ملیے بلوچستان کی پہلی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسانی سے

صابرہ اسلام نے 2009 میں قانون کا شعبہ اختیار کیا تھا اور بلوچستان کی پہلی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے ان کی خصوصی گفتگو

بلوچستان کی محتسب برائے انسداد ہراسانی صابرہ اسلام۔ تصویر:انڈپینڈنٹ اردو

’بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں یوں تو خواتین کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر دور جدید میں ملازمت یا کاروبار کرنے والی خواتین کے ساتھ اکثر ہراساں کرنے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں خواتین محتسب کی تقرریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔‘

یہ کہنا تھا ایڈوکیٹ صابرہ اسلام کا جو حال ہی میں بلوچستان کی پہلی صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی تقرر کی گئیں ہیں۔

ملازمت کی جگہوں پر خواتین کی ہراسانی کے خلاف تحفظ کے لیے 2010 میں وفاقی قانون نافذ ہونے کے بعد بلوچستان میں بھی 2016 میں ایسا صوبائی قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت بلوچستان میں یہ محتسب برائے ہراسانی کی پہلی تقرری ہے۔

صابرہ اسلام نے 2009 سے قانون کے شعبے سے منسلک ہیں اور بلوچستان کی پہلی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے 2 اپریل کو محتسب کا عہدہ سنبھالا اور اپنے دفتر کے قیام کی تیاریوں میں لگی ہیں۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں صابرہ اسلام نے کہا کہ وہ بطور خاتون محتسب ملازمت کی جگہوں پر ہراساں ہونے والی خواتین کے تحفظ اور حقوق کے لیے موجود قانون پر عمل درآمد کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ 

صابرہ اسلام اس سے قبل بھی بلوچستان میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش رہی ہیں اور وہ بلوچستان میں بسنے والی خواتین کے مسائل اور ان کے  حل سے بخوبی واقف ہیں۔ 

 انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں صوبائی محتسب برائے ہراسانی کا تقرر سب سے آخر میں ہوا ہے۔ اس سے قبل 2012 میں پنجاب، 2013 میں سندھ اور 2019 کے اوائل میں خیبر پختونخوا میں یہ تقرریاں ہو چکی ہیں۔  

صابرہ اسلام کے مطابق یہ قانون لازمی کرتا ہے کہ خواتین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو اور ان کو مساوی مواقع ملیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ بطور صوبائی محتسب برائے ہراسانی ان کا کام مشکل ہے اور راستہ کٹھن ہے مگر وہ ایسے کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو آنے والوں کیلئے مثال بنیں۔

بلوچستان کے ہراسانی سے تحفظ کے قانون کے تحت ملازمت کی جگہوں پرخواتین پر کسی قسم کی آواز کسنا یا  کوئی ایسا عمل کرنا جو خواتین کی عزت نفس کو مجروح کرے، قابل سزا ہے۔

صابرہ نے بتایا کہ ہراساں کرنے کے کسی عمل کےخلاف کوئی بھی خاتون براہ راست صوبائی محتسب یا فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے پاس شکایت درج کرسکتی ہیں۔

ان کے مطابق اس قانون کے تحت مختلف سزائیں بھی مقرر ہیں اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو (تعزیرات پاکستان کی) دفعہ 509 کے تحت تین سے پانچ سال تک قید اور ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے یہ سزائیں فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی عدالت دے سکے گی۔ 

صابرہ اسلام نے مزید کہا: ’میں پہلے اپنا آفیس قائم کروں گی جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ اس کے بعد تمام سرکاری اور نجی اداروں میں اس قانون کے تحت گوریونس کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔‘

بلوچستان میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں یہ امید ظاہر کر رہی ہیں کہ صوبائی قانون  پر عمل درآمد کے لیے خاتون محتسب کی تقرری سے تعلیمی اداروں، سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر اور این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین کو کسی حد تک تحفظ حاصل ہوگا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر