اب تو وہ ٹرین بھی نہیں گزرتی

سندھ کے ویران ریلوے سٹیشن، آثارِ قدیمہ بنے ریلوے کوارٹرز اور زبوں حال پٹریاں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے اس علاقے کو دانستہ ریلوے نظام سے محروم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کا وسیع و عریض ریلوے نیٹ ورک اب خستہ حال ہو چکا ہے (MaltaGC: CC BY-SA 3.0)

ہمیں جب تفکرات زمانہ کی سدھ بدھ نہ تھی، جب ہم اپنے عہد بچپن میں تھے، تب ٹرین کے صرف ایک دیدار کے واسطے بڑوں کی دیوانہ وار منت سماجت کرتے۔

ٹرین کی میلوں دور سنائی دینے والی سیٹی سننے کو کان ہر وقت چوکس رہا کرتے، لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ شاید نئی نسل اس ٹرین کا تصور بھی نہ کرسکے۔
میں اکثر اوقات ٹرین کی پٹڑی کو دیکھتا تھا تو سوچ کے ایک لامتناہی سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا۔

سوچتا تھا، پوچھتا تھا، جاننے کی تگ و دو میں رہتا کہ یہ بنانے والوں نے بنائی کیسے، کب بنائی، کتنا وقت لگا ہوگا اسے بنانے میں، یہ کہاں ختم ہوتی ہے، کہیں اختتام پزیر بھی ہوتی ہوگی یا نہیں۔ اگر اسی پٹڑی پر ہم سیدھا سیدھا چلیں تو کیا ٹرین کے آخری سرے کو پہنچ پائیں گے۔
میں سوچتا تھا کہ تھر کی آگ اگلے صحراؤں کو یہ ٹرین کیسے عبور کرتی ہے، برف پوش علاقوں کو چیر کر کیسے آگے بڑھتی ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں کا سامنا کیسے کرتی ہے۔ ویران جگہوں سے اسے گزرتے ڈر نہیں لگتا، کہیں کسی بلا سے اس کا سامنا ہوجائے تو۔

ریلوے کے اب بوڑھے، کمزور اور ناتواں کھڑے کواٹروں کو جب میں دیکھتا ہوں، تو گویا ماضی سے دوبدو ہو جاتا ہوں۔

کسی زمانے میں ان کواٹروں میں بھی کوئی بابو لوگ لوگ رہتے ہوں گے جو اپنی ڈیوٹی کے وقت اپنے کواٹر کو تالا لگا کر جاتے ہوں گے۔

بارش، گرمی، سردی، آندھی، طوفان، ہر موسم اور ہر وقت یہ اپنا فریضہ بخوبی نبھاتے ہوں گے۔

جب بارش پڑے تب یہ منظر آنکھوں کے گرد گھیرا ڈال بیٹھ جاتا ہے کہ کوئی ریلوے ملازم اپنے کواٹر کو تالا لگا کر، جسم کو برسات سے ڈھانپ کر، ایک ہاتھ میں سر کے اوپر سے چھتری تھامے، دوسرے ہاتھ میں ٹارچ پکڑے، کیچڑ سے بچ بچاتا، اپنی ڈیوٹی پر وقت پر پہنچنے کے لیے جلدی میں جا رہا ہے۔ لیکن، یہ سب تصورات بھی اب گویا ماضی کا قصہ لگتے ہیں۔

یہ سوچ کر دل مغموم ہوجاتا ہے کہ اب تو نہ وہ ٹرین گزرتی ہے، نہ وہ سیٹی کانوں کو سرور بخشنے کے لیے بجتی ہے اور پٹڑیاں تو اکثر بدنظروں کی نظر ہو گئیں، باقی جو بچی کھچی ہیں وہ بھی ان کی آنکھوں میں اٹکی ہوئی ہیں۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے ریل کے سفر کو ہمیشہ خوبصورت سوچا اور سمجھا۔ ریل تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ڈبے کی کھڑکی میں سے تیزی سے کھیت کھلیاں گزرتے دکھائی دے رہے ہیں، کہیں کوئی مویشی چراگاہ میں بھوک مٹا رہا ہے، کہیں کسان کھیتوں میں اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے سپنے سجائے دکھائی دے رہا ہے، کہیں دریا، ندیاں، جھیلیں، ریلوے کی پٹڑیوں کے نیچے سے بہ رہی ہیں۔

 اس وقت اکثر ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم پانی کو چیر کر کسی نئی دنیا میں داخل ہو جائیں گے لیکن نئی نسل کے لیے اب یہ تخیلات بھی کہاں۔

اداس سٹیشن آج بھی یادوں کے دریچے میں کسی بیٹے، کسی دوست کو خدا حافظ کہنے اسے الوداع کرنے کی علامت کے طور پر محفوظ ہیں۔

یہ سٹیشن محض اداس اور ویران کوٹھیاں ہی نہیں، یہ اپنے آپ میں دور ماضی کی پوری داستانیں ہیں۔

ریلوے سٹیشنوں پر لگے بڑے بڑے نیم کے درخت بھی کسی شریف انسان کی بھوک کے بھینٹ چڑھ گئے۔ اب بچے کچھے درخت بھی مایوس ہیں، وہیں درخت کے سائے میں لگے چائے کے کھوکھے بھی اداس ہیں۔

کھوکھے پر ایک ریڈیو بجا کرتا تھا لیکن اب تو اس کی بھی آواز نہیں آتی، شاید زمانے اور لوگوں کے ستم میں وہ ریڈیو بھی مفقود ہو چکا۔

اسی کھوکھے پر سیاست، سماج اور فلموں، موسیقی اور ٹیلی ویژن پر بھی بات ہوا کرتی تھی لیکن وہ بات کرنے والے بھی اب وہاں نہیں آتے۔

ٹرین کی کھڑکی سے اشارہ دے کر اب تو کوئی چائے کا آرڈر بھی نہیں دیتا۔ اب کوئی قلی بھی تو نہیں دکھائی دیتا۔

درختوں کے سائے میں بالکل سٹیشن کی زبوں حال عمارت کے عین سامنے اب تو وہاں پتھر کی سلیں بھی نہیں۔

اب ٹرین کا وقت معلوم کرنے کے لیے بھی کوئی نہیں آتا۔ شاید اسی لیے کیونکہ اب تو ٹرین بھی گزرتی ہی نہیں۔

یہ تحریر لکھنے کا اتفاق کچھ ایسے ہوا کہ ہم نے گئے دن اکثر سفر سندھ میں نظام ریلوے کی بوسیدہ پٹری، کھنڈر نما سٹیشنوں کے پاس ہی سے کیا۔

یہ وہی ریلوے پٹریاں ہیں جس پر چلتی ہوئی ٹرینیں (بقول مقامی لوگوں کے) اکثر مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوتی تھیں۔

لیکن پھر حکومت نے بغیر وجہ بتائے اکثر 90 کی دہائی میں اور کچھ ابھی وبائی دنوں میں بند کر دیں جو تاحال بحال نہیں ہو سکیں اور لگتا تو یہی ہے کہ اب یہ ٹرین پھر سے کبھی بحال ہو گی بھی نہیں۔

ایک وجہ جو ہمارے نزدیک معقول دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ اکثر لوگ بغیر ٹکٹ خریدے ہی ان ٹرینوں میں دوڑ چڑھتے تھے، لیکن لوگوں کو ٹکٹ لینے پر آمادہ کرنا بھی تو انتظامیہ اور حکومت کا کام ہے۔

کیوں حکومت اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوئی، کیوں ان لوگوں کو سستے اور آسودہ سفر سے محروم کیا جا رہا ہے۔

سندھ کے ویران ریلوے سٹیشن، آثارِ قدیمہ بنے ریلوے کواٹرز اور زبوں حال پٹریاں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے اس علاقے کو دانستہ ریلوے نظام سے محروم کیا جا رہا ہے۔

ہمیں تو پرلطف زندگی جینے کے لیے محض گلزار کی نظمیں اور ٹرین کا سہانا سفر ہی درکار ہے، لیکن اب تو وہ ٹرین بھی نہیں گزرتی۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ