بنوں کا ہزاروں سال پرانا ’یونانی شہر‘ تباہی کا شکار

آکرہ کے نام، یہاں سے ملنے والے سکوں اور دوسرے نوادر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک یونانی شہر تھا۔

دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آکرہ موسم کے رحم پر کرم پر ہے (روفان خان)

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں آکرہ نامی ہزاروں سال پرانے کھنڈرات حکومتی عدم توجہ کے باعث تباہی کا شکار ہو رہے ہیں جن کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت سے تعلق رکھتے ہیں جب یہاں پر یونانیوں کی حکومت تھی۔ 

محکمۂ آثارِ قدیمہ کی جانب سے بنوں شہر سے چند کلومیٹر جنوب میں واقع 133 ایکڑ زمین پر محیط اس تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی سہولیات فراہم کرنا تو درکنار، کھنڈرات کے گرد کوئی چار دیواری تک تعمیر نہیں کی گئی، جس کے باعث یہ غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔

آثارِ قدیمہ کے ماہر ولید گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آکرہ‘ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اونچی جگہ یا چوٹی کے ہیں۔ اس کے علاوہ آکرہ سے کچھ کتبے، بت، مہریں، سکے اور دوسرے نوادرات دریافت ہوئے ہیں اور صوبے کے کئی عجائب گھروں میں آج بھی موجود ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ آکرہ ایک یونانی شہر تھا۔

ولید گل کے بیان کو یوں تقویت ملتی ہے کہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ایک پہاڑی پر واقع قدیم شہر کا نام ’ایکرو پولس‘ ہے جس کا مطلب ’چوٹی پر قائم شہر‘ ہے اور یہاں ایکرو کا مطلب چوٹی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنوں عجائب گھر کے انچارج رحمن نواز خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آکرہ ہزاروں سال پرانا تاریخی مقام ہے اور یہاں ڈھائی ہزار سال پرانی ایرانی، یونانی اور ہندو تہذیبوں کے ملے جلے آثار پائے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آکرہ سے جو تاریخی نوادر دریافت ہوئے وہ بنوں کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔

رحمٰن نواز خٹک نے کہا کہ آکرہ کی زمین پر کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر مکانات تعمیر کیے تھے ان کے خلاف نوٹس لیا گیا اور 2017 میں تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے 31 غیر قانونی مکانات مسمار کر دیے گئے۔

آکرہ پر تحقیق کرنے والے معروف محقق فرید خان کی کتاب ’بنوں کا قدیم دارالحکومت آکرہ‘ کے مطابق یونانیوں سے پہلے بھی یہاں آبادی تھی اور اس کی تاریخ سکندرِ اعظم کے حملے سے قبل راج کرنے والی ہخامنشی سلطنت سے جا کر ملتی ہے، اور اس پرانے شہر کی تاریخ تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آکرہ قدیم زمانے میں پورے علاقے کا پایۂ تخت اور اہم تہذیبی مرکز تھا۔

آکرہ کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار مقرر ہے جس کے ذمے دن رات ان کھنڈرات پر نظر رکھنا ہے۔ یہاں سے جو کتبے، بت، مہریں، سکے اور دوسرے نوادرات دریافت ہوئے جو بنوں عجائب گھر سمیت ملک کے کئی عجائب گھروں میں آج بھی موجود ہیں ان نوادرات میں یونانی اور ہندو مت دونوں تہذیبوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔

کیا اس تاریخی ورثے کو سیاحت کا مرکز نہیں بنایا جا سکتا، جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے اسے محفوظ رکھا جا سکے؟

اس سوال کے جواب پر کمشنر بنوں ڈویژن شوکت یوسف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ بحیثیت کمشنر میں خود اس تاریخی مقام کا دورہ کروں گا اور اس کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کے لیے حتیٰ الوسع کوشش کروں گا۔

آکرہ کی چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاریخی مقام غیر محفوظ ہے یہ کھنڈرات آہستہ آہستہ لوگوں کے ہاتھوں ختم ہو رہے ہیں اگر جلد ہی اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ہم ہماری تہذیب کے ایک تاریخی خزانے سے محروم ہو جائیں گے۔

 اگر اس کے گرد چار دیواری بنا دی جائے تو ہم اس انمول تاریخی مقام کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ