پاکستان کی سڑکیں خواتین کے ناموں سے محروم کیوں؟

پاکستان میں ہزاروں خواتین نے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے، لیکن متعلقہ محکموں نے انہیں اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے سڑکیں منسوب کی جا سکیں۔

پاکستان میں جہاں دوسرے شعبوں میں مردوں کے مقابلے پر عورتوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے، وہیں ہمارے چھوٹے بڑے شہروں اور گلیوں کو معروف خواتین کے نام سے منسوب کرنے کی شرح بھی مایوس کن ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے آٹھ مارچ کو ’خواتین کے عالمی دن‘ کی مناسبت سے پاکستان کے پانچ بڑے اور اہم شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان شہروں میں ہزاروں سڑکوں میں سے صرف 15 سڑکیں ایسی ہیں جو خواتین کے نام سے منسوب ہیں۔

2015 میں ایک ادارے میپ باکس نے دنیا کے سات بڑے شہروں لندن، پیرس، سان فرانسیسکو، ممبئی، دہلی، چینائی اور بنگلور کا اسی مقصد کے لیے جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اوسطاً 27.5 فیصد سڑکیں خواتین کے ناموں سے منسوب تھیں۔

پیرس میں اس سال ایک فیمنسٹ گروپ کی جانب سے محض اڑھائی فیصد سڑکوں کے خواتین کے ناموں سے منسوب ہونے کے خلاف احتجاج کے بعد 60 سڑکوں کے نام تبدیل کیے گئے۔ پیرس میں جو سڑکیں پہلے سے خواتین کے نام سے منسوب تھیں وہ بھی کسی نہ کسی مشہور آدمی کی بیویاں یا بیٹیاں تھیں۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں بہت سی نامور خواتین ہیں جن کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک سڑکوں کی بات ہے تو بیگم رعنا لیاقت علی، فاطمہ جناح، بینظیر بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کے نام پر کوئی سڑک یا جگہ ضرور ہونی چاہیے۔

پاکستان کے پانچ بڑے شہروں میں خواتین سے منسوب سڑکوں کی تعداد کتنی ہے، ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 

پشاور: صفر

رپورٹر: انیلا خالد

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دو مرکزی شاہراہوں رنگ روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے علاوہ سینکڑوں چھوٹی بڑی سڑکیں ہیں۔ تاہم جب انڈپینڈنٹ اردو نے  تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دراصل ان میں کسی سڑک کا نام خاتون کے نام پر نہیں۔

صوبائی محکمہ بلدیات سے بھی معروف عمارتوں، سڑکوں اور گلیوں کی فہرست مانگی گئی تو انہوں نے چھان بین کر کے کوئن وکٹوریہ روڈ کا نام نکال کر دے دیا۔ یہ الگ بات کہ کاغذوں میں ہو تو ہو، عملی طور پر اس سڑک کا پشاور میں کوئی وجود نہیں۔ مقامی لوگوں نے کبھی اس کا نام سنا ہے اور نہ ہی گوگل میپس اس نام کی کسی سڑک سے واقف ہے۔

اس حقیقت سے ایک تاثر تو یہ ملتا ہے کہ انگریز دور کے بعد کسی حکومت نے یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ کسی ایک گلی یا سڑک کو مقامی خواتین کے نام سے بھی منسوب کیا جائے۔ دوسرا یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ صوبہ اعلیٰ پائے کی خواتین سے محروم ہے۔ تاہم صورت حال ایسی ہرگز نہیں۔

یا پھر ایک تیسری بات کسی غیر مقامی شخص کے ذہن میں یہ بھی آ سکتی ہے کہ یہ ایک تنگ نظر علاقہ ہے جو خواتین کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جس کو موجودہ دور کے روشن خیال اور مہذب معاشروں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

اگر سرسری اور مختصر طور پر ہی بااثر پشتون خواتین شخصیات کا ذکر کیا جائے تو بھی یہ فہرست کافی طویل ہے۔ ان میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کے نام کتابوں اور تاریخ کے حوالوں میں تو نہیں ملتے لیکن وہ ایک قبیلے، گاؤں یا ایک برادری کے اندر اچھی خاصی بااثر شخصیات تھیں۔ 

صوابی کے گاؤں ٹوپی کی زرنوشہ ناوے، بیگہ ابئی، جھنڈا گاؤں کی فہمیدہ جان،  مردان کی بیگم زری سرفراز، بیگم کلثوم سیف اللہ، الف جانہ خٹکہ، بیگم نسیم ولی خان، بیگم تسکین، زیتون بانو، ڈاکٹر جوہر خاتون، سلمہ شاہین، سیدہ بشریٰ بیگم، بشریٰ گوہر، رخشندہ ناز، معراج ہمایون، ڈاکٹر ذکیہ منہاس، نگہت اورکزئی اور ایسے سینکڑوں دوسرے نام ہیں۔ عالمی سطح پر ملالہ یوسفزئی پاکستان کی پہلی نوبیل انعام یافتہ خاتون ہیں لیکن ان کا نام بھی کسی سڑک یا چوراہے کو نہیں دیا گیا۔

اس معاملے پر نامہ نگار انیلہ خالد نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی کامران بنگش سے، جو وزارت بلدیات کے فرائض سنبھالے ہوئے ہیں، بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ پہلو خود ان کے لیے نیا ہے کیونکہ انہوں نے کبھی اس سلسلے میں سوچا ہی نہیں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے پہلے اس قلمدان پر کام کرنے والوں کا دھیان بھی کبھی اس طرف نہیں گیا ہوگا اور ایسا قصداً نہیں ہوا ہو گا۔ لیکن اب چونکہ انڈپینڈنٹ اردو کے توسط سے یہ بات سامنے آ گئی ہے تو ہم اس پر ضرور سوچیں گے کہ کسی گلی یا سڑ ک کو کسی خاتون کے نام بھی کیا جائے۔ یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے۔‘

پشتون تاریخ دان محمد ایاز خان کے مطابق ’پشتون معاشرے میں مرد عورت کو اپنی ملکیت اور اس کی حفاظت و کفالت کو اپنی مردانگی سمجھتا آیا ہے۔ یہیں سے زن، زر اور زمین کے تصور نے جنم لیا اور عورت صرف مرد کی مرضی کے تابع ہو گئی۔ بلکہ شاید یہیں سے عورت کی ذات کو باعث شرم سمجھا جانے لگا۔ یہاں تک کہ اس سوچ نے خواتین کو پردوں میں لپیٹ کر اس کو بالکل ہی ایک کونے میں کر دیا۔‘

سماجی کارکن معراج ہمایوں بتاتی ہیں کہ ’پشتون معاشرے میں اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ عورت ذات کو کس قدر باعث شرم سمجھا جاتا ہے تو خیبر پختونخوا کے کسی پرائمری سکول میں جا کر کسی بچے سے اس کے والدین کا نام پوچھیں، وہ آپ کو کبھی بھی ماں کا نام نہیں بتائے گا۔ یعنی بچوں میں بھی یہ خیال سرایت کر جاتا ہے کہ خواتین کا نام لینا باعث شرم ہے۔‘

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ چونکہ پشتونوں میں عورت کا نام لینا یا اس کی ذات سے جڑی باتیں باعث شرم سمجھی جاتی رہی ہیں لہٰذا یہ ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے کہ کیوں سڑکوں یا عمارتوں کو خواتین کے نام سے منسوب نہیں کیا گیا۔

اسلام آباد: چار 

رپورٹر: مونا خان

خواتین کے نام شاہراہوں سے منسوب کرنے کا مقصد اُن کی کاوشوں کو سراہنا ہے۔ چیئرمین کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عامر علی احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد کی چار شاہراہیں خواتین کے نام سے منسوب ہیں جبکہ اس کے علاوہ فاطمہ جناح پارک محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

اسی طرح بلیو ائیریا میں واقع کلثوم پلازہ کے قریب واقع پُل کا نام کلثوم پُل رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیگم کلثوم خیبر پختونخوا کے مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

کسی مقام کو نام سے منسوب کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

سی ڈی اے کے ڈائریکٹر پلاننگ اعظم خان لودھی نے بتایا کہ 1978 میں کابینہ نے فیصلہ کیا اور پالیسی بنائی تھی کہ جس کے نام سے بھی سڑک کو منسوب کیا جایا جائے گا اُس کو درج ذیل معیار پر پورا اترنا ہو گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جانچ کے چار پیمانے بنائے گئے اور کسی ایک پیمانے پر اترنا ضروری ہے۔

  1.  جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو۔
  2.  تحریک پاکستان میں حصہ لیا ہو۔
  3.  ملک کے لیے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہوں۔
  4.  کسی خوبی کی بنا پر ملک سے ایوارڈ یافتہ ہو۔ 

ڈائریکٹر پلاننگ نے کہا کہ ایک اگر کسی دوسرے ملک نے ہمارے کسی قومی ہیرو کے نام سے کوئی شاہراہ رکھی ہو تو ہم بھی اُس متعلقہ ملک کے قومی ہیرو کے نام سے سڑک یا مقام منسوب کر دیتے ہیں۔ 

اسلام آباد میں خواتین کے نام سے منسوب مقامات کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ جیسمین روڈ، سنبل روڈ کسی خاتون کے نام پر نہیں بلکہ پھولوں کے نام پر ہیں۔ اسی طرح کچھ شاہراہیں مشہور مقامات، عالمی ہیروز اور کچھ قومی تاریخی شخصیات کے نام سے ہیں۔

 

خواتین سے منسوب شاہراہیں: 

بیگم سرفراز اقبال روڈ، بیگم سرفراز اقبال اسلام آباد کی ادبی شخصیت تھیں اور دو کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کی پیش نظر 2004 میں سیکٹر جی سکس فور کی سڑک کا نام بیگم سرفراز اقبال رکھا گیا۔ 

سابق سفارت کار غالب اقبال بیگم سرفراز اقبال کے صاحب زادے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اسلام آباد کی ایک سڑک ان کی والدہ سے منسوب کی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح یاد رکھنے سے آنے والی نسلوں کو بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی کوئی شخصیت تھیں جن کے نام سے مقام کو منسوب کیا گیا ہے اور ایسے نام زندہ رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ڈائریکٹر پلاننگ سی ڈی اے اعظم لودھی نے بتایا کہ ماروی روڈ اور سوہنی روڈ کافی پہلے کے نام ہیں اور یہ دونوں نام لوک داستانوں کے کرداروں پر رکھے گئے تھے۔

جبکہ نیلم روڈ کے بارے میں استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہ نام کسی خاتون کے نام پر نہیں بلکہ وادی نیلم کی نسبت سے رکھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مشہور شاعرہ پروین شاکر کے نام سے سیکٹر ایف سیون کی سڑک 2008 میں منسوب کی گئی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر حکومت سے ایوارڈ یافتہ کے نام پر سڑک منسوب کی جا سکتی ہے تو کیا مہوش حیات بھی اس پیمانے پر پورا اترتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’قوانین کے مطابق مقام یا شاہراہیں کسی زندہ شخص کے نام سے منسوب نہیں کی جا سکتیں بلکہ جو شخص اس دنیا میں نہیں اس کی یاد میں پھر نام رکھا جاتا ہے۔‘

اعظم لودھی نے بتایا کہ جلد ہی پاکستان میں جذام کے مریضوں کے علاج میں اپنی زندگی وقف کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں کوئی پارک یا شاہراہ ان نے منسوب کی جائے گی۔ 

 

کراچی: سات

رپورٹر: رمیشہ علی

3780 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے شہر کراچی میں ہزاروں چھوٹی بڑی سڑکیں، شاہراہیں، فلائی اوور اور انڈرپاس ہیں جن کی تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں کئی سڑکیں ایسی ہیں جو مشہور شخصیات سے منسوب ہیں جیسے کہ علامہ اقبال روڈ، جناح چوک یا شاہراہ فیصل۔

کئی سڑکیں واقعات پر مبنی ہیں جیسے کہ ’مُکہ چوک‘ جو کہ لیاقت علی خان کے جواہر لال نہرو کو دکھائے گئے مشہور مکے پر مبنی ہے۔ اس چوک کا نام ’نائن زیرو ڈراپ سین‘ کے بعد تبدیل کر کے لیاقت علی خان چوک رکھ دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی سڑکیں چیزوں کے ناموں پر ہیں جیسے کہ سٹیڈیم روڈ، بھینس کالونی، انڈا موڑ یا ناگن چورنگی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب جائزہ لیا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی گڑھ کراچی میں کتنی سڑکیں خواتین کے ناموں پر مبنی ہیں تو مشکل سے چند سڑکوں کے نام سامنے آئے۔ کئی خواتین پاکستان کی تاریخ اور سیاسی جدوجہد میں خاص مقام رکھتی ہیں مگر ان میں سے چند کے ناموں پر سڑکیں موجود ہیں مثلاً مادرِ ملت کے نام پر فاطمہ جناح روڈ اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی بیٹی کے نام پر افزا الطاف فلائی اوور۔ 

اس کے علاوہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی چند معروف خواتین کے ناموں پر بھی سڑکیں بنائی گئیں جیسے کہ بے نظیر بھٹو فلائی اوور، مادرِ جمہوریت نصرت بھٹو انڈر پاس، فوزیہ وہاب فلائی اوور، اور ذوالفقارعلی بھٹو کی پہلی بیوی کے نام پر شیریں امیر بیگم بھٹو فلائی اوور۔

سیاسی شخصیات کے علاوہ کچھ معروف خواتین سماجی کارکنان کے ناموں پر بھی سڑکیں موجود ہیں جن میں سبین محمود روڈ اور پروین رحمٰن روڈ شامل ہیں۔ 2016 میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایک نوٹیفیکیشن کے تحت کورنگی ایسوسی ایشن اور ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے قریب واقع روڈ کا نام تبدیل کر کے سبین محمود روڈ رکھا گیا اور کلفٹن کے علاقے میں باغ ابنِ قاسم کے ساتھ واقع روڈ کا نام تبدیل کرکے پروین رحمٰن روڈ رکھا گیا۔

نامعلوم افراد نے سماجی کارکن پروین رحمان کو 2013  میں اورنگی ٹاؤن اور سبین محمود کو 2015 میں ڈیفنس فیز 2 کے علاقے میں قتل کر دیا تھا۔

کراچی کی دو اور مشہور سڑکیں ان خواتین کے نام پر ہیں، جو یہاں اس وقت آباد تھیں جب کراچی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان میں سے ایک ’مائی کولاچی بائی پاس‘ ہے۔

یہ سڑک ایک بہادر ماہی گیرخاتون کے نام پر ہے اور تقریباً دو صدیاں قبل بحیرہ عرب کے کنارے واقع بستی کو مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مائی کولاچی کے شوہر اور بچے سمندری طوفان میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے خود سمندر میں جا کر انہیں بچانے کی کوشش کی تھی۔

اس کے علاوہ ’گل بائی‘ فلائی اوور اور ’گل بائی چوک‘ بھی کافی مشہور ہیں، جن کے بارے میں کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ پارسی برادری کے جمشید نوسروانجی کی والدہ گل بائی کے نام پر ہیں۔ جمشید نوسروانجی رستم جی مہتا 1922 میں کراچی بلدیہ کے صدر تھے اور اپنی خدمات کے باعث بابائے کراچی کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔

اگر مشہور ادبی خواتین شخصیات کی بات کریں تو کراچی میں کچھ سڑکیں ان کے نام پر بھی ہیں، مثال کے طور پر شاہرہ نور جہاں جو کہ ملکہ ترنم نور جہاں کے نام سے منسوب ہے۔

اس کے علاوہ زیب النسا روڈ بھی مشہور پاکستانی صحافی اور ادیب زیب النسا حمیداللہ کے نام پر بنایا گیا۔ یہ خاتون پاکستان میں انگریزی صحافت اور حقوقِ نسواں کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہیں۔

لاہور: چار

رپورٹر: فاطمہ علی

لاہور میں خواتین کے نام پر کتنی سڑکیں ہیں؟ اس بارے میں جاننے کے لیے ہم نے مورخ مدثر بشیر سے رابطہ کیا، وہ بھی سوچ میں پڑ گئے اور بولے اس بارے میں تو میں نے بھی کبھی نہیں سوچا، مگر پھر انہوں نے ہمیں کچھ سڑکوں کے نام بتائے جن کی تاریخی اہمیت بھی تھی اور یہ سڑکیں پاکستان بننے کے بعد وجود میں آئیں۔

ںور جہاں روڈ:  مدثر بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاہور کی ا یک سڑک قذافی سٹیڈیم کے پاس گلبرگ تھری میں ہے اور وہ ملکہ ترنم نور جہاں کے نام پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈم نورجہاں کا گھر جہاں ہوا کرتا تھا اس سڑک کانام نورجہاں روڈ رکھا گیا تھا وہ بھی تب جب ملکہ ترنم نورجہاں حیات تھیں۔

بیگم روڈ: رنجیت سنگھ کی اہلیہ بیگم رانی گل کا مقبرہ لاہور کے علاقہ مزنگ میں، جس پر مزنگ کی ایک سڑک جو جین مندر تک جاتی ہے اس کا نام گل بیگم روڈ رکھا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ نام چھوٹا ہو کر بیگم روڈ رہ گیا۔

 

خواتین کے نام پر لاہور میں موجود سڑکوں کے حوالے سے مزید جاننے کے لیے ہم نے ڈاکٹر اعجاز انور سے بھی رابطہ کیا جو اب تک تقریباً تمام اندرون لاہور اور لاہور شہر کو اپنی پینٹنگز میں محفوظ کر چکے ہیں اور تاریخ پر عبور رکھتے ہیں۔

فاطمہ جناح روڈ/ کوینز روڈ: ہمارے سوال نے ڈاکٹر اعجاز انور کو بھی کچھ دیر کے لیے سوچ میں ڈال دیا۔ مگر پھر انہوں نے نام لیا کوئنز روڈ کا، جو اب فاطمہ جناح روڈ کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا کہ کوئنز روڈ کا نام پرانے وقتوں میں اولڈ فیروز پور روڈ ہوتا تھا۔ یہ سڑک قرطبہ چوک سے چیئرنگ کراس تک آتی ہے۔

مادر ملت روڈ: ان سڑکوں کے علاوہ لاہور میں ایک مادر ملت روڈ بھی ہے جو پنڈی سٹاپ سے شروع ہو کر پیکو روڈ ، باگڑیاں چوک سے ہوتی ہوئی گرین ٹاؤن تک جاتی ہے۔

کوئٹہ: دو

رپورٹر: ہزار بلوچ

کوئٹہ میں صرف دو سڑکوں کے نام خواتین کے نام پر رکھے گئے۔ ان میں ایک فاطمہ جناح  روڈ اور دوسرا ڈاکٹر بانو روڈ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک سڑک معروف شاعرہ رابعہ خضداری کے نام پر ہے۔

فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں جبکہ ڈاکٹر بانو لیڈی ڈفرن ہسپتال میں خدمات سرانجام  دینے والی ایک ڈاکٹر ہیں۔

ممتاز محقق اور تاریخ پر نظررکھنے والے ڈاکٹر عرفان بیگ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں کے نام خواتین پر نہ رکھنےکی وجہ یہاں کا قبائلی معاشرہ ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں خواتین کے نام عام کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عرفان کے مطابق وہ بلوچستان میں ہر جگہ گئے لیکن انہیں کہیں بھی خواتین کے نام پر منسوب سڑکیں نہیں ملیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں اکثر سڑکوں کے نام انگریزوں، ہندوؤں یا پارسیوں کے نام پر رکھے گئے۔

انہوں نے کوئٹہ کی معروف سڑک جناح روڈ کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے بتایا کہ چونکہ پاکستان بننے کے بعد بھی یہاں 1935 کا برطانوی قانون لاگو تھا لہٰذا نام کی تبدیلی کے لیے برطانیہ سے مشاورت کی گئی۔

سڑکوں کے علاوہ کوئٹہ میں ایک لیڈی سنڈیمن سکول بھی ہے اور بولان میں ایک سرنگ انگریز خاتون کے نام پر ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین