جب نواز شریف نے میانداد کو عمران خان کی ٹیم میں شامل کروایا

جاوید میاں داد کے ان فٹ ہونے کی وجہ سے کپتان عمران خان نے انہیں 1992 کے ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

(اے ایف پی)

1992 کے ورلڈ کپ کی جیت کا نشہ پاکستانی قوم کی رگوں میں آج بھی خون کی طرح دوڑ رہا ہے اور جب بھی کرکٹ کی بات ہوتی ہے تو 92 کے ورلڈکپ کی مثال دی جاتی ہے کیوں کہ اس ورلڈ کپ کی جیت نے تو اب کارکردگی کے معیار قائم کر دیے ہیں۔

اسی ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں اور اکثر وہ اپنی سیاسی ٹیم کی مثال کرکٹ ٹیم سے دیتے ہیں۔ کسی کو ’وسیم اکرم پلس‘ اور کسی کو انضمام الحق قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین بھی خاموش نہیں رہتے وہ کسی کوعمران خان کا منصور اختر گردانتے ہیں تو کسی کو زاہد فضل۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جو ٹیم لے کر گئے تھے اس میں بہت سے ناتجربہ کار کھلاڑی تھے اور بیٹنگ لائن بہت کمزور تھی۔ عمران خان کی اولین پسند سعید انور زخمی ہو گئے تھے جبکہ وقار یونس بھی سکواڈ کا حصہ نہیں بن سکے۔

زاہد فضل پر عمران کو بہت اعتماد تھا اور وہ اکثر کہتے تھے زاہد اور مشتاق احمد میرے خفیہ ہتھیار ہیں لیکن زاہد نے بہت مایوس کیا تھا۔

عمران خان کی مزید امیدیں وسیم اکرم سے وابستہ تھیں جو ان دنوں بہترین بولنگ فارم میں تھے اور انہوں نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔

لیکن بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ لیجنڈ کرکٹر جاوید میانداد آسٹریلیا جانے والی ٹیم میں ابتدائی طور پر شامل نہیں تھے کیونکہ ان دنوں مکمل فٹ نہیں تھے۔

پاکستان کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی قمر احمد بتاتے ہیں کہ عمران خان میانداد کی اس بیماری سے آگاہ تھے اس لیے انھیں ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

92 کے ورلڈ کپ کی کمنٹری ٹیم میں شامل واحد ایشیائی قمر احمد بتاتے ہیں کہ پاکستانی سکواڈ ورلڈ کپ سے دو ماہ قبل ہی آسٹریلیا پہنچ گیا اور میانداد کے بغیر پریکٹیس میچ کھیلنا شروع کر دیے۔ 

اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو جب پتہ چلا کہ میانداد ٹیم میں شامل نہیں تو وہ بڑے حیران ہوئے۔ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کپتان نے انہیں ڈراپ کیا ہے۔ انہوں نے بورڈ حکام کو حکم دیا کہ میانداد کو فوری طور پر آسٹریلیا بھیجا جائے۔

نواز شریف کا یہ فیصلہ عمران خان کو شاید پسند نہ آیا ہو کیونکہ وہ فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے چاہے وہ میانداد ہی کیوں نہ ہوں، لیکن نواز شریف کی یہ مداخلت ٹیم کے کام آ گئی۔

تقدیر شاید پاکستان کے حق میں تھی کہ سکواڈ میں تاخیر سے شامل ہونے والے میانداد بعد ازاں فتح گر بن گئے، وہی کھلاڑی جن کی فٹنس پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں ان کی بیٹنگ نے ورلڈکپ کے دوسرے بہترین بلے باز کا اعزاز حاصل کر لیا۔

نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز 456 بنائے تھے لیکن وہ ٹیم کو جتوا نہ سکے لیکن میانداد 436 رنز بنا کر دوسرے نمبر پر رہے اور فتح گر بن گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میانداد نے فائنل میں بھی رنز کیے اور ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا حالانکہ میانداد فائنل بھی سخت تکلیف کے عالم میں کھیلے تھے اور بار بار بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی جگہ عامر سہیل رننگ کرتے رہے تھے۔ تکلیف کے باعث میانداد فیلڈنگ کرنے بھی نہیں آ سکے تھے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم میں سربراہان مملکت کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل ایوب خان اور ضیا الحق بھی ٹیم کپتانوں کی تقرری میں دخل دیتے رہے تھے اور بعد میں آنے والے سربراہان نے بھی کافی حد تک مداخلت جاری رکھی۔

البتہ جو مداخلت نواز شریف نے کی تھی اس جیسی کامیاب مثال نہیں ملتی۔

ٹیم گر کر اٹھی

ورلڈکپ ٹیم کے ایک اور رکن رمیز راجہ کہتے ہیں کہ ’ٹیم شروع میں ہار رہی تھی اور مورال بہت نیچے تھا لیکن ہارتی ہوئی ٹیم کو دوبارہ کھڑا کرنے کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔‘

رمیز بتاتے ہیں کہ ’ہم دن بھر ٹریننگ کرتے اور شام کو نصرت فتح علی خان کی قوالی ’دم مست قلندر‘ سنتے رہتے تھے جو ان دنوں عمران خان کی پسندیدہ قوالی تھی۔‘

رمیز راجہ نے اس ورلڈکپ میں دو سنچریاں سکور کی تھیں۔ پہلے ہی میچ میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سینچری سکور جو کسی بھی پاکستانی کی ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کےخلاف پہلی سنچری تھی۔

آسٹریلیا کی مہربانی سے سیمی فائنل

ورلڈکپ کا ایک دلچسپ میچ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلا گیا جس میں مسلسل ہارنے والے کینگروز نے غیر متوقع طور پر ویسٹ انڈیز کو ہرا کر پاکستان کے لیے راستہ صاف کر دیا۔

ویسٹ انڈیز کو سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے صرف یہ میچ جیتنا تھا جو وہ ہار گئی تھی۔ یہیں سے پاکستان کو موقع مل گیا اور اس نے جیت کا سفر شروع کر دیا جو ٹرافی اٹھانے پر مکمل ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ