینیما کی جانب کھینچا جس کے بعد ’میں ہوں شاہد آفریدی،‘ ’چنبیلی‘ اور ’وار‘ نے کسی حد تک بہتر بزنس کیا۔

اگر دیکھا جائے تو رواں دہائی کی پہلی کامیاب کمرشل فلم ’نامعلوم افراد‘ تھی، جس نے تفریح کی غرض سے سینیما کا رُخ کرنے والوں کو اپنی جانب مائل کیا۔

زیرِ نظر رواں صدی کی دوسری دہائی کی 10 ایسی فلمیں جنہیں ناقدین نے سراہا، ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ جیتے اور اپنی کہانی اور بناوٹ (پروڈکشن ویلیو) کے اعتبار سے بھی عوام میں پذیرائی حاصل کی۔

10۔ ’ماہِ میر‘

مئی 2016 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ایک نوجوان جمال (فہد مصطفیٰ) کی کہانی ہے جو موجودہ دور میں میر تقی میرؔ کی وحشت کو سمجھنے کی کوشش میں خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ عشق، جدائی اور روایت سے بغاوت کی کہانی ہے۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں فہد مصطفیٰ، ایمان علی، منظر صہبائی اور صنم سعید شامل ہیں۔

پاکستان نے اسے بہترین غیر ملکی فلم کے شعبے میں آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا تھا۔ ہم فلمز کی اس فلم کے پیش کار بدر اکرام تھے جبکہ اس کی ہدایت کار انجم شہزاد تھے۔

’ماہِ میر‘ کو بھارت میں دادا صاحب فلم فیسٹیول میں بھی بہترین فلم اور بہترین موسیقی کے دو ایوارڈ ملے جبکہ اسے گوام فلم فیسٹیول میں بھی بہترین کہانی سنانے کا ایوارڈ ملا تھا۔

9۔’ نامعلوم افراد‘

پاکستانی سینیما کی کامیاب ترین جوڑی ہدایت کار نبیل قریشی اور پروڈیوسر فصہ علی میرزا کی یہ پہلی فلم تھی اور اسے یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے پاکستانی عوام کو سینیما کی جانب واپس کھینچا۔

فلم کی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ یہ نو ماہ سے زیادہ عرصے تک سینیما کی زینت بنی رہی جبکہ اس دوران آنے والی بالی وڈ کے شاہ رُخ خان کی فلم بھی اتر گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فہد مصطفیٰ، جاوید شیخ، محسن عباس حیدر، عروہ حسین، کبریٰ خان اور مہوش حیات کی اس فلم نے پاکستانی سینیما کے ازسرِ و احیا میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص کر اس میں موجود مہوش حیات کا آئٹم نمبر ’بلی‘ تو لوگوں کو بار بار سینیما کھینچ لایا۔

یہ فلم اکتوبر 2014 میں عید الاضحیٰ پر نمائش کے لیے پیش کی گئی اور یہ وہ وقت تھا کہ پاکستان میں ابھی سینیما سکرینز کی تعداد 100 سے بھی کم تھی اس لیے باکس آفس پر یہ صرف 14 کروڑ روپے کا ہندسہ ہی پار کر سکی مگر آنے والی فلموں کے لیے راہ ہموار کر گئی۔

8۔ ’ڈونکی کنگ‘

اس اینیمیٹڈ فلم میں جنگل کا بادشاہ شیر ایک گدھے سے انتخاب ہار جاتا ہے اور یوں لومڑی کی چالاکی سے جنگل کا عنان حکومت گدھے کو مل جاتا ہے۔

کسی اینیمیٹڈ فلم کا اس فہرست میں جگہ بنانا کوئی معمولی بات نہیں۔ اکتوبر 2018 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم کئی تنازعات کا سبب بنی۔ ریلیز سے پہلے اس کے خلاف پٹیشن فائل کی گئی کہ اس میں راجا برادری کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے خارج کر دیا۔ حزبِ اختلاف کے کچھ اراکین نے ڈونکی راجا کے گانے کو وزیرِ اعظم عمران خان پر فِٹ کیا جس کے بعد فلم میکرز نے وفاقی وزرا کو ریلیز سے پہلے یہ فلم دکھا کر یقین دلایا کہ اس میں عمران خان پر تنقید نہیں کی گئی۔

یہ فلم بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول رہی اور اس کی موسیقی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ صرف پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے تیار یہ فلم 27 کروڑ روپے کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئی۔

7۔ ’بول‘

شعیب منصور کی یہ فلم جون 2011 کو ریلیز کی گئی، جس کے مرکزی اداکاروں میں ماہرہ خان، عاطف اسلم، حمائمہ ملک اور ایمان علی شامل ہیں۔

فلم کی کہانی زینب (حمائمہ ملک) کی ہے جسے اپنے باپ کے قتل کے الزام میں پھانسی ہو جاتی ہے۔ فلم کی کہانی کی کئی تہیں ہیں جن میں ٹرانس جینڈر، بیٹے کی خواہش میں مسلسل اولاد پیدا کرنا، غربت سمیت دیگر کئی عوامل ہیں۔

فلم کو پاکستان میں چار لکس سٹائل ایوارڈ ملے جبکہ لندن ایشین فلم فیسٹیول میں تین اور سارک فلم فیسٹیول میں ایک ایوارڈ مِلا۔ مجموعی طور پر ناقدین اور عوام نے فلم کو سراہا اور اس نے 16 کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کیا۔

6۔ ’مور‘

اگست 2015 میں یومِ آزادی کے موقعے پر ریلیز ہونے والی ’مور‘ (یعنی پشتو میں ماں) بلوچستان میں ریلوے کے ایک ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر واحد اللہ (حمید شیخ) کی کہانی ہے جو غربت اور کسمپرسی کی زندگی جی رہا ہے اور اُس کا بیٹا کراچی جا کر جعلی ڈگریوں کا کام کرتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا کہ علاقے کے طاقت ور افراد سیاسی دباؤ کے ذریعے بلوچستان کے کئی علاقوں میں ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کر کے بیچ رہے ہیں اور ریل کی پٹری اور دیگر سامان چرا رہے ہیں۔

یہ فلم نام ور ہدایت کار جامی نے لکھی اور اسے خود ہی ندیم مانڈوی والا کے اشتراک سے پیش کیا۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں حمید شیخ، سمیعہ ممتاز، نیّر اعجاز اور سونیا حسین شامل ہیں۔

فلم کو ناقدین نے بہت سراہا یہاں تک کہ اسے پاکستان میں بہترین فلم اور بہترین ہدایت کار کے دو لکس سٹائل ایوارڈ بھی ملے۔ یہ پاکستان کی جانب سے آسکر کی نامزدگی کے لیے بھی بھیجی گئی تھی۔

5۔ ’طیفا ان ٹربل‘

بنیادی طور پر یہ فلم ایکشن کامیڈی تھی جس کی زیادہ تر عکس بندی پولینڈ میں ہوئی۔ یہ علی ظفر کی پاکستان میں پہلی فلم ہے جس میں ان کے ساتھ مایا علی بطور ہیروئن نظر آئیں۔ یہ مایا علی کی بھی پہلی فلم ہی تھی۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ عید یا کسی اور بڑے موقعے پر ریلیز نہ ہونے کے باوجود نہ صرف انتہائی کامیاب رہی بلکہ ملکی و عالمی سطح پر کُل ملا کر 50 کروڑ روپے کا ہندسہ بھی باکس آفس پر عبور کیا۔

فلم کو علی ظفر نے خود پروڈیوس کیا تھا جبکہ اس کی ہدایت کار احسن رحیم تھے۔ ایکشن کامیڈی اور رومان سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی موسیقی بھی کافی پسند کی گئی، خاص کر اس کا گانا ’میں آئٹم نمبر نہیں کروں گی‘ بہت ہی مقبول ہوا۔

4۔ ’لال کبوتر‘

مارچ 2019 میں ریلیز ہونے والی منشا پاشا اور احمد علی اکبر کی یہ ایکشن کرائم تھرلر فلم کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی اور پاکستان کی جانب سے آسکر کی نامزدگی کے لیے بھی منتخب کی گئی۔

لال کبوتر کی کہانی انتقام پر مبنی ہے جب عالیہ (منشا پاشا) کا شوہر کراچی میں سڑک پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے بعد وہ اس کے قاتلوں کو ایک ٹیکسی ڈرائیور (احمد علی اکبر) کی مدد سے ڈھونڈنے نکل پڑتی ہے۔

فلم کے مرکزی کرداروں میں سلیم معراج اور کاشف فاروقی بھی شامل ہیں۔ ’لال کبوتر‘ کا سکرین پلے علی عباس نقوی نے لکھا جبکہ اس کی ہدایت کمال خان نے دی اور اسے کامل چیمہ اور ہانیہ چیمہ نے نہار گھر فلمز کے بینر تلے پیش کیا۔

’لال کبوتر‘ نے اب تک امریکہ اور کینیڈا میں ہونے والے جنوبی ایشا فلم فیسٹیول میں متعدد ایوارڈ اپنے نام کیے ہیں۔

3۔ ’کیک‘

یہ فلم ہدایت کار عاصم عباسی کی پہلی فلم تھی اور انہوں نے اسے خود ہی تحریر بھی کیا۔ اگرچہ باکس آفس پر فلم نے 12 کروڑ روپے سے کچھ ہی اوپر کا بزنس کیا تھا لیکن اسے غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔

محبت، گزرتے وقت کا احساس زیاں، یہ فلم بہت کچھ احساس دلاتی ہے۔ یہ مارچ 2018 میں پاکستان میں جاری انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے موقعے پر ریلیز کی گئی۔

اس کے مرکزی کرداروں میں آمنہ شیخ، صنم سعید، عدنان ملک اور بیو ظفر شامل ہیں۔ یہ فلم پاکستان کی جانب سے آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے بھی منتخب کی گئی تھی جبکہ اسے بہترین فلم کا لکس سٹائل ایوارڈ بھی ملا۔ 

2۔ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘

ستمبر 2016 میں عید الاضحیٰ کے موقعے پر ریلیز ہونے والی یہ فلم ایک رومانوی کہانی ہے جس میں مزاح کا تڑکا بھی حد درجے موجود ہے۔

مہوش حیات اور ہمایوں سعید اس کے مرکزی کردار ہیں تاہم ناقدین کے مطابق یہ دراصل مہوش حیات کی فلم ہے۔

فلم میں سہیل احمد، صبا حمید، احمد علی بٹ، عروہ حسین سمیت بہت بڑی کاسٹ ہے۔

’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کی کہانی خلیل الرحمٰن قمر نے لکھی جبکہ اس کی ہدایت ندیم بیگ نے دی۔ باکس آفس پر اس فلم نے 50 کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کیا۔

1۔ ’ایکٹر ان لا‘

ستمبر 2016 میں عید الاضحیٰ کے موقعے پر ریلیز ہونے والی یہ فلم ایک سوشل کامیڈی تھی جس میں مرکزی کردار فہد مصطفیٰ اور مہوش حیات نے ادا کیا جبکہ اس فلم میں بطور معاون اداکار بھارت کے آنجہانی اوم پوری نے بھی کام کیا۔

فلم کی کہانی شان مرزا کی ہے جو اداکار بننا چاہتا ہے، تاہم حالات کے جھکڑ میں وکیل بن کر عوامی نوعیت کے کیس لڑ کر مقبول ہوجاتا ہے۔ فلم کی کہانی فضہ علی میرزا اور نبیل قریشی نے مشترکہ طور پر لکھی جبکہ نبیل قریشی ہدایت کار تھے۔ فلم کی پروڈیوسر فضہ علی میرزا ہیں۔

’ایکٹر ان لا‘ کی کہانی ایک مشکل موضوع پر تھی اور اس پر دلچسپ بلکہ کسی حد تک مزاحیہ فلم بنانا بہرحال ایک دقیق کام تھا جسے فضہ اور نبیل نے احسن طریقے سے نبھایا، جبکہ اس فلم کو بہترین اداکار، بہترین ہدایت کار اور بہترین گانے سمیت تین لکس سٹائل ایوارڈ بھی ملے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10