امریکی ایوارڈ جیتنے والی دس باہمت خواتین میں سے تین مسلمان

حوصلہ مند خواتین کے سالانہ ایوارڈز کے ذریعے امن، انصاف، انسانی حقوق، جنسی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں کرنے والی نمایاں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

دائیں سے بائیں: جبوتی کی مومنہ حسین،  بنگلہ دیش کی رضیہ سلطانہ اور اردن کی کرنل خالدہ خلف ہانا التوال۔ فوٹو: امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جمعرات (7 مارچ) کو دنیا بھر سے منتخب دس غیر معمولی حوصلہ مند خواتین کو ایوارڈز دیں گے۔

محکمہ خارجہ میں منعقدہ ’حوصلہ مند خواتین کے سالانہ ایوارڈز‘  کی تقریب میں امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ بھی خصوصی خطاب کریں گی۔

تیرویں سالانہ ایوارڈز کے ذریعے امن، انصاف، انسانی حقوق، جنسی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں کرنے والی نمایاں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ان ایوارڈز کے لیے حتمی فہرست امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام تیار کرتے ہیں۔

رواں سال جن خواتین کو اس ایوارڈز سے نوازا جائے گا ان کے نام یہ ہیں:


رضیہ سلطانہ، بنگلہ دیش

1973 میں میانمار کے روہنگیا گھرانے میں پیدا ہونے والی رضیہ سلطانہ نے اپنی زندگی مظلوم روہنگیا برادری اور میانمار میں رہنے والوں کے انسانی حقوق کی ترویج کے لیے وقف کر دی۔

بنگلہ دیش کی شہری رضیہ نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ بطور وکیل، استاد اور انسانی حقوق کے کارکن گزاری۔

وہ 2014 سے روہنگیا خاندانوں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔


نایا پا، میانمار

نایا پا امن کے لیے ایک سرگرم کارکن اور میانمار میں تنظیم برائے کیرن خواتین ( کے ڈبلیو او) کی جنرل سیکریٹری ہیں۔ 

وہ میانمار میں جنسی مساوات اور مقامی آبادی کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔

1998 میں تھائی۔میانمار سرحد پر قائم پناہ گزین کیمپ کے ہائی سکول سے تعلیم حاصل کرنے والی پا نے پوری عمر کئی دہائیوں پر محیط خانہ جنگی سے متاثرہ مقامی آبادی کی بہبود کے لیے وقف کر دی۔

پا کی قیادت میں 60 ہزار سے زائد ارکان پر مشتمل ’کے ڈبلیو او‘ میانمار کی پہلی تنظیم تھی جس نے 2017 میں کھل کر روہنگیا مسلمانوں پر فوج کی زیر قیادت ہونے والے مظالم کی مذمت کی۔


مومنہ حسین، جبوتی

مومنہ 1990 میں جبوتی شہر میں پیدا ہوئیں، انہوں نے 23 سال کی عمر میں قومی پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی اور تیزی سے ترقی کی۔

انہوں نے دہشت گردی کے کیسوں کی تحقیقات میں خصوصی مہارت حاصل کی اور کئی ہائی پروفائل کیسز حل کیے۔

ان کی تحقیقات کی بدولت ہی الشباب کے متعدد دہشت گردوں کو سزائیں ہوئیں یا انہیں ملک بدر کیا گیا۔

2014 میں جبوتی شہر میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد ان کی کوششوں سے دہشت گردی کی کئی کوششیں ناکام بنائی گئیں۔

خاتون پولیس افسر ہونے کی وجہ سے انہیں معاشرے میں تنقید کا سامنا رہا، حتی کہ بچوں نے ان پر پتھر بھی برسائے۔

تاہم، ناروا سلوک کے باوجود انہوں نے عزم و حوصلے سے اپنا کام جاری رکھا۔


ماما میگی، مصر

ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والی ماما میگی نے مصر کے انتہائی غریب اور پسماندہ علاقوں کی خدمت کے لیے رنگ، نسل اور فرقہ پرستی سے پاک ’سٹیفنز چلڈرن‘ نامی این جی او بنائی۔

مصر کی ’مدر ٹریسا‘ کہلائی جانے والی مام میگی اور ان کی تنظیم روزانہ ہی بچوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ انہوں نے اب تک لاکھوں غریب بچوں کو معاشی تحفظ فراہم کیا۔

متعدد بار نوبیل امن انعام کے لیے نامزد ہونے والی ماما انسانی ہمدردی کے کئی مصری اور عالمی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔


کرنل خالدہ خلف ہانا التوال، اردن

کرنل خالدہ محکمہ پولیس کے پبلک سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے خواتین ونگ کی سربراہ ہیں۔

1991 میں ڈائریکٹوریٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد کرنل خالدہ ترقی کرتے ہوئے اردن کی سیکیورٹی سروسز میں اعلیٰ سطح کی خاتون افسر مقرر ہوئیں۔

شامی بحران اور پناہ گزینوں کے امور میں بھی ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔

فیملی پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ میں بطور تفتیش کار انہوں نے جنسی، سماجی، جسمانی اور گھریلو تشدد کے کئی حساس مقدمات نمٹائے۔


سسٹر اورلا ٹریسی، آئر لینڈ

1973 میں آئرلینڈ میں پیدا ہونے والی سسٹر اورلا ٹریسی بچپن سے ہی مذہبی ننز کے جذبہ خدمت خلق سے متاثر تھیں۔ نن بننے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ’بلیسڈ ورجن میری‘ نامی ادارے میں شمولیت اختیار کرلی۔

اس دوران انہیں خانہ جنگی سے متاثرہ جنوبی سوڈان میں خدمات انجام دینے کا بھی موقع ملا۔

سوڈان میں بچیوں کی کم عمری میں شادی اور تعلیم سے محرومی دیکھ کر آورلا اور ان کی ساتھی ننز نے 35 بچیوں پر مشتمل ایک بورڈنگ سکول شروع کیا۔

وہ آج بھی انتہائی پسماندہ خاندانوں کی زندگی بہتر بننے میں مصروف ننز، اساتذہ اور نرسوں کے ایک عالمی گروپ کا حصہ ہیں۔


اولیویرا لیکک، مانٹی نیگرو

اولیویرا مانٹی نیگرو کی ایک سٹار تحقیقاتی رپورٹر ہیں۔ اپنے 16 سالہ صحافتی کیریئر میں انہوں نے کئی مرتبہ جان خطرے میں ڈال کر بدعنوانی اور جرائم کی بڑی خبریں دے کر خوب نام کمایا۔

جعلی تمباکو کی غیر قانونی تجارت پر کئی تحقیقاتی مضامین شائع کرنے پر انہیں 2011 میں گمنام افراد کی جانب سے باز رہنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔

2012 میں پاڈ گوریکا شہر میں گھر کے باہر ان پر حملہ ہوا، چھ سال بعد اسی مقام پر انہیں ٹانگ میں گولی ماردی گئی۔

ان سب حالات کے باوجود اولیویرا اپنے مشن سے پیچھی نہیں ہٹیں، وہ مانٹی نیگرو میں میڈیا اصلاحات اور صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک روشن مثال ہیں۔


فلور ڈی ماریا زپاٹا، پیرو

فلور ڈی ماریا زپاٹا، پیرو میں اربوں ڈالرز پر مشتمل غیر قانونی کان کنی اور درختوں کی کٹائی میں ملوث علاقائی جرائم پیشہ تنظیموں کے خلاف پراسیکیوٹر ٹیم کی سربراہ ہیں۔

پیرو میں سونے کی غیر قانونی کان کنی نے ایک ایسا خطرناک اور مجرمانہ نظام پیدا کیا ہے جو قوانین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انسانی سمگلنگ اور قدرتی وسائل کی تباہی میں ملوث ہے۔

ان منظم جرائم پیشہ تنظیموں اور ان سے وابستہ سیاسی اور معاشی گروہوں سے شدید خطرات کے باوجود زپاٹا صرف 2016 میں غیر قانونی کان کنی کے لگ بھگ 500 آپریشنز کو ختم کرنے میں کامیاب رہیں۔


مارینی ڈی لیوارا، سری لنکا

 مارینی ’سسٹرز ایٹ لا‘ کی بانی اور چیئر پرسن ہیں۔ وہ جرائم کا ہدف بننے والی خواتین اور بچوں کی وکالت کے علاوہ یتیم بچوں کی کفالت کی ترویج کرتی ہیں۔

مارینی ویژول آرٹس اور اسٹیج ڈراما کی مدد سے لوگوں میں قانونی شعور اجاگر کرتی ہیں اور ان کا ذاتی سٹریٹ تھیٹر پورے ملک میں انسانی حقوق پر مبنی مسائل کا شعور پھیلاتا ہے۔

مارینی گھریلو تشدد روکنے سے متعلق قانون میں ترامیم پیش کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی کر چکی ہیں۔

وہ سری لنکا اور برطانیہ میں قانون پر لیکچر بھی دیتی ہیں۔


آنا الیوس ہینگا، تنزانیہ

آنا پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل، انسانی حقوق کی کارکن اور مرکز برائے قانونی اور انسانی حقوق کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

انہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی تنزانیہ میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے وقف کردی۔

وہ اپنے ملک میں منفی آئینی و قانونی اقدامات کے ذریعے جمہوری طرز حکومت چلانے پر عوامی ردعمل میں ایک قابلِ ذکر آواز رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین