وادی سندھ تہذیب کی پر اسراریت سو سال بعد بھی برقرار

موہنجو دڑو اور ہڑپہ کو دریافت ہوئے 2020 میں سو سال ہو چکے ہیں مگر ابھی تک بہت سے سوال حل طلب ہیں۔

موہن جودڑو کی بہت سی گتھیاں سلجھنا ابھی باقی ہیں (  Junhi Han - CC)

وادیِ سندھ کی تہذیب سے متعلق سب سے بڑا معمہ یہ ہے کہ اس کے رسم الخط کو پڑھنے میں آج تک کامیابی نہیں مل سکی۔ لیکن ماہرین یہ بات مان گئے ہیں کہ جب اہرام مصر کا وجود نہیں تھا تب بھی وادی سندھ کی تہذیب نہ صرف اپنے عروج پر تھی بلکہ یہاں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور ایک آزاد خیال قسم کا معاشرہ موجود تھا۔

پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے کم از کم دس لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی اس تہذیب کے شہراڑھائی ہزار سال پہلے بھی اس قدر منصوبہ بندی سے بنائے گئے تھے کہ اس کا تصور آج کے شہروں میں بھی ملنا محال ہے۔

ہزاروں سال قبل جب یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی تو یہ اس وقت کی مصری اور میسو پوٹامیہ دونوں تہذیبوں کے مجموعی حجم سے بھی بڑی تھی۔ اس کے وسیع و عریض شہر ان دریاؤں کے کنارے پر آباد تھے جو آج بھی پاکستان اور انڈیا میں بہہ رہے ہیں۔

معروف برطانوی ماہر آثار قدیمہ چارلس میسن نے 1820 کی دہائی کے آخر میں اسے اس وقت دریافت کیا جب وہ ہڑپہ گئے اور انہوں نے یہاں مٹی کے ڈھیروں پر ملنے والی اینٹوں اور ٹھیکریوں کا معائنہ کیا۔ اس کے 30 سال بعد 1856 میں جب یہاں سے ریلوے لائن گزاری گئی تو ان پتھروں کو ریل کی پٹری کے لیے استعمال کیا گیا۔

1920 میں ماہرین آثارقدیمہ نے ہڑپہ اور موہنجو داڑو میں باقاعدہ کھدائیاں کیں تو وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے پردہ آشکار ہوا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کھارگ پور اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کے مطابق انہیں حال ہی میں ایسے شاہد ملے ہیں جن کے مطابق یہ تہذیب 8000 سال پرانی ہے جبکہ اس سے قبل اسے 5500 سال تک قدیم خیال کیا جاتا تھا۔ 25 مئی 2016  کو نیچر میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی اسے مصری اور میسو پوٹامیہ کی دونوں کی تہذیبوں سے قدیم تر خیال کیا گیا تھا۔

موہنجو داڑو جو اس تہذیب کا سب سے بڑا شہر تھا یہاں ایسے بڑے سوئمنگ پول کے آثار ملے ہیں جس کی چنائی پختہ اینٹوں سے کی گئی تھی اور اس کے ارد گرد کپڑے بدلنے کے کمرے بھی موجود تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر صفائی پسند تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موہنجو داڑو سے ملنے والے کتبے، تصاویر اور سکوں پر کندہ رسم الخط ایسی تصویروں اور نشانات پر مشتمل ہیں جسے آج تک پڑھنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ یہ قدیم رسم الخط ماہرین کے لیے آج بھی ایک معمہ ہے۔

ہڑپہ، موہنجو داڑو اور راکھی گڑھی کی جب کھدائیاں کی گئیں تو ماہرین کو اناج کے بہت بڑے بڑے گودام ملے جو اینٹوں اور لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ یہ تمام گودام دریا کے کنارے پر بنائے گئے تھے تاکہ اجناس کی ترسیل با آسانی ہو سکے۔ جبکہ ہڑپہ کے گودام کے ساتھ اناج پیسنے والی چکیاں بھی موجود تھیں۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ اشیا دوسرے علاقوں کو دریائی اور سمندری راستوں سے بھیجی جاتی تھیں۔

بھارتی گجرات کے علاقے لوتھل کا شمار بھی وادی سندھ کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں 37 میٹر طویل ایسی گودی دریافت ہوئی ہے جو اب تک قدیم ترین مانی جاتی ہے۔ یہاں سے ہڑپہ اور بھارتی شہر گجرات کے درمیان سبرمتی دریا کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔ کیونکہ ان دنوں صحرائے کچھ بحیرہ عرب کا حصہ تھا۔

کالی بنگن جس کا مطلب ’کالی چوڑیاں‘ ہے، یہ دریائے گھاگھرا کے کنارے پر آباد تھا جو اب راجستھان انڈیا میں واقع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے دنیا میں کاشت کاری کے لیے ہل اسی شہر میں چلایا گیا تھا۔ جبکہ یہاں کئی آتش دان بھی پائے گئے ہیں جس سے یہ قیاس بھی کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ آگ کی پرستش کرتے تھے۔

ماہرین کو ایسے شواہد بھی یہاں ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کی تہذیب کے لوگ کھلونوں اور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ پتھروں پر چوکور خانے بنے ہوئے ہیں جو شاید شطرنج کی ہی ابتدائی شکل ہو۔ جبکہ یہاں لڈو کے دانے سے مشابہہ چھ اطراف والا پتھر بھی ملا ہے جو اسی طرح کے کسی کھیل میں استعمال ہوتا ہو گا۔

موہنجو داڑو میں ایک لکیر میں بنے ہوئے گھراور غسل خانے، سیدھی گلیاں، گلیوں میں لگے کوڑے دان اور ان میں پانی کی نکاسی کے لیے ڈھکی ہوئی نالیاں اور کم از کم سات سو پانی کے کنویں یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ وادی سندھ کے لوگ شہروں کی آباد کاری باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرتے تھے۔

گھروں سے ملنے والی اشیا میں مور تیاں، مالائیں، زیورات اور برتن شامل تھے۔ شہر میں امرا اور غریب دونوں طبقے موجود تھے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ وہاں عبادت گاہیں نہیں تھیں اور نہ ہی کسی حکمران کے محل کے نشانات ملے ہیں۔ یہاں بہت معمولی ہتھیار ملے ہیں جو ا س بات کی دلیل ہیں کہ یہاں کے لوگ پر امن تھے اور بقائے باہمی کے قائل تھے۔

سندھ کی تہذیب کے شہروں میں جو چیزیں کثرت سے ملی ہیں ان میں زیورات شامل ہیں جو یہاں کے لوگوں کے فیشن سے محبت کے عکاس ہیں، جبکہ کپاس کو رنگ کرنے کے کارخانے بھی موجود تھے۔

کاسمیٹکس میں شگرف، سندور اور سرمہ بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ یہاں سے ایسی مورتیاں بھی ملی ہیں جو ابرق اور خاص قسم کے گارے سے بنائی گئی ہیں۔ ان میں پیتل کی بنی ہوئی ایک ایسی لڑکی کی مورتی بھی ہے جو بظاہر رقص کر رہی ہے۔ داڑھی والا ایک بادشاہ اور گارے سے بنی ہوئی بیل گاڑی بھی ہے۔

ہڑپہ اور اس کے ارد گرد کے شہروں سے ایسی مہریں ملی ہیں جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ یہاں تجارت کا ایک باقاعدہ نظام تھاجو پیسے کی بجائے جنس کے بدلے جنس پر مبنی تھا اور یہ تجارتی روابط میسو پوٹامیہ تک کے علاقوں سے استوار تھے۔ میسو پوٹامیہ کے شہر اُر سے ملنے والی مالائیں، برتن اور ہتھیار ویسے ہی ہیں جو ہڑپہ سے ملے ہیں۔

ہڑپہ سے ایسی کندہ مہریں ہزاروں کی تعداد میں ملی ہیں جن پر مہادیو پاشوپتی کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جو شیوا اور ویدک کے سب سے ابتدائی شواہد ہیں۔ ایک اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ہڑپہ کے لوگ دیوتاؤں کی بجائے دیویوں کے پجاری تھے یہاں بڑی تعداد میں مورتیاں ملی ہیں۔

ہڑپہ میں ایسے 57 قبرستان بھی ملے ہیں جہاں چوکور قبریں موجود ہیں جن میں ان کی اشیا بھی ساتھ ہی دفن کی گئی ہیں۔ موہنجو داڑو سے اجتماعی طور پر 44 انسانی ڈھانچے بھی ملے ہیں جن میں ایک ماں، باپ اور ان کا بچہ بھی شامل ہے جنہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ کیسے مرے اس حوالے سے ماہرین مختلف قیاس کرتے ہیں۔

ہڑپہ اورموہنجو ڈارؤ میں اچانک زندگی کیسے ختم ہو گئی؟ ا س حوالے سے ماہرین ابھی تک کسی جنگ، آگ یا سیلاب کے شواہد تک نہیں پہنچے بلکہ ایسے لگتا ہے کہ سندھ، گھاگھرا اورہاکڑہ دریاؤں کے رخ بدلنے سے ان شہروں کی معیشت تباہ ہو گئی اور رفتہ رفتہ یہاں زندگی معدوم ہوتی چلی گئی۔

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ