ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان جو خلائی مخلوق پر یقین رکھتے ہیں

متنازع پروفیسر ایوی لوئب اپنی نئی کتاب میں کہتے ہیں کہ نامعلوم کے سمندر میں ہمارا علم محض ایک جزیرے کی طرح ہے اور دریافت کرنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

آوی لوئب کو ان کے نظریات کی وجہ سے تنازعات کا نشانہ بنایا گیا (کری ایٹو کامنز)

ایوی لوئب کو پروا نہیں کہ لوگ انہیں منحرف کہتے ہیں۔ وہ اس کی وضاحت ایسے کرتے ہیں: سکول کے زمانے میں ایک دن وہ اپنی کلاس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ لڑکے اپنے بنچوں پر ناچ رہے تھے جسے انہوں نے نظر انداز کرتے ہوئے نظریں پھیر لیں۔

جب ٹیچر کمرے میں داخل ہوئیں تو انہوں نے کہا، ’ایوی کو دیکھو وہ بہت تمیز دار لڑکا ہے۔‘ انہوں نے گذشتہ دنوں مجھے بتایا کہ ’میں خصوصی طور پر کوئی اچھا لڑکا نہیں تھا۔ میں بس سوچ رہا تھا کہ ایسے اچھل کود ٹھیک ہے یا نہیں۔ میں وہ نہیں کرتا جو باقی سب کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ میں اس کے بارے میں خود سوچنا چاہتا ہوں۔‘

وہ تب سے لے کر گذشتہ 50 سے زائد سالوں میں بہت کم تبدیل ہوئے اور 19 اکتوبر 2017 کو پین سٹارس دوربین کی مدد سے امریکی ریاست ہوائی کی رصد گاہ ہلیکالا کے مقام سے دیکھے گئے ناقابل شناخت بین الستارہ شے آؤمواموا کی نظام شمسی میں آمد کے بعد سے اسرائیلی امریکی نظریاتی ماہر طبیعیات کے لیے منحرف (maverick) کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔

اگلے سال پروفیسر لوئب، جو ہاورڈ یونیورسٹی میں فرینک بی بئیرڈ جے آر پروفیسر آف سائنس ہیں، ایک تحقیقی مضمون کی وجہ سے دنیا بھر کی شہ سرخیوں کا حصہ بنے جس میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ ممکن ہے یہ چیز نہایت باریک شمسی بادبان ہو جو کسی غیر ارضی ترقی یافتہ تہذیب نے تیار کیا ہو۔

اس نقطہ نظر نے انہیں سائنس کے قابل قبول نظریاتی دائرے کے مخالف لا کھڑا کیا جو آؤمواموا کو فطری جسم مانتا ہے۔ اس بات کو تین سے زیادہ سال گزر چکے لیکن عام رجحان سے لاپروا  لوئب کی کتاب ’غیر ارضی وجود: زمین سے ماورا دانشمند زندگی کی پہلی نشانی‘ گذشتہ ماہ اشاعت پذیر ہوئی۔

لوئب کی ابتدائی پرورش اسرائیل کے ایک گاؤں میں ہوئی اور وہ ہمیشہ سے سائنس دان بننے کے خواب نہیں دیکھتے آئے کیونکہ شروع میں انہیں فلسفے سے گہری دلچسپی تھی، اگرچہ ان دونوں شعبوں میں گہرے ربط سے وہ انکار نہیں کرتے۔

وہ کہتے ہیں' کسی چھوٹی سی چیز پر باریک بینی سے کام کرتے ہوئے لوگ یقیناً نہ صرف بہترین سائنس دان اور عالمی سطح کے ماہر بن سکتے ہیں بلکہ نئی چیزیں دریافت بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات طبیعیات میں نظریاتی مسائل سر اٹھاتے ہیں جن سے نبٹنے کے لیے وسیع تناظر کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

ان کے بقول سائنس میں بڑی ایجادات انہی لوگوں نے کیں جو ’وسیع تناظر‘ کے حامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ لگے بندھے راستوں سے ہٹ کر سوچنے سے ’متبادل توجیہات‘ سامنے آتی ہیں جس کے لیے وہ البرٹ آئن سٹائل کی مثال پیش کرتے ہیں جنہوں نے کارل مارکس جیسے عظیم فلسفیوں کو پڑھنے کے بعد نظریہ اضافت دریافت کیا۔

یہ سب باتیں ہمیں غیر محسوس طریقے سے سابقہ 1I/2017 U1 اور زیادہ معروف نام آؤمواموا کی جانب لے جاتی ہیں جس کا ہوائی زبان میں مطلب ہے ’سکاؤٹ۔‘

ماہرین اس چیز کا محض 34 روز تک جائزہ لے سکے جس کے بعد یہ دوربین کی مدد سے نظر آنا بند ہو گیا اس لیے ان کی حاصل کردہ معلومات محدود نوعیت کی ہیں۔ اس امر کے متعلق بہت کم معلومات ہیں کہ آؤمواموا کہاں سے آیا اور اس کی کیمیائی ترکیب کیا ہے۔ اندازوں کے مطابق یہ تقریباً نصف میل لمبا، گول یا سگار کی طرح دونوں کونوں سے بتدریج پتلا اور اپنی چوڑائی سے 10 گنا زیادہ طویل ہے۔ نظام شمسی سے نکلنے کے بعد اس کا رخ تاروں کے پیگاسس نامی ستاروں کے جھرمٹ کی طرف ہو گا۔

آؤمواموا دم دار ستارہ نہیں لیکن کسی طاقت نے اسے سورج سے دور دھکیل دیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ طاقت کس کی فراہم کردہ تھی۔ جب پہلی بار آؤمواموا 54 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے دیکھا گیا تب سے مسلسل تنازعات برپا ہیں کہ آخر یہ تھا کیا۔

لوئب سائنس دانوں کی تین طرح کی درجہ بندیاں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو عملی طور پر سائنسدان نہیں ہیں۔ وہ اخبارات میں مضامین اور بلاگ یا مقبول عام کتابیں لکھ رہے ہیں اور میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ عملی سائنس دان نہیں ہیں۔

’اس کے بعد مرکزی دھارے کے وہ لوگ ہیں جو حسب عادت کہتے ہیں کہ ہمیں جزئیات کی پروا نہیں جو ممکن ہے انہیں اپنے محدود سے مخصوص دائرے میں مطمئن رکھے لیکن موضوع سے وابستہ بہت سے انوکھے انکشافات سے وہ محروم رہتے ہیں۔

پھر وہ لوگ ہیں جو موضوع کی جزئیات پر واقعی توجہ دیتے ہیں اور بہت انوکھی جزئیات سامنے آتی ہیں۔‘

نظام شمسی میں موجود ان گنت دم دار ستاروں اور سیارچوں سے موازنہ کرنے کے بعد لگتا ہے کہ آؤمواموا واضح طور پر خارجی چیز ہے۔ لوئب کہتے ہیں، ’ستاروں کی طرح یہ دم دار نہیں لیکن اس کے باوجود کسی طاقت نے اسے سورج سے دور دھکیل دیا۔

یہ واضح نہیں کہ یہ طاقت کس نے فراہم کی اور اس کی ساخت بھی بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اس کے متعلق بہت سی عجیب و غریب باتیں کی گئیں جن میں سے ایک نظریے کے مطابق ممکنہ طور پر اس کی سطح ہموار ہے اور اس بنا پر لوگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ فطرت کے خزانے سے ہے۔‘

یہ سب لوئب کے بقول مرکزی دھارے کے سائنسدانوں کے بے تکے نظریات کے سوا کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اس کی دم اس لیے نہیں دیکھ سکتے کہ وہ خالص ہائیڈروجن کی بنی ہوئی ہے اور اس درجہ شفاف ہے کہ نظر نہیں آتی لیکن موجود ہوتی ہے۔ لیکن لوئب کے بقول ہائڈروجن کا برفیلا گولہ راستے میں ہی تیزی سے بھاپ بن جاتا ہے اور اس سفر میں اس کا برقرار رہنا ممکن ہی نہیں۔

لوئب کہتے ہیں، ’ایک رائے تھی کہ یہ گرد و غبار کا بادل ہے جو سورج کی شعاعیں منعکس کرتا ہے اور پھر اس سے زور پکڑتا ہے۔ پھر وہی بات کہ اس کا برقرار رہنا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ چیز بحیثیت مجموعی اس قدر ملائم ہونی چاہیے کہ ہوا سے 100 گنا کم ہو۔‘

لوئب بریک تھرو سٹار شوٹ کی مجلس مشاورت کے سربراہ بھی ہیں جو 4.37 نوری سال دور الفا سینٹاؤری کی جانب بھیجا جانے والا انتہائی عظیم تحقیقاتی منصوبہ ہے، جس میں ہو بہو ویسی ہی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی جو ان کے خیال میں روشنی کے ذریعے چلنے والے بادبان سمیت آؤمواموا کو چلانے کا سبب بنی۔

جب ان سے واضح مماثلت کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا، ’میرا تخیل میرے تجربے تک محدود ہے۔ یہ حقیقت کہ میں روشنی کے ذریعے چلنے والے بادبان کی ٹیکنالوجی کے منصوبے میں شامل تھا میری ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور مجھے ایسا سوچنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس لیے میں اس کا انکار نہیں کروں گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ممکن ہے کہ یہ ایسی ٹیکنالوجی ہو جو باقی تہذیبیں عام طور پر استعمال کرتی ہوں۔‘

پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالب علم شموئیل بیلی کے اشتراک سے لکھے ان کے انقلابی مضمون نے 2018 میں چھپتے ہی کھلبلی مچا دی۔

’ہم نے ابتدائی طور پر تجویز پیش کی کہ ممکن ہے ایک فرق کے ساتھ یہ کشتی پہ لگے بادبان جیسا ہو کہ یہ آگے بڑھتے ہوئے ہوا یا ہوائی مالیکیولز کے بجائے روشنی یا شمسی شعائیں منعکس کرے اور یہی روشنی کی مدد سے چلنے والا بادبان ہے۔ ہم ابھی اس ٹیکنالوجی کو خلائی تحقیق کے لیے تیار کر رہے ہیں جبکہ ممکن ہے یہ پہلے سے وہاں موجود ہو اگر ہم سے زیادہ کوئی ترقی یافتہ تہذیب اُدھر وجود رکھتی ہے۔‘

لوئب کا خیال ہے کہ وہ تمام لوگ جو کہتے ہیں کہ اس چیز کی بنیاد فطرت ہے وہ ایسی چیز پر اصرار کر رہے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی تو اسے مصنوعی سمجھ لینے میں کیا حرج ہے؟ ان کے بقول ’دراصل آؤمواموا کی تمام خصوصیات پر غور کرنے سے یہ وضاحت زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔‘

لوئب کے نظریے کا نچوڑ یہ ہے کہ آؤمواموا ممکنہ طور پر ایک ملی میٹر چوڑائی کی بہت ہی پتلی چیز ہے جو اسے شمسی توانائی منعکس کرتے ہوئے چلنے کے قابل بناتی ہے۔ اپنی بات کے حق میں وہ ایک اور کم پیچیدہ مثال پیش کرتے ہیں کہ ’چند ماہ پہلے ستمبر 2020 میں پتہ چلا کہ ایک اور چیز نظر آئی ہے۔

یہ سورج کی طرف محو سفر تھی۔ شمسی توانائی کے انعکاس کے باعث یہ بھی سورج سے دور دھکیل دی گئی اور اس کی بھی چمکتی ہوئی دم نہیں تھی۔‘

اس واقعے کے متعلق سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ 1966 میں چاند کی طرف بھیجے گئے مشن سرویئر کا سینٹور نامی اپر سٹیج بوسٹر راکٹ  تھا۔

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ اس کی کھوکھلی اور باریک سطح تھی جس نے شمسی شعاوں کا انعکاس ممکن بنایا کیونکہ یہ سطح کافی بڑی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے اس چیز کو تیار کیا اور یہ مصنوعی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ آؤمواموا کو کس نے تخلیق کیا۔ ممکن ہے یہ بنیادی طور پر روشنی سے چلنے والا بادبان نہ ہو بلکہ کسی خلائی جہاز کا بیرونی ٹکڑا ہو جو الگ ہو گیا ہو یا کوئی ایسا آلہ ہو جو کسی دیگر مقصد کی تکمیل کے لیے ہو۔‘

لوئب زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ حتمی جوابات نہیں دے رہے ان کے بقول ’میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمارے پاس کافی شواہد نہیں ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بہت سنجیدہ امکان ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔‘

دو سال سے بھی کم عرصے کے دوران یوکرین کے شوقیہ ماہر فلکیات گینادیے بوریسوف نے ایک اور بین السیارہ جسم دیکھا جسے ان کے اعزاز میں بعد ازاں بوریسوف /21 کا نام دیا گیا۔ لوئب کہتے ہیں یہ جسم محض اس بات کی اہمیت جتلاتا ہے کہ اس کا پیش رو کتنی عجیب چیز تھا۔

وہ کہتے ہیں، ’بوریسوف محض ایک عام دم دار تارے کی طرح ہے جس میں کچھ بھی انوکھا نہیں اور لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ آپ کو قائل نہیں کرتا کہ آؤمواموا بھی ایک فطرتی چیز ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کو ایک پلاسٹک کی بوتل ملے جس کے بعد بہت سارے پتھر نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پلاسٹک کی بوتل بھی پتھر ہے۔‘

مضمون کی اشاعت کے بعد لوئب کو اپنے ہم پیشہ افراد کا نہ صرف توہین آمیز بلکہ مخاصمانہ رویہ برداشت کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں بہت سارے لوگ ان کے نظریے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن خود آؤمواموا سے وابستہ عجیب و غریب چیزوں کی متبادل وضاحت پیش نہیں کرتے۔

بالخصوص وہ عالمی خلائی سائنسی ادارے کے رسالے میں چھپنے والے مضمون جس کے مصنفین میں باقی لوگوں کے ساتھ بیلفاسٹ میں واقع کوئین یونیورسٹی کے آسٹرو فزکس ریسرچ سنٹر سے وابستہ مشیل ٹی بینسٹر اور میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ کے اسمیتا بھنڈارے شامل ہیں، کاحوالہ دیتے ہیں جس میں با اصرار کہا جاتا ہے کہ ’بحیثیت مجموعی تمام شواہد سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آؤمواموا خالص فطرتی چیز ہے۔‘

شیلفیڈ یونیورسٹی میں تھیوریٹیکل آسٹرو فزکس کی پروفیسر سائمن گڈون نے دی کنورسیشن میں یہ تک لکھا کہ لوئب ’ممکن ہے درست ہوں یا نہ ہوں اور ان کے خیال کو درست یا غلط ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن بالخصوص کسی تجربہ کار سائنسدان کی طرف سے ایسے دعوے بہت ساری وجوہات کی بنا پر سائنسی گروہ میں پسند نہیں کیے جاتے۔‘

لوئب ایسی تنقید پر اپنی رائے دیتے ہوئے آؤمواموا کے حوالے سے ایک سیمینار کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جب سیمینار ختم ہوا اور وہ کمرے سے نکلے تو ایک کولیگ ان کی طرف مڑ کر کہنے لگا، ’یہ چیز بہت ہی عجیب ہے کاش کبھی اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔‘

شکوک و شبہات کا یہ رویہ انسانیت کے اپنے بارے میں نقطہ نظر کے حوالے سے بہت اہم ہے، وہ کہتے ہیں ’ذہانت، غیر ارضی ذہانت اور تہذیب جیسے موضوعات کے متعلق لوگ اس یقین کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم بہت ہی منفرد اور خاص چیز ہیں کیونکہ یہ ان کی انا کے لیے باعث تسکین ہے۔‘

ان کی آؤمواموا کی وضاحت اور مشہور سائنس فکشن نگار آرتھر سی کلارک کے ناول ’رام سے ملاقات‘ (Rendezvous with Rama)کے درمیان سطحی مماثلتوں کے باوجود وہ سائنس فکش کے شوقین نہیں ہیں۔ لوئب کہتے ہیں، ’سائنس فکشن اور اڑن طشتریاں (یو ایف او) سائنس دانوں کے نزدیک غیر سائنسی ہیں کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں کہ ایسا نہ ہو یہ ان کے مباحث کو بے وقعت ثابت کر دیں۔‘

بہرحال لوئب بڑوں کی تنقید سے بے نیاز ہو کر حقائق کو سائنسی انداز نظر سے دیکھنے اور آزمودہ طریقہ کار اپنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ جب بات غیر ارضی تہذیبوں کے متعلق تحقیق کی ہو تو وہ خاص طور پر دو طریقوں کا ذکر کرتے ہیں: پہلی چیز فون پر گفتگو کی طرح ریڈیو سگنلز کی تلاش ہے اگرچے اس کے لیے دوسری طرف موجود فرد کو بھی اسی وقت متحرک ہونا چاہیے جب آپ بات کر رہے ہوں۔ دوسرا یہ کہ میل میں کسی خط کا انتظار کیا جائے۔

لوئب کہتے ہیں، ’اگر ڈیلیوری کو زیادہ وقت لگتا ہے تو اس کا مطلب سے شاید دوسری طرف موجود شخص متحرک نہیں ہے۔ اور یہ چیز قدیم عرصہ پہلے ماضی میں زندہ رہنے والی ثقافتوں کے متعلق بہتر نقطہ نظر مہیا کرے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے نقطہ نظر کو سپیس آرکیالوجی کہنے والے لوئب مزید کہتے ہیں کہ ’ہم مایا ثقافت کے لوگوں سے فون پر بات نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارے اردگرد اب موجود نہیں ہیں لیکن ہم ان کے عہد کی اشیا دریافت کر سکتے ہیں اور یہ ایسے ہی ہے جیسے خلا میں آثار قدیمہ کی دریافت ہو جہاں آؤمواموا جیسی چیزیں تلاش کی جا رہی ہوں جو نظام شمسی میں کہیں دور دراز سے داخل ہوئی ہے۔‘

لوئب کو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ’کسی غیر ارضی تہذیب کے حق میں ابھی تک دریافت کیے گئے شواہد میں سب سے زیادہ قابل یقین آؤمواموا ہے۔ آؤمواموا کے علاوہ عجیب و غریب ریڈیو سگنلز ہم تک پہنچے تھے لیکن وہ کبھی بھی اس سے مضبوط ثبوت نہیں تھے اور زیادہ امکان ہے کہ وہ ہمارے ماحول ہی سے اٹھے تھے۔ کوئی دوسری مثال نہیں جو اتنی امید افزا ہو۔‘

آخر کار آؤمواموا ایسی اکسانے والی ممکنہ دریافت ہے جو بنی نوع انسان کی کائنات کی سوجھ بوجھ میں انقلاب برپا کر دے گی اور جو لوئب کا بنیادی محرک ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سائنس بطور سائنس دان اپنے آپ کی تعریف یا خود کو چالاک ظاہر کرنے کا نام نہیں۔ یہ فطرت سے وابستہ نئی چیزوں کی دریافت اور چیزوں کی جانچ پڑتال سے فطرت کا طریقہ کار معلوم کرنے کا نام ہے۔ نامعلوم کے سمندر میں ہمارا علم محض ایک جزیرے کی طرح ہے اور بہت کچھ دریافت کرنے کو ابھی باقی ہے اور مجھے اس جستجو میں لطف آتا ہے۔‘

’غیر ارضی وجود: زمین سے ماورا ذہین زندگی کی پہلی نشانی‘ ہاؤٹن مفلن ہار کورٹ نامی اشاعتی ادارے سے اشاعت پذیر ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس