قادر بلوچ جیسے لوگ سیاست انجوائے کرنے آتے ہیں: تجزیہ کار

سابق صحافی اور بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرمنظوربلوچ کا کہنا ہے کہ سیاست چونکہ جدوجہد اورقربانی کا نام ہے اس لیے اس میں اکثروہ لوگ ثابت قدم رہتے ہیں جو ایسی صورتحال کوبرداشت کرسکتے ہیں۔ 

(فیس بک)

مسلم لیگ ن کے سابق صدر جنرل(ر) عبدالقادربلوچ نے پچیس اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کے بعد پارٹی قائد نوازشریف کے بیانیہ کو بنیاد بناکر پارٹی سے استعفیٰ دینے کااعلان کیاہے۔ 

 نجی ٹی وی چینل کو دئیے گئے بیان میں قادر بلوچ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے افواج پاکستان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ اسی بنیاد پر مسلم لیگ ن سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ 

 ان کا مزید کہنا تھا کہ میں خود فوجی رہاہوں، یہ سب ناقابل برداشت ہے۔انہوں نے کہا کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیاہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کروں یا سیاست سے کنارہ کش ہوجاؤں۔ 

 ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے سابق صحافی اور بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرمنظوربلوچ سمجھتے ہیں کہ سیاست چونکہ جدوجہد اورقربانی کا نام ہے۔ اس لیے اس میں اکثروہ لوگ ثابت قدم رہتے ہیں جو ایسی صورتحال کوبرداشت کرسکتے ہیں۔ 

منظوربلوچ کے بقول: جنرل (ر) قادربلوچ جیسے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاست میں صرف انجوائے کرنے اور ماحول کی تبدیلی کے لیے آتے ہیں۔ ان کے جانے سے پارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ 

 منظور بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے قربانی دینے والے قائدین موجود ہیں، اب وہ سامنے آئیں گے اور پارٹی کو مضبوط کریں گے۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق قادر بلوچ اور ثنااللہ زہری جیسے لوگ سیاست میں سختی برداشت نہیں کرسکتے۔ 

 منظور بلوچ کا ماننا ہے کہ پی ڈٰی ایم جلسے نے قادر بلوچ اور ثنااللہ زہری کو موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ پارٹی سے کنارہ کش ہوجائیں کیوں کہ موجودہ صورتحال کا مقابلہ قربانی دینے والے کارکن ہی کرسکتے ہیں۔ 

 منظوربلوچ کے مطابق:  یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کو للکارا ہے۔ اور اب دونوں فریقین کے لیے واپسی کا راستہ مسدود ہورہا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مستقبل میں کیا صورتحال سامنے آسکتی ہے اس حوالے سے منظوربلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں دونوں فریقین خوفزدہ ہیں۔ کیوں کہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور کسی چیز کا چھپانا ناممکن ہے۔ 

پی ڈی ایم پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی لائی ہے۔ پروفیسر منظور بلوچ نے بتایا کہ اب مرکز کے بجائے علاقائی پارٹیوں کا رول سامنے آیا ہے۔ 

منظوربلوچ کے مطابق: مرکزیت کے خلاف آواز بلند کرنے سے ملک میں وہ جماعتیں مضبوط ہورہی ہیں۔ جیسے سندھ میں پیپلزپارٹی ،پنجاب میں مسلم لیگ ن اور بلوچستان میں نیشنلسٹ جماعتیں ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آئندہ فیصلے علاقائی جماعتیں ہی کریں گی۔ 

منظوربلوچ کا ماننا ہے کہ چونکہ سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام میں ہیں سابقہ ادوار کی طرح اب کوئی بات کرکے عوام کو دھوکہ دینا ممکن نہیں رہا۔ 

منظوربلوچ نے بتایا کہ جہاں ایک طرف مرکزیت کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے اور مستقبل میں ہوسکتا ہے کہ نئے عمرانی معاہدے کے حوالے سے بھی مطالبہ سامنے آجائے۔ 

 دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سنیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے لیفٹننٹ جنرل(ر) قادر بلوچ کے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اگر جمہوری اور آئینی بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے توگھر میں بیٹھیں اس سے ان کی اپنی سیاست تباہ ہوجائے گی۔   

نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قادر بلوچ کو کئی سال سے جانتا ہوں انہوں نے کسی موقع پر بھی تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان میں گذشتہ ادوارمیں بعض سیاسی رہنماؤں کو دیوار سے لگایا گیا اور سیاست میں ایسے لوگ شامل ہوئے جن کا سیاست سے زیادہ تعلق نہیں رہا بلکہ وہ قبائلی اثر ورسوخ زیادہ رکھتے تھے۔ جن میں سے نواب ثنااللہ زہری بھی تھے جونہ صرف مسلم لیگ ن کا حصہ بنے بلکہ وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔ جس کے باعث قربانی دینے والے کارکن ناراض بھی رہے۔ یہ حالات ان کے لیے بھی موافق ہیں کہ وہ دوبارہ آکر پارٹی کو مضبوط کریں۔ 

 مسلم لیگ کے سابق صوبائی صدرلیفٹننٹ جنرل(ر) عبدالقادربلوچ کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی کو چھوڑنے اورآئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے کریں گے نیز انہوں نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکاونٹ موجود نہیں ہے۔

 ادھربلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سربراہ اوروزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے قادر بلوچ کے استعفیٰ کے حوالے سے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے درست فیصلہ کیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان