کیا یہی مناسب وقت ہے ایک نئی ریاست کی تعمیر کا؟

پچھلے کئی سال میرا خیال یہی تھا کہ ہم سب مل کر اس نظام کو آہستہ آہستہ بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں، لیکن موجودہ حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد سے میں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوا-

زرداری صاحب کا مشہور مقولہ ہے کہ  جمہوریت بہترین انتقام ہے- اب تیسرا امپائر ان کا ہی دیا ہوا فارمولا استعمال کر رہے ہیں تو  پی پی پی کی چیخیں نکل رہی ہیں- 

میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ پچھلے کئی سال میرا خیال یہی تھا کہ ہم سب مل کر اس نظام کو آہستہ آہستہ بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں، لیکن موجودہ حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد سے میں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوگیا- اب میں مسلسل یہ بات کہہ رہا ہوں کہ موجودہ جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ہمیں مل کر دوسری ریاست کی تعمیر کرنی چاہیے- اکثر لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر کچھ  دوست جو سیاست اور آئین کی سمجھ رکھتے ہیں وہ یہ ضرور پوچھتے ہیں کے اب کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کے یہی مناسب وقت ہے ایک نئی ریاست کی تعمیر کا؟

اب سے پہلے مجھے یہ امید تھی کہ پی ٹی آئی جس کو زیادہ تر متوسط اور شہری طبقے کی حمایت حاصل ہے وہ اگر انتخابات جیت جائے تو شاید اس نظام کی بہتری اور ایک فلاحی ریاست کے ایجنڈے کو عملی جامع پہنا سکے- اسی امید پر میں نے بھی آٹھ سال پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، مگر پارٹی میں شامل ہوتے ہوئے بھی میں نے اکثر اس بات کا اظہار کیا کہ پارٹی کا سرمایہ بھی عمران خان ہیں اور پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان بھی ان سے پہنچے گا-

جب تک میں پارٹی میں رہا اس بات پر زور دیتا رہا کہ پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے تاکہ عمران خان کی ذات میں جو کمی ہے اسے انتظامی صلاحیت سے پورا کیا جا سکے، مگر کئی سال کوشش کے بعد یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ عمران خان ایک کمزور لیڈر ہیں اور کچھ خاص قسم کے لوگوں سے بہت جلد مرعوب ہو جاتے ہیں- یہ تمام لوگ تنظیم کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے اور انہوں نے کبھی اسے آگے بڑھنے نہیں دیا۔

مگر عمران خان سے زیادہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار پارٹی کے وہ حمایتی ہیں جنہوں نے اپنا وقت اور پیسہ دیا- یہ حامی ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے چاہے اس کے لیے اصولوں، ضابطوں اور یہاں تک کے اخلاقیات کو بھی قربان کرنا پڑے- 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی کے ہر کارکن کی بس یہی خواہش تھی کہ اقتدار چاہیے، مگر وہ بھول گئے کہ اگر ان کا مقصد پاکستان کو ایک فلاحی ریاست میں بدلنا تھا تو اقتدار کسی گٹھ جوڑ اور بے اصولی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا-

اس مرحلے پر ان سے تین غلطیاں سرزد ہوئیں- پہلی یہ کہ ایک شخصیت پر بھروسہ کیا جبکہ تنظیم کی تعمیر کو موخر کر دیا اور جو تھوڑی بہت تنظیم تھی بھی اسے بھی برباد کر دیا- دوسری یہ کہ دوسری پارٹیوں کے وہ لوگ جن کے بارے میں عوام کی رائے اچھی نہیں تھی انہیں نہ صرف پارٹی میں قبول کیا بلکہ انہیں پارٹی معاملات بھی سپرد کر دیے- تیسری غلطی یہ کہ تیسرے امپائر سے شراکت داری کی  جس سے حکومت حاصل کرنے کا راستہ تو ضرور ہموار ہوا مگر پارٹی ممبر یہ بھول گئے کہ اقتدار کے کھیل میں تیسرے امپائر سے زیادہ تجربہ کار کوئی نہیں- ان کے پاس تنظیم بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور روابط بھی- تیسرا امپائر کسی اور کے لیے نہیں اپنے مفاد میں اقتدار حاصل کرتا ہے-

عمران خان واحد سیاستدان نہیں ہیں ان سے پہلے نواز شریف اور بینظیر بھی یہ سمجھتی رہیں کہ تیسرے امپائر سے گٹھ جوڑ کے بعد جو اقتدار حاصل ہوگا، اس میں وہ اپنے اختیارات کا استعمال کر سکیں گے- زرداری صاحب کا مشہور مقولہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے- اب تیسرا امپائر ان کا ہی دیا ہوا فارمولا استعمال کر رہے ہیں تو پی پی پی کی چیخیں نکل رہی ہیں، مگر بار بار زخم کھانے کے بعد بھی ہمارے سیاستدان سبق نہ سیکھ سکے- آج ہم ایک دائرہ مکمل کرکے ایک دفعہ پھر جمہوریت کے نام پر ایک استحصالی نظام میں رہ رہے ہیں جہاں صرف بااثر طبقات ملکی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عام عوام صرف قربانی دینے اور بوجھ اٹھانے کے لیے رہ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی ایک سیاسی تنظیم کے طور پر نہ پنپ سکی اور اس حکومت کی ناکامی کا مطلب ہے کہ متوسط طبقہ جو پی ٹی آئی کے ساتھ تھا، اس ملک کو بدلنے میں ناکام ہو چکا ہے- دوسری جماعتیں جو کئی دفعہ باریاں لے چکی ہیں ان کے پاس اصلاحات کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ان میں صلاحیت ہے- بلدیاتی نظام میں نہ کوئی صلاحیت ہے، نہ اختیارات ہیں اور نہ ہی انہیں وسائل دیئے جاتے ہیں- غرض یہ کہ موجودہ نظام کا ہر حصہ نہ عوام کے لیے کچھ کر سکتا ہے اور نہ ان سے کوئی امید لگائی جا سکتی ہے۔

اب ہمیں ایک عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو ایک ایسا نظام وضع کرے جس سے پاکستان کے بہتریں دماغ سیاست میں حصہ لے سکیں، ان کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہو اور وہ بلا تفریق ہر شہری کے لیے ریاست کے وسائل مساوی بنیادوں پر استعمال کریں۔

............................

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ادارہ مخالف رائے پر مبنی تحریر کو بھی یہ جگہ دے سکتا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ