چار لاکھ پاکستانی جو بنگلہ دیش میں گھرے ہوئے ہیں

26مارچ 2021، بنگلہ دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے خصوصی تحریر

(اے ایف پی)

تاریخ کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ یہ نصابی کتابوں میں الگ کہانی سناتی ہے اور حقیقت میں کچھ اور۔ بچپن سے پڑھتے آئے کہ ملک خداداد کے دو بازو تھے۔ 1971 میں ہندوستان نے پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے۔ چپکے سے پاکستانی بازو کو مروڑ کر الگ کر دیا، یوں بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔

اس کے بعد کہانی ختم پیسہ ہضم اور خس کم جہاں پاک۔ کیونکہ جنگ میں شکست کی داستان سنانے کے لیے حوصلہ چاہیے اور ہار کے بعد کی تفصیلات سمجھنے کے لیے دل گردہ۔

50 سال بعد بنگلہ دیش بمقابلہ پاکستان

پاکستان کا مشرقی بازو توڑنے مین بھارتی کردار تو خیر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور آج گولڈن جوبلی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے نریندرا مودی کی شرکت اس بات کا اعتراف ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی بھارتی دخل اندازی کے بغیر شاید ممکن نہ ہوتی۔

مودی کا یہ دورہ ہم پاکستانیوں کو یقینا کسی کڑوے گھونٹ کی طرح لگ رہا ہے لیکن اب اس حقیقت کو تسلیم کرلینے مین ہی عافیت ہے کہ وہ ’بھوکے ننگے بنگال‘ جہاں ہر سال سیلاب تباہی مچا دیتے تھے جن کے پاس کھانے کو کچھ تھا نہ اچھا پہننے کو آج ہر لحاظ سے پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔ سیلاب بھی آتے ہیں اور کپاس اب بھی نہیں اگتی۔ لیکن بنگلہ دیش کا ڈیزاسٹر میمنجمنٹ بہترین ہے اور پاکستانی کپاس باآسانی بنگلہ دیش میں دستیاب ہے۔ بڑے بڑے مشہور پاکستانی برانڈز نے بجلی گیس کے مسائل سے تنگ آکر اپنی ٹیکسٹائل فیکٹریاں بنگلہ دیش منتقل کر لی ہیں۔ یوں وہ ملک جہاں کپاس پیدا ہی نہیں ہوتی وہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرررہی ہے اور ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

آزادی کے 50 برس بعد بنگلہ دیش میں فخریہ طور پردونوں ممالک کے درمیان موازنہ پیش کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف بنگلہ دیش کی برآمدات بلکہ ٹکے کی قیمت بھی پاکستانی روپے سے تقریبا دوگنی ہے۔ ترقی کا موازنہ کرنا ہو تو بنگلہ دیش آج تعلیم، صحت، معیشت ہر میدان میں پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ لیکن صد شکر ایک میدان ہے جس میں بنگلہ دیش ہمیں شکست نہیں دے سکا اور وہ ہے آبادی کا میدان۔ مشرقی بازو نے اپنی جس اکثریت کی بنیاد پر اودھم مچایا تھا، اسٹیبلشمنٹ کا ناک میں دم کیا تھا آج وہ اس میں ہم سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ 1971میں مشرقی بازو کی آبادی سات کروڑ اورمغربی حصے کی چھ کروڑ تھی۔ آج نصف صدی بعد بنگلہ دیش کی آبادی 16.4 کروڑ اور پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ یعنی ہماری ’پلٹن‘ نے بالآخر ’پلٹن میدان‘ کی شکست کا بدلہ لے ہی لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محصورین پاکستان، جنہیں ہم بھول بیٹھے ہیں

1952 میں زبان کے مسئلے سے شروع ہونے والے خوں ریز فسادات 25 مارچ 1971  میں آپریشن سرچ لائٹ تک پہنچے۔ اسی رات شیخ مجیب کو گرفتار کر کے راولپنڈی جیل پہنچا دیا گیا۔ اگلی صبح 26 مارچ کو عوامی لیگ نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی فوج نے اس بغاوت کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ہندوستان کی حمایت سے 16 دسمبر 1971 کو آزادی کا مشن مکمل ہوا۔

بنگلہ دیش ہر سال26مارچ کو اپنی آزادی کی سالگرہ مناتا ہے۔ آج وہاں گولڈن جوبلی تقریبات جاری ہیں۔ وہیں بنگلہ دیش کے مختلف جینیوا کیمپوں میں محصور بدترین زندگی گزارنے پرمجبور وہ پاکستانی موجود ہیں، جنہوں نے جنگ کے دوران پاکستانی فوج کی مدد اور حمایت کی۔ اس حمایت کا بدلہ یہ ملا کہ نصف صدی بعد آج بھی بنگلہ دیش میں قابل نفرت گردانے جاتے ہیں اور پاکستان میں نئی نسل ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔ ڈھاکہ سمیت رنگ پور، چٹاگانگ، سیدپور، کھلنا اور میمن گنج سمیت راجشاہی سمیت بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں 117 کیمپس قائم ہیں، جہاں چار لاکھ سے زائد محصورین زندگی گزار رہے ہیں۔

سات بائی آٹھ فٹ کی جھگیوں میں 20 سے 25 افراد رہائش پذیرہیں جنہیں چھت نصیب ہے نہ مضبوط دیواریں۔ پھٹے ہوئے کپڑوں سے آڑ بنائی گئی ہے۔ اس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، جو گرمیوں میں تندور اور سردیوں میں سرد ہوائیں سینکڑوں کی جان لے کے ہی ٹلتی ہیں۔ یہی نہیں کیمپس میں ساڑھے تین سو افراد کے لیے صرف پانچ واش رومز میسر ہیں۔ یعنی تقریبا ستر افراد کے لیے صرف ایک واش روم ہے اور بارش کے دوران بیت الخلا کی غلاظت کیمپوں کے راستوں میں پھیلی ہوتی ہے۔

پاکستان کی حمایت ہی ان کا جرم ہے

1947 میں ہندوستان کے مختلف حصوں سے مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی۔ یوپی بہار اور دوسرے حصوں سے بہت سے لوگ سندھ پنجاب آنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے اور نظام کا حصہ بن گئے۔ ان لوگوں کی مادری زبان بنگالی کے بجائے اردو تھی۔ 25 سال بعد حالات خراب ہوئے تو ان کی حمایت پاکستان کے ساتھ تھی۔ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے اور پاک فوج کی حمایت کرتے تھے۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کا جرم اتنا بڑا تھا کہ جنگ کے بعد وہ لوگ جن کی اپنی جائیدادیں تھیں انہیں شہریت دینے سے انکار کر دیا اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ ہو گیا۔ انہیں اقوام متحدہ کے مہاجر کیمپوں مین منتقل کر دیا گیا ان خاندانوں کے مطابق 71 کے خونی حالات میں نہ صرف اپنے گھر بار سے محروم ہونا پڑا بلکہ ایک بڑی تعداد بنگالیوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوئی۔

کیا محصورین کو بنگلہ دیشی شہریت مل چکی ہے؟

عام لوگ چھوڑیے پاکستان میں سیاست و صحافت سے وابستہ کئی لوگوں میں بھی یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ 2008 میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے محصورین کو کیونکہ شہریت دے دی ہے اس لیے اب یہ مسئلہ پاکستان کا درد سر نہیں رہا۔

 2008میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 1971 کے بعد کیمپوں میں پیدا ہونے والے’بہاریوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کیا گیا۔‘

اس فیصلے کے تحت انہیں شناخت نامے حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس شہریت کا اطلاق ان بزرگوں پر نہیں ہوتا جو 70، 75 برسوں سے اس زمین پر رہتے تو ہیں لیکن بنگلہ دیش بننے سے پہلے پیدا ہوئے۔ کیمپوں مین پیدا ہونے والے نوجوان بہاریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، آخر کار انہیں کسی ایک ملک کی شہریت حاصل ہو گئی۔ لیکن جلد انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یہ شہریت نہیں بلکہ دھوکہ تھا۔

شہریت اور پاسپورٹ ملا صرف ان بہاریوں کو جن میں سے اکثریت خوش قسمتی سے کیمپوں کے باہر مقیم تھی، کیونکہ شہریت کے لیے مستقل رہائش لازمی ہے۔ کیمپوں میں مقیم لوگوں کو مستقل رہائش سرٹیفیکٹ کے حصول میں اتنی مشکلات ہیں کہ شہریت کا حصول ان کے لیے آج بھی ممکن نہیں۔

کیمپوں میں مقیم لوگوں کو صرف شناخت کارڈ ملا جس پر وہ ووٹ تو دے سکتے ہیں لیکن شہری حقوق یا پاسپورٹ نہیں بنوا سکتے۔ ہم نے اس حوالے سے جاننے کی کافی کوشش کی کہ عدالتی حکم کے13سال بعد کتنے ’سٹرینڈڈ پاکستانیز‘ کو بنگلہ دیش کی شہریت مل سکی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود مستند اعداد و شمار نہ مل سکے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ پاکستان ’اب باضابطہ طور پر ان لوگوں کو پاکستانی نہیں مانتا۔ یہ وہ بدقسمت ہیں جنہیں پاکستانی حکومت پاکستانی سمجھتی ہے اور نہ بنگلہ دیشی حکومت انسان۔

پاکستان محصورین بنگلہ دیش کو واپس لانے کا پابند ہے

سابقہ مشرقی پاکستان مین پیدا ہونے والے پاکستانی صحافی اور نقاد احتشام احمد نظامی آج کل شکاگو میں مقیم ہیں جہاں سے وہ محصورین بنگلہ دیش کی تعلیم اور بنیادی ضروریات کے حوالےسے ایک این جی او بھی چلاتے ہیں اوراکثر ڈھاکہ کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں۔

احتشام صاحب کہتے ہیں کہ ’71 کے بعد پیدا ہونے والے لوگوں کو عدالت نے شہریت دینے کا حکم تو دیا لیکن کیا اس پر عمل ہوا؟ جی نہیں۔ شہریت ضرور ملی ہے لیکن زیادہ تر ان بہاریوں کو جو شروع سے کیمپوں کے باہر مقیم تھے۔ کیمپوں میں رہنے والے آج بھی صرف ’شناخت کارڈ‘ پر گزارا ک ررہے ہیں جس کے ذریعے وہ ووٹ تو ڈال سکتے ہیں لیکن نہ انہیں شہری حقوق حاصل ہیں نہ ہی وہ پاسپورٹ بنوا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش آج بھی ہر سفارتی ملاقات میں ان محصور پاکستانیوں کو واپس لے جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ رواں سال جنوری میں پاکستانی ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی کی بنگلہ دیشی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات میں ایک بار پھر پاکستان سے 71 کے واقعات پر معافی کا مطالبہ اور ان پاکستانیوں کو واپس لے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر یہ لوگ ان کے شہری ہیں، تو کون سا ملک اپنے شہریوں کو کسی دوسرے ملک بھیجنے کی بات کرتا ہے۔

احتشام نظامی کہتے بھی 1974 میں نئی دلی مین ہونے والے سہ فریقی معاہدے (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) کے تحت پاکستان اس بات کا پابند تھا کہ تین سال کے اندر بہاری کہلانے والے محصورین کو پاکستان میں آباد کرے گا۔ اس کے بعد 80 کی دہائی میں محصورین کی واپسی کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے بار بار متفقہ قراردادیں منظور ہوتی رہیں۔ چاروں صوبوں کے نمائندہ سینیٹروں کا وفد محصورین کے کیمپوں کا دورہ کر کے آیا تو واپس آکر سینیٹ مین محصورین کا حال بتایا، دل سوز تقریریں کیں۔ جس کے بعد سینیٹ نے محصورین کی جلد از جلد واپسی یقینی بنانے اور انہیں پنجاب میں آباد کرنے کی متفقہ قرار داد منظور کی۔

جونیجو دور حکومت میں ہر سال بجٹ میں محصورین کی واپسی کے لیے رقم مختص ہوتی رہی۔ 1988 میں رابطہ عالمی اسلامی میں محصورین کی واپسی کے لیے باقاعدہ فنڈ قائم کیا گیا، جس میں 25 کروڑ روپے رابطہ عالم اسلامی نے اور 50 کروڑ روپے پاکستان نے دیے جبکہ دیگر اسلامی ممالک نے بھی امداد فراہم کی۔ 1992 میں نواز شریف کے دور حکومت میں بیگم خالدہ ضیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کیمپوں میں مقیم تمام لوگوں کو پاکستان واپس لایا جائے گا۔

اس سلسلے میں 1992 میں 350 بہاریوں کو پاکستان لا کر پنجاب میں میان چنوں کے مقام پر آباد کیا گیا۔ لیکن لاکھوں پاکستانی اب بھی انسانی المیہ سے دوچار ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان ان لوگوں کو پاکستانی تسلیم کرنے تک سے انکاری ہے۔

پاکستان میں کتنے افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں؟

محصورین بنگلہ دیش کو واپس ملک میں لاکر بسانا کیا اتنا بڑا مسئلہ کہ ہم نے عالمی معاہدوں کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں؟

ایک جانب چار لاکھ سچے محب وطن دوسری جانب تقریباً 50 لاکھ غیر قانونی طور پر مقیم لوگ جن میں 90 فی صد افغانی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے پاس رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ جبکہ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ افغانی مستقل طور پر موجود ہیں جن کے نہ صرف خیبر سے کراچی تک کاروبار پھیلے ہوئے ہیں بلکہ ان کے پاس جعلی کاغذات کے ذریعے نادرا کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی موجود ہیں۔

افغان مہاجرین کو بجا طور پر جنرل ضیا کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے چار دہائی قبل پاکستانی انصار کو لاکھوں افغانیوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولنے کا کہا۔ جنرل ضیا کی بصیرت کو سلام جنہیں لاکھوں افغانیوں کو بسانے میں بھرپور منافع کی چمک نظر آئی۔ امریکی ڈالروں کی چمک سے نظریں خیرہ ہونے لگیں اور جھنکار سے کانوں میں مدھر موسیقی بجنے لگی لیکن ٹھیک اسی وقت ڈھائی لاکھ محصورین بنگلہ دیش کو پاکستان واپس لانے اور بسانے کے محض وعدے اور طفل تسلیوں سے کام چلایا جاتا رہا۔

محصورین بنگلہ دیش ایک آؤٹ آف فیشن ایشو

یہ وہ المیہ ہے جو ’آؤٹ آف فیشن‘ ہو چکا ہے جسے صحافتی زبان میں ’ڈیڈ ایشو‘ بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا ایک امہ کے دعوے لگانے والی مذہبی جماعتیں انہوں نے ان مظلوموں کا نام لینا بھی چھوڑ دیا۔ بقول مشہور صحافی حامد میر آج کل وہ میانمار، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے نام پر رقوم اکٹھی کرکے اپنا ایمان تازہ کر رہے ہیں۔ بہاری پاکستانی انہیں یاد نہ رہے کیونکہ اگر یہ پاکستان آ گئے تو ان کے نام پر اکٹھی کی گئی رقوم ان پر خرچ بھی کرنا پڑیں گی لہٰذا کوئی بھی جماعت اس گھاٹے کے ’کاروبار‘ میں ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ