نائن الیون: سات سازشی نظریے جو 20 سال بعد بھی ختم نہ ہو سکے

نائن الیون کے دو عشروں بعد بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس واقعے میں کسی نہ کسی سازش کا پہلو نکال دیتے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی رپورٹ۔

15 ستمبر،2001  کی اس تصویر میں ایک فائر فائٹر اپنے دس ساتھیوں کو بلا رہا ہے (اے ایف پی)

2005 میں ایک دن میرا گزر ’گراؤنڈ زیرو‘ سے ہوا۔ نیویارک میں یہ وہ جگہ تھی جہاں چار سال قبل دو بادلوں کو چھوتے مینار کھڑے تھے، امریکہ کی معاشی ترقی کی دو سر اٹھائے، پرغرور علامتیں، جو اب نیویارک کی ’سکائی لائن‘ سے یوں غائب ہو گئی جیسے کسی بچے نے کچی پینسل سے بنی تصویر کا ایک حصہ ربڑ لے کر مٹا دی ہوں۔ 

ملبے کے اونچے نیچے ڈھیروں کے قریب کچھ لوگ ہاتھوں میں کتابچے، بروشر اور سی ڈیاں لے کر کھڑے رہے تھے، اور آتے جاتے کو یوں تقسیم کر رہے تھے جیسے کسی ریستوران کا مینیو بانٹ رہے ہیں۔

میں نے ایک رنگین بروشر کھول کر دیکھا تو اس میں تصویروں اور چارٹوں کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسے نائن الیون کے واقعات ایک عظیم سازش تھے اور ان کے پیچھے خود امریکہ کا ہاتھ تھا۔

ایک طرف ایک شخص بھونپو تھامے نہایت پرجوش تقریر کر رہا تھا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ہائی جیکر وائی جیکر کوئی نہیں تھے، یہ سارا واقعہ ’ان سائیڈ جاب‘ تھا اور کا مقصد امریکہ کا دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنا تھا۔

اس کے کچھ مہینوں بعد واشنگٹن میں ایک گھر میں دعوت کے موقعے پر مہمانوں کو ایک ڈی وی ڈی دکھائی گئی، جس میں یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی تھی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی ہے جس نے مسلمانوں پر الزام دھرنے کی کوشش کی ہے۔

بعد میں پتہ چلا کہ ان کتابچوں اور ڈی وی ڈیز کے علاوہ درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں، یو ٹیوب پر ہزاروں ویڈیوز اور انٹرنیٹ پر لاکھوں ویب سائٹس موجود ہیں جو پچھلے 20 سال سے مسلسل ان سازشی نظریات کا پرچار کر رہی ہیں۔

بظاہر تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سازشی نظریات کی شدت میں کمی آ جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد الٹا ان نظریات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس سلسلے میں بہت سے شواہد پیش کیے جاتے ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس واقعے کے پیچھے کوئی بہت بڑی سازش تھی۔

امریکی حکومت نے ایک دو جماعتی کمیشن بنایا جس میں دوسرے عملے کے علاوہ پانچ ڈیموکریٹ اور پانچ رپبلکن ارکانِ کانگریس شامل تھے۔

اس کمیشن کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے اور اس قانونی طور پر امریکی خفیہ اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری محکموں، سرکاری و غیر سرکاری ماہرین تک غیر محدود رسائی حاصل تھی۔

اس نے 20 ماہ کی مدت میں 25 لاکھ کاغذات پر مبنی دستاویزات کا جائزہ لیا، 12 سو سے زائد لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔ اس کے علاوہ متعدد امریکی محکموں، یونیورسٹیوں اور دوسرے ماہرین نے اس موضوع پر رپورٹیں جاری کیں۔

ہم ان مستند ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ ان سازشی نظریات میں کتنا دم ہے۔

1 اناڑی ہائی جیکروں نے اتنی مہارت سے جہاز ٹھیک ٹھیک نشانوں پر کیسے پہنچائے؟

چار ایسے پائلٹ جنہوں نے کبھی زندگی میں کمرشل جیٹ نہیں اڑایا، وہ کیسے اتنی مہارت سے انتہائی پیچیدہ کمرشل جیٹ جہاز چلا سکے وہ سینکڑوں میل بالکل درست ہدف تک پہنچ جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہر جہاز کو اغوا کرنے والے ہائی جیکروں کی ٹیم میں ایک ایک پائلٹ موجود تھا۔

ورلڈ ٹریڈ ٹاور نارتھ سے ٹکرانے والے جہاز کو محمد عطا اور ساؤتھ ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز کو مروان الشحی چلا رہے تھے۔ دونوں کے پاس کمرشل پائلٹ کا لائسنس تھا۔

سب سے تربیت یافتہ پائلٹ ہانی حنجور تھے جن کے ذمے سب سے مشکل کام یعنی پینٹاگان سے جہاز ٹکرانا تھا۔ ان کے پاس کمرشل اور پرائیویٹ دونوں لائسنس تھے۔

سب سے کم تربیت یافتہ پائلٹ زیاد جراح تھے، جن کے پاس صرف پرائیویٹ لائسنس تھا۔ وہ فلائیٹ 93 پر تھے جو پینسلوینیا کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گئی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پائلٹ کے لیے سب سے مشکل کام جہاز کو رن وے سے اوپر اٹھانا اور اسے لینڈ کروانا ہوتا ہے، فضا میں جہاز کو موڑنا یا اوپر نیچے کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔

جہاں تک درست ہدف تک پہنچنے کی بات ہے تو ہر جہاز میں جی پی ایس موجود ہوتا ہے۔

صرف کسی مقام کے کوارڈینیٹ دے دیے جائیں تو جہاز خود بخود اڑ کر اس جگہ تک پہنچ جاتا ہے۔

نائن الیون کے دن بھی پائلٹوں نے آٹومیٹک سسٹم کے ذریعے جہازوں کو ہدف کے قریب پہنچایا اور بالکل قریب جا کر مینوئل کنٹرول سنبھالا اور دیکھ کر جہازوں کو ٹکرا دیا۔

2 امریکی فضائیہ نے جہاز مار کیوں نہیں گرائے؟

کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے پاس آواز سے دگنا رفتار سے سفر کرنے والے جنگی جہاز موجود ہیں جو منٹوں میں کہیں بھی بھی پہنچ سکتے تھے اور کسی بھی جہاز کو راکٹ مار کر گرا سکتے تھے جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ کسی اہم عمارت کو نشانہ بنانے والے ہیں۔

دراصل مین لینڈ امریکہ پر اس سے پہلے تاریخ میں کبھی فضائی حملہ نہیں ہوا تھا اس لیے امریکی جنگی مشینری اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔

11 ستمبر کو پورے امریکہ میں صرف 14 جنگی طیارے اڑان بھرنے کے لیے تیار تھے، لیکن انہیں بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس قسم کی غیر معمولی صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے۔

دوسری طرف ہائی جیکروں نے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ جہازوں کے ٹرانسپونڈر یعنی ٹریکر بند کر دیے، جن کی وجہ سے ان کا سراغ لگانا انتہائی مشکل ہو گیا۔

پھر 11 ستمبر کی صبح امریکی فضا میں 45 سو طیارے اڑ رہے تھے۔ ان میں سے چار جہازوں کا پتہ چلانا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے سے زیادہ مشکل کام تھا۔

مزید یہ کہ کسی بھی لڑاکا طیارے کے پائلٹ کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مسافروں سے بھرے کسی جہاز کو مار گرائے۔

اس کا حتمی فیصلہ امریکی صدر جارج بش نے دن کے 10 بج کر 20 منٹ پر کیا، مگر اس وقت تک آخری جہاز کو گرے ہوئے 17 منٹ ہو چکے تھے۔ صدر بش نے بھی یہ فیصلہ اس غیر معمولی ہنگامی صورت میں کیا کہ امریکہ پر حملہ ہو گیا ہے۔

3 جہاز ٹکرانے سے اتنی بڑی عمارتیں کیسے گر گئیں؟

یہ سازشی نظریہ بھی بہت عام ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جیٹ جہاز کا ایندھن 12 سو ڈگری سیلسیئس پر جلتا ہے، جب کہ دونوں ٹاوروں میں جو سٹیل استعمال ہوا اس کے پگھلاؤ کا درجہ 15 سو ڈگری ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن نہیں کہ سٹیل پگھل سکے، جس کی وجہ سے ٹاور گر جائیں۔

آپ نے اگر مکھن کو توے پر گرم کیا ہو تو مشاہدہ کیا ہو گا کہ مکمل طور پر پگھلنے سے بہت پہلے مکھن کی ٹکیہ اپنا ٹھوس پن اور سختی کھو دیتی ہے۔

یہی حال سٹیل کا ہے، اس کے لیے سختی اور مضبوطی کھونے کے لیے پورے 1500 ڈگری ضروری نہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک ہزار ڈگری پر سٹیل کی 90 فیصد مضبوطی ختم ہو جاتی ہے۔

جب پہلا جہاز ٹاور سے ٹکرایا تو اس کی رفتار 700 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس نے عمارت کی چھ منزلوں میں چھید کر دیے۔

دوسرا جہاز ٹیڑھا ہو کر 840 کلومیٹر کی رفتار سے ٹکرایا جس سے آٹھ منزلیں تہس نہس ہو گئیں۔ اس وقت ٹاوروں سے ٹکرانے والے ہر جہاز میں تقریباً 37 ہزار لیٹر ایندھن موجود تھا۔

عمارتوں سے ٹکر کے بعد اس ایندھن میں آگ لگ گئی اور یہ سارا جلتا ہوا ایندھن بہہ کر عمارت کے وسطی حصے میں پہنچ گیا جہاں عمارت کو سہارا دینے والے سٹیل کے مرکزی ستون تھے۔

اس ایندھن نے سٹیل کو پگھلایا بےشک نہ ہو لیکن اسے موم کی طرح نرم ضرور کر دیا۔ پھر تباہ شدہ منزلوں کی وجہ سے اوپر سے عمارت کا بےپناہ بوجھ بڑھتا چلا گیا، اور رفتہ رفتہ پورا ڈھانچہ زمیں بوس ہو گیا۔

4 عمارت سے اٹھنے والے دھویں کے بادل تو بموں کی نشان دہی کرتے ہیں؟

اگر آپ نے عمارتوں کے زمیں بوس ہونے کی ویڈیو دیکھیں تو ان سے ابھرنے والے مرغولے تیزی سے پھیلتے ہیں جن سے تاثر ملتا ہے کہ شاید ان کے اندر بم پھٹ رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمارت زیادہ تر چھوٹے بڑے کمروں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے۔ ٹاورز کی اوپر کی منزلیں ڈھینے لگیں تو ان کا بوجھ نیچے والی منزلوں پر پڑا۔

جیسے جوس کے خالی ڈبے پر پاؤں رکھا جائے تو اس میں سے ہوا تیزی سے باہر نکلتی ہے، یہی حال نچلی منزلوں کا ہوا اور ان سے دھویں اور گرد کے مرغولے دھماکوں کی صورت میں باہر نکلنے لگے۔

5 درجنوں لوگوں نے جہازوں سے فون کالیں کیسے کر لیں؟

کہا جاتا ہے کہ جہاز اتنی بلندی پر پرواز کرتا ہے کہ اس کے اندر بیٹھے لوگوں کا زمین پر لگے فون ٹاورز کی مدد سے کال کرنا ممکن ہی نہیں، تو پھر درجنوں لوگوں نے اغوا شدہ جہازوں سے کالز کیسے کر لیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کمرشل جہاز زیادہ سے زیادہ 12 کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرتا ہے، جب کہ نائن الیون کو اغوا شدہ جہاز اس سے کہیں کم فاصلے پر اڑ رہے تھے۔

موبائل فون ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق جہاز سے فون کال کی کوالٹی ضرور خراب ہوتی ہے، اور کال بار بار ڈراپ بھی ہو سکتی ہے، لیکن جہاز سے فون کال ناممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف فلائیٹ 93 سے 36 کے قریب فون کالز کی گئیں۔

6 ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کوئی یہودی ہلاک نہیں ہوا

یہ خبر سب سے پہلے 18 ستمبر کو ایک لبنانی ٹی وی چینل ’المنار‘ نے نشر کی تھی کہ نائن الیون کے پیچھے دراصل اسرائیل کا ہاتھ تھا جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودیوں کو پہلے سے خبردار کر دیا تھا کہ وہ 11 ستمبر کو چھٹی کر لیں۔

المنار نے کوئی حوالہ، کوئی ثبوت یا دلیل کے بغیر یہ خبر نشر کی تھی لیکن اسے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور بہت سے لوگ آج تک اس پر یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ اس واقعے کے نو سال بعد سابق ایرانی صدر احمد نژاد نے بھی یہی بات دہرائی۔

امریکہ میں شہریوں کا مذہبی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا، البتہ ٹریڈ سینٹر میں کام کرنے والی ایک کمپنی کینٹر فٹزجیرلڈ‘ نے اپنے ہلاک ہونے والے 390 ملازموں کی ماتمی سروس منعقد کی جن میں سے 49 یہودی تھے۔

اس کی شرح 12 فیصد کے قریب بنتی ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے میڈیکل ایگزایمنر کے دفتر سے جو معلومات حاصل کیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ٹاوروں میں 400 کے لگ بھگ یہودی ہلاک ہوئے۔

7 پینٹاگون سے جہاز نہیں، میزائل ٹکرایا تھا

فرانسیسی صحافی تیئری میساں کی مشہور کتاب ’نائن الیون: بڑا جھوٹ‘ (9/11: Big Lie) میں دعویٰ کیا گیا کہ پینٹاگان سے جہاز نہیں ٹکرایا، بلکہ اسے میزائل نے نشانہ بنایا تھا۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جہاز کی لمبائی اور چوڑائی 125 فٹ اور 155 فٹ تھی، جب کہ پینٹاگان کی دیواروں میں ہونے والا سوراخ صرف 60 فٹ چوڑا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلی بات تو یہ ہے کہ سینکڑوں لوگوں نے جہاز کو عمارت سے ٹکراتے دیکھا، بلکہ یہ تک شناخت کیا کہ یہ امریکن ایئرلائن کا جہاز ہے۔

پھر جائے وقوعہ سے طیارے کا بلیک باکس، لینڈنگ گیئر، ٹائر، مسافروں کی باقیات اور ہزاروں دوسری چیزیں ملیں، بلکہ بہت سے مسافروں کی باقیات کی ڈی این اے کی مدد سے شناخت بھی کی گئی۔ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاز ہی ٹکرایا تھا۔

یہ تو رہے سازشی نظریات جن میں ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسامہ بن لادن کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

لیکن خود اسامہ بن لادن کے ساتھیوں نے نائن الیون سے پہلے اور اسامہ بن لادن نے نائن الیون کے بعد اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، اس کی کوئی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ ویڈیو دیکھیے جس میں اسامہ بن لادن بڑی تفصیل سے بتا رہے ہیں کہ انہوں نے نائن الیون کا حملہ کیوں کیا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ لوگ ان سازشی نظریات پر کیوں فوراً ایمان لے آتے ہیں، بلکہ زور و شور سے ان کا پرچار بھی شروع کر دیتے ہیں؟

اس کی وجوہات یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10