قسط 4: قصہ تین کروڑ کی کٹی انگلی کا!

دسمبر 2017 میں پشاور کے ایک ہاسٹل میں خودکش حملہ آور گھس گئے۔ ان کے ڈانڈے کہاں سے ملتے تھے اور اس مہنگے آپریشن کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ اس خصوصی سیریز کا چوتھا حصہ

دسمبر 2017 میں پشاور کے زرعی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پر حملےکے دوران رضاکار لاشیں اٹھا کر ایمبولینس میں لاتے ہوئے (اے ایف پی)

انڈپینڈنٹ اردو کی اس خصوصی سیریز کی چوتھی قسط پیش ہے (پہلی قسط پڑھیے | دوسری قسط پڑھیے | تیسری قسط پڑھیے)۔ اس میں سید فخر کاکاخیل نے کسی ماہر جاسوسی ناول نگار کی طرح پشاور میں 2017 میں ہونے والے خودکش حملے کے تانے بانے جوڑے ہیں۔ اس قسط وار کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خودکش حملوں کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے، اور اس کے لیے رقم کیسے فراہم ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر اس میں پولیس کے مثالی کردار کا ذکر ہے جن کے سراغ رسانوں کی اس طرح اس پیچیدہ کیس کی کڑیاں ملائی ہیں کہ ان کی محنت اور ذہانت کی داد دیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ 

ایگریکلچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پشاور پر خودکش حملہ کا سراغ تو لگا لیا گیا تھا لیکن اب ایک اور سوال سامنے تھا کہ اس دہشت گردی کے لیے اتنی بڑی رقم عسکریت پسندوں کے پاس کہاں سے آئی؟

یہی وہ وقت تھا جب پشاور شعبہ انسداد دہشت گردی پولیس کے حکام کی نظر دسمبر 2017 میں ہونے والے خودکش حملے کے سہولت کاروں کے ناموں پر پڑی۔

سہیل۔ ۔ ۔ نواب۔ ۔ ۔ منصور المعروف بہ بھائی۔ ۔ ۔ کنڑ۔ ۔ ۔ افغانستان۔ ۔ ۔ اغوا۔ ۔ ۔ کروڑوں کی رقم۔ ۔ ۔

اور حساس ادارے کے اہلکار کڑیاں ملاتے گئے۔ واقعی ابھی کچھ مہینوں پہلے ہی تو بات تھی۔  

 اپریل کا مہینہ تھا۔ موسم نہ زیادہ ٹھنڈا اور نہ زیادہ گرم جب پولیس کی گشتی پارٹی حیات آباد پشاورمیں واقع زرغونی مسجد کے قریب سے گزری۔ سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی تھی۔ پولیس گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں اہلکاروں نے دیکھا کہ سفید رنگ کی مارک ایکس نمبر پی آرپی XXXX بالکل خالی تھی۔

پولیس اہلکاروں کا ماتھا ٹھنکا کہ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ بسا اوقات علاقہ غیر سے عسکریت پسند حیات آباد میں بارودی مواد سے بھری گاڑیاں لا کر کام بم دھماکے کرتے رہتے تھے۔

جب گشتی پارٹی دوبارہ وہاں سے گزری تو گاڑی وہیں کی وہیں کھڑی تھی۔ رات دس بجے کا وقت تھا، پولیس نے گاڑی چیکنگ کا فیصلہ کیا۔ لیکن چونکہ ایک بات کا خدشہ تھا کہ کہیں گاڑی بارود سے بھری نہ ہو، لہٰذا بم ڈسپوزل سکواڈ کی ٹیم بلائی گئی جس نے آدھے گھنٹے میں گاڑی کو کلئیر قرار دے دیا۔

پولیس اہلکاروں نے کنٹرول روم کو بتایا اور گاڑی حیات آباد پولیس سٹیشن لے گئے۔ 21 اپریل 2017 کو صبح صبح ہی ایک 39 سالہ خاتون نے تھانے میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ حیات آباد فیز سکس کی رہائشی ہیں اور ان کے شوہر گذشتہ رات سے پراسرار طور پر لاپتہ ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کے 44 سالہ شوہر عبداللہ افغان کاروباری ہیں اور پاکستان میں ان کی خاصی جان پہچان ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر اپنی سفید رنگ کی گاڑی میں گھر آ رہے تھے تو موقعے پر موجود ایک اہلکار نے انہیں بتایا کہ گذشتہ رات ان کو بھی ایک گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی ملی ہے۔

خاتون نے تھانے میں کھڑی گاڑی بھی پہچان لی۔ پولیس نے اس کے بعد پرچہ درج کیا اور خاتون کو یہ کہہ کر گھر روانہ کر دیا کہ اگر ان کے شوہر گھر واپس آئیں یا کوئی اطلاع ملے تو فوراً پولیس کو مطلع کریں۔

 پولیس تھانہ حیات آباد نے روایتی طریقہ سے تفتیش کا آغاز کیا۔ دو باتیں پولیس کی نظر میں تھیں ایک یہ کہ لاپتہ شخص عبداللہ افغان باشندہ تھا اور دوسری بات یہ کہ ان کا بارگین میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ یہ رقم کے لین دین کا تنازع ہے جس میں اس طرح کے واقعات معمول سمجھے جاتے ہیں۔

تفتیشی افسر یونیورسٹی روڈ پر واقع کاروں کے شو روم پہنچا اور تفتیش شروع کر دی۔ وہاں معلوم ہوا کہ اکثر عبداللہ یار دوستوں کے ساتھ دیر تک شوروم پر موجود رہتے اور یہ کہ ان کی آمدن اچھی خاصی تھی۔ وہ بچپن سے ہی پشاور میں ہجرت کی زندگی گزار رہے تھے اور شادی بھی کوہاٹ کے قریب ایک علاقہ سے کی تھی۔

پولیس کو معلوم ہوا کہ عبداللہ کا کسی سے کاروبار یا لین دین کا تنازع نہیں تھا۔ جس سے بھی پوچھا، اس نے کہا کہ وہ کھرے کاروباری اور لین دین میں پکے تھے۔ نہ ہی پولیس کو کوئی ایسی شہادت ملی کہ وہ کسی غیر قانونی دھندے میں ملوث رہے ہوں یا انہوں نے کسی ملکی قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔

تفتیشی نے عبداللہ کے کاروباری حلقے میں موجود یار دوستوں کے نام اور نمبر نوٹ کیے اور کوئی سراغ پائے بغیر تھانے لوٹ آئے۔ کئی دن ایسے ہی گزرے کہ ایک روز عبداللہ کی اہلیہ نے کال کی۔ وہ خاصی پریشان تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود تھانے آنا چاہتی ہیں اور فون پر نہیں بتا سکتیں۔ متعلقہ افسر نے انہیں تھانے بلا لیا۔

خاتون کے ساتھ  عبداللہ کے بھائی بھی تھے۔ ایک بھائی محمد امین نے پولیس کو بتایا کہ افغانستان کے ایک نمبر 0093783XXXX73  سے کسی نے ان سے بات کی ہے کہ ان کے بھائی افغانستان میں اغواکاروں کے قبضے میں ہیں اور ان کی رہائی 15 کروڑ روپے کے عوض ہو گی۔

یہ سن کر پولیس تھانہ حیات آباد نے ایف آئی آر درج کر لی اور مغوی کے بھائی کو تاکید کی کہ اب جو بھی کال آئے اسے فوراً پولیس کے نوٹس میں لایا جائے۔

مغوی اور اغوا کار افغانستان میں پاکستانی پولیس کی عمل داری سے باہر تھے۔ پولیس خود کو بے بس محسوس کرنے لگی۔ دوسری دفعہ پھر کال افغانستان سے آئی۔ اس بار 0093776XXXX60 کا نمبر استعمال کیا گیا۔ اب کے کہا گیا کہ اب تک پیسوں کے بندوبست کا کوئی اشارہ نہیں ملا اس لیے لگتا ہے پچھلی کال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اس لیے وہ ثبوت اور نمونہ بھجوا رہے ہیں۔ یہ کہہ کر اغوا کار نے فون کاٹ دیا۔

پولیس نے بتایا کہ وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کی کوششیں پشاور میں نگرانی کی حد تک ہیں۔

کچھ روز بعد حیات آباد زرغونی مسجد کے قریب ان کو ایک کٹی انگلی اور ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں میں عبداللہ نے کٹی ہوئی انگلی والا خون سے لت پت ہاتھ دکھا کر کہا کہ اغواکار بہت ظالم ہیں اور ان کا مطالبہ پورا کیا جائے ورنہ اگلی دفعہ اس کی لاش ملے گی۔

تیسری بار 0093787XXXX90 کے افغان نمبر سے کال آئی اور محمد امین نے وقت ضائع کیے بغیر اغواکاروں کو کہا کہ انہوں نے تین کروڑ روپے کا بندوبست کر لیا ہے مزید کا کر رہے ہیں۔ تب اغواکار نے کہا کہ پاک افغان سرحد طورخم پر ان کا بندہ تین کروڑ روپے کے بیگ کا انتظار کر رہا ہے۔

(اس تحریر کا اگلا حصہ کل ملاحظہ فرمائیے)

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین