کرونا سے بے زار بوڑھا اداس ریلوے سٹیشن

آج میرے یہاں لگے برگد کی جٹائیں اور گھنی ہو چکی ہیں، میری گھڑیاں اب بھی ٹھیک وقت بتا رہی ہیں، میری جڑیں وہیں قائم ہیں، وہ سلیپر وہ پٹریاں سب وہیں دھوپ میں چمک رہے ہیں لیکن کوئی ٹرین کوئی مسافر، کوئی چیختا ہوا اعلان، کوئی وقت دیکھتی نگاہ، کچھ بھی نہیں ہے۔

(اے ایف پی)

میں ایک پرانا ریلوے سٹیشن ہوں۔ کتنا پرانا ہوں اس کا اندازہ میرے پلیٹ فارم پہ لگے برگد کی داڑھی سے لگایا جا سکتا ہے۔ پچاس ہزار سے کچھ اوپر دن پہلے جب میں بنا تھا تو یہ بہت چھوٹا تھا۔

اس کے پاس سنانے کے لیے کوئی کہانی بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہم دونوں ایک ساتھ بڑے ہوئے، اب ہم دونوں کے پاس بہت سی کہانیاں ہیں لیکن سننے والے ہم سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ہم دونوں ساکت ہیں۔ ایک جگہ کھڑے ہیں۔ اس کی جڑیں زمین میں ہیں اور میری تو بنیادیں بھی خیر اندر بہت دور تک اٹھائی گئی ہیں۔ اس کی داڑھی جب برساتوں کے بعد زیادہ گھنی ہوتی ہے تو کئی مرتبہ بچے لٹکنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ مجھے بھی یہ اعزاز تب ہی نصیب ہوتا ہے جب کبھی زوروں کا پانی پڑے اور میرے پرنالوں کے نیچے کچھ دیر کے لیے آس پڑوس کے بچے کھڑے ہو جائیں۔ ورنہ تو جو آتا ہے وہ اپنی جلدی میں ہوتا ہے۔ سب مسافر ہیں۔ میرا وجود ان کے لیے سنگ میل تو ہو سکتا ہے، منزل بہرحال نہیں۔

کئی مرتبہ ٹرینیں مجھ سے کہتی ہیں کہ وہ تھک گئی ہیں، وہ رکنا چاہتی ہیں۔ میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ تمہاری زندگی چلتے رہنا ہے، میری زندگی ایک ہی جگہ کھڑی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ ہو گیا، میں تو یہیں پہ ہوں۔ اگلی ایک صدی بھی میں کہیں نہیں جانے والا۔ تم کھڑی نہیں رہ سکو گی۔ تمہیں زنگ لگ جائے گا، تمہارا رنگ، روغن، سجاوٹ، سب برباد ہو جائیں گے۔ تمہاری برتھوں کا ریکزین موسم کی گرمی اور سردی برداشت نہیں کر سکے گا، وہ تڑخ جائے گا۔ تمہیں یہ سکوت کچھ دیر رہنے کو تو پسند آ سکتا ہے لیکن ہمیشہ اسی طرح کھڑے رہنا، مسافروں کو دیکھتے رہنا، وہ سب تم سے برداشت نہیں ہو گا۔ تم کیسے رک سکتی ہو؟ وہ جو دو ڈبے رکے تھے پچھلے سٹیشن پر، ان کا حال دیکھ لو۔

ابھی کل سگنل والا بتا رہا تھا کہ نہ انہیں کوئی کباڑیا اٹھاتا ہے اور نہ حکومت کسی کام میں لاتی ہے۔ ان کی وائرنگ ساری گل چکی ہے۔ ان کی چھتوں میں سوراخ ہو چکے ہیں۔ جس پٹری پہ وہ کھڑے ہیں اس پر بھی زنگ لگ چکا ہے۔ اور دیکھو، وہ کھڑے ہیں تو وہ دو علیحدہ ڈبے ہیں۔ وہ چل رہے ہوتے، وہ کھڑے نہ ہوتے، وہ کسی انجن کے پیچھے لگے ہوتے تو وہ بھی ٹرین کہلاتے۔ انہیں بہت سمجھایا تھا کہ تمہارا وجود الگ رہنے کے لیے نہیں بنا، تمہاری بقا اسی میں ہے کہ تم بس چلے جاؤ لیکن میری بات کو سنتا کون ہے۔ 

تمہیں میری زندگی بہت پسند آتی ہے۔ چھت سے دس فٹ نیچے لٹکتے بڑے بڑے پنکھے، لمبے بازوؤں والی آرام کرسیاں، لوہے کے چوڑے ستون اور ان پر پناہ گزین طویل شیلٹر، گول گھڑیاں جو کئی میٹر دور سے وقت دکھاتی ہیں، وہ وقت جو صرف مسافروں کے لیے اہم ہے، جس کے گزرنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کرسیاں، وہ پنکھے، وہ چھاؤں، وہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہاں مسافروں نے آنا ہے۔ میں خود یہاں ان کے ہونے سے ہوں۔ یہ دیوہیکل فولادی پل، یہ چیختے ہوئے اعلان، یہ آتی جاتی لمبی سیٹیاں، یہ سب کچھ میری وجہ سے نہیں ہے، میں ان کی وجہ سے ہوں۔

تم نے میرا وجود دیکھنا ہے تو میری اونچی دیواروں کو مت دیکھو، وہ کائی کے نشان دیکھو جو صدیوں کی بارش کے بعد وہاں بنے ہیں۔ مجھے دیکھنا ہے تو ان پلیٹ فارموں کے کنارے بنے وسیع آرام کمروں کی چھتوں پہ آؤ، دیکھو وہاں کئی جگہ بڑے بڑے پیپل اگے ہوئے ہیں، تم نے وہ کبھی نہیں دیکھے؟ وہ پیپل جو خود نہیں جانتے کہ وہاں کیوں ہیں، وہ میں ہوں۔ کسی پرندے نے کوئی بیج کہاں کھایا ہو گا، یہاں گرا دیا، وہ اگ آئے اور بس کھڑے ہیں۔ نہ کوئی ان کی چھاؤں کا طلب گار ہے نہ کسی کو ان کے وجود کا پتہ ہے، تو وہ میں ہوں۔ تم نے مجھے دیکھنا ہے تو یہ پٹریاں دیکھ لو۔ معلوم ہے یہ کتنے برس ہوئے یہیں موجود ہیں؟ انہیں شاید خود بھی یہ بات بھول چکی ہے۔ لیکن یہ کبھی آپس میں مل نہیں سکتیں۔

جہاں یہ ملی گئیں وہاں کراس ہے یا پھر موت ہے۔ تمہیں مجھ کو دیکھنا ہے تو ان لکڑی کے تختوں میں دیکھو جو پٹریوں کو ٹکانے کے لیے لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں سلیپر کہتے ہیں۔ یہ سلیپر اپنے سینے پہ لوہے کا وزن اٹھائے ہوئے ہیں، کتنی ٹرینیں ایک دن میں ان پر سے گزرتی ہیں لیکن یہ نہ ٹوٹتے ہیں، نہ اکھڑتے ہیں، نہ انہیں کیڑا لگتا ہے، بس کبھی کبھار دہائیوں بعد یہ تھک کر تڑخ جاتے ہیں۔ کتنی دھوپوں، کتنی بارشوں، کتنی آندھیوں، کتنے طوفانوں اور کتنی ٹرینوں کے گزر جانے پر یہ تڑخنے کو مجبور ہو جائیں، کوئی نہیں جانتا۔ جسے پھر بھی سمجھ نہیں آتی وہ دیکھ لے پچھلے سٹیشن والے دو ڈبے، جو اب ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔ جانے کس کام آئیں گے۔ 

ڈیڑھ صدی ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ کتنے دن؟ یہی پچاس ہزار دن سے کچھ اوپر، ایک ٹھہرے ہوئے وجود کے لیے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں۔ اتنے عرصے میں بدلا کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں، بس مسافروں کا لباس اور ان کی چال اور ان کے تیور بدل گئے تھے۔ پہلے وہ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں ہوتے تھے، دوپہر کی ٹرین لینے صبح سے آن کے بیٹھے ہوتے تھے، ان کی واحد گھڑی وہ ہوتی تھی جو ادھر شیلٹر کے نیچے ٹنگی ہوتی تھی۔ اب ان کے لباس آرام دہ نہیں ہوتے، وہ ٹرین چھوٹنے سے چند گھڑی پہلے آتے اور بار بار اس گھڑی کو دیکھتے رہتے جو ان کی کلائی پر بندھی ہوتی، وہ بھی شاید انہیں وقت پورا نہیں دکھا سکی تو انہوں نے ہاتھ میں اسے پکڑنا شروع کر دیا۔ پہلے وہ لوگ آپس میں بولتے چالتے تھے اب اس گھڑی سے باتیں کرنا شروع ہو گئے۔ پہلے صبح سے شام بھی ہو جاتی تو یہیں موج اڑاتے رہتے تھے اب وہ ٹکٹ بابو سے گھڑی گھڑی لڑتے تھے، پتہ نہیں وہ وقت ان کے لیے کتنا اہم تھا؟ 

آج میرے یہاں لگے برگد کی جٹائیں اور گھنی ہو چکی ہیں، میری گھڑیاں اب بھی ٹھیک وقت بتا رہی ہیں، میری جڑیں وہیں قائم ہیں، وہ سلیپر وہ پٹریاں سب وہیں دھوپ میں چمک رہے ہیں لیکن کوئی ٹرین کوئی مسافر، کوئی چیختا ہوا اعلان، کوئی وقت دیکھتی نگاہ، کچھ بھی نہیں ہے۔ ان پچاس ہزار سے کچھ اوپر دنوں کے بعد یہ سب کچھ کہہ دینے پہ آج میں اس لیے تلا بیٹھا ہوں کہ مجھے وقت ابھی ملا ہے۔ آج میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ شاید میں نے ٹرینوں کو غلط سبق دیا۔ انہوں نے بھی کبھی نہ کبھی کہیں تو کھڑے ہونا تھا۔ آج وہ بھی کھڑی ہیں، بس رکی ہوئی، کوئی منزل نہیں، کوئی سوار نہیں، کوئی وقت کی پابندی نہیں، بس جہاں ہیں وہیں ہیں۔ کون جانے دوبارہ کب روانہ ہوں۔ کیا اس دوران ان کا رنگ خراب ہو جائے گا، کیا ان کی سیٹیں گل جائیں گی، کیا ان کا حشر ویسا ہی ہو گا جیسے پچھلے سٹیشن پہ ان دو ڈبوں کا ہوا تھا؟ لیکن یہ سب میری وجہ سے تو نہیں ہو گا۔ مجھے یہ اطمینان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میری زندگی تو پہلے بھی ویسے ہی رکی ہوئی تھی جیسی اب ہے۔ یہ بوڑھا برگد بھی ویسے ہی گڑا ہوا ہے۔ اکیلے پن سے تنگ آ کر اس نے کل مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اسے نہیں سمجھا سکتا کہ یہی ٹھہراؤ، یہی خاموشی، یہی جمود، یہ سب ہمارا لازمی جزو ہے۔ ہم اس سے فرار نہیں ہو سکتے۔ مسافر آئیں، جائیں، ٹرینیں رکیں یا چلتی رہیں، موسم سخت تر ہوں یا مہربان، ہم بات نہیں کر سکتے، ہم سر اٹھائے چپ کھڑے رہنے کے لیے بنے تھے اور ہم اسی طرح آخری دموں تک قائم رہیں گے۔ اس برگد نے پتہ نہیں کل کیا کیا کچھ کہا، میں نے جواب تو خیر کیا دینا تھا لیکن ایک بات اس کی مجھے اندر تک اداس کر گئی۔ 

اس نے کہا تھا کہ یار، وہ جو بچے پہلی بار ہمیں دیکھ کے حیران ہوتے تھے، جو دلچسپی ان کی آنکھوں میں ہمارے لیے ہوتی تھی، وہ جو دیو ہیکل انجن پہ نظر پڑتے ہی باپ کی قمیصوں میں چھپ جاتے تھے، وہ جو ٹرین کے آنے جانے پہ خوشی سے ہاتھ ہلاتے تھے، کیا وہ بھی اب کبھی دوبارہ یہاں نہیں آئیں گے؟ 

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے، میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن یہ سوال میرے وجود میں اتر چکا ہے۔ شاید ہم دونوں کی واحد تفریح ان پچاس ہزار سے کچھ اوپر دنوں میں یہ ننھی سی، پریشان سی حیرت تھی، جسے نہ وہ برگد جانتا تھا، نہ میں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ