جب ہیروئن بننے کے خیال سے جیا بہادری سے چائے گر گئی

دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم ’گڈی‘ میں جیا بہادری کے ہیرو کے لیے پہلے امیتابھ بچن کا ہی انتخاب ہوا تھا اورفلم کی ریلیز کے صرف دو سال بعد 1973 میں دونوں کی شادی ہو گئی۔

یہ فلم اس قدر مقبول ثابت ہوئی کہ بعد میں اسے تمل زبان میں بنایا گیا (سپی فلمز)

ہدایت کار ہری کیش مکھرجی کی میز پر بے شمار لڑکیوں کی تصاویر پھیلی ہوئی تھیں، سمجھ نہیں آ رہا تھا کس لڑکی کو اپنی فلم ’گڈی‘ کی ہیروئن منتخب کریں۔

انہی تصاویر میں 13برس کی ڈمپل کپاڈیہ کی بھی تصویر تھی، جن کی سفارش ایک پروڈیوسر نے نغمہ نگار اور رائٹر گلزار سے کرائی تھی۔

مگر ہری کیش مکھرجی کے ذہن میں اپنی ’گڈی‘ کا جو خاکہ بنا ہوا تھا، اُس سے کوسوں دور ڈمپل کپاڈیہ تھیں۔

دراصل ہری کیش مکھرجی، جن کی فلم کی کہانی گلزار نے لکھی تھی اس میں ایک ایسی سکول طالبہ کی کہانی تھی، جو فلموں کی شوقین ہوتی ہے۔

اسی دوران دھرمیندر کے پیار میں گرفتار ہوجاتی ہے اور  یہ تصور کر بیٹھی ہوتی ہے کہ پردہ سیمیں پر نظر آنے والا ہیرو حقیقی زندگی میں بھی ہیرو ہوتا ہے۔

اب اسی فلمی  خمار میں جہاں اُس کی توجہ پڑھائی سے ہٹتی ہے، وہیں وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد آنے والے رشتوں کو بھی ٹھکراتی چلی جاتی ہے بلکہ ضد پکڑے بیٹھی ہوتی ہے کہ بیاہ رچائے گی تو دھرمیندر سے ہی۔

ہدایت کار ہری کیش مکھرجی نے درحقیقت یہ فلم ان کم سن لڑکیوں کو ذہن میں رکھ کر بنانے کا ارادہ کیا تھا، جو من ہی من میں کسی نہ کسی ہیرو کو اپنی دنیا کا راجکمار بنا بیٹھتی ہیں، کچھ تو اسی تصوراتی دنیا میں قید رہتی ہیں۔

کچھ آئیڈل سے ملنے کی فراق میں گھروں سے راہ فرار اختیار کرتی ہیں۔ کچھ اپنے شریک سفر میں اپنے محبوب ہیرو کی خوبیاں دیکھنا چاہتی ہیں۔

ہدایت کار ہری کیش مکھرجی لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھنے والی لڑکیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ جو پردے پر نظر آتا ہے، وہ دراصل صرف ڈراما ہوتا ہے،اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

اب انہیں ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھے جو معصوم ہو، جسے دیکھتے ہی یہ محسوس ہو کہ وہ واقعی اس کردار کے لیے بنی ہے۔

ایک دن بیٹھے بٹھائے اُنہیں ہدایتکار ستیہ جیت رائے کی1963میں آئی  بنگالی زبان کی فلم ’مہانگر‘ کا خیال آیا، جس میں ایک بھولی بھالی کم سن لڑکی نے ہیرو کی بہن کا کردار ادا کیا تھا۔

کوئی 14یا 15سال کی لڑکی ہوگی، جس کے چہرے کی معصومیت ہری کیش مکھرجی بھول نہیں پائے تھے۔ اب اس لڑکی جسے جیا بہادری کہا جاتا تھا۔

اُس کی تلاش شروع ہوئی تو پتا چلا کہ وہ پونا کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں اداکاری کی تربیت حاصل کررہی ہے۔

فیصلہ ہوا کہ کیوں ناں چل کر اِس لڑکی سے ملا جائے اور یوں ہری کیش مکھرجی اور گلزار صاحب کا سفر ممبئی سے پونا کی طرف شروع ہوا۔

اِدھر جیا بہادری ان سب باتوں سے انجان اداکاری کی تربیت حاصل کرنے میں مگن تھیں۔ ستیہ جیت رائے کی فلم ’مہانگر‘ میں وہ اداکاری کرنا نہیں چاہتی تھیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں اداکاری سے چڑ تھی تو غلط بھی نہ ہوگا۔

جیا بہادری کے والد صاحب، ستیہ جیت رائے کے حلقہ احباب میں شامل تھے، جن کے اصرار پرجیا بہادری نے بنگالی زبان کی فلم میں زبردستی کام کیا۔

خود کو پہلی بار بڑے پردے پر دیکھنے کے بعد اُن کے اندر اداکاری کا شوق اور زیادہ بڑھا اور جب اُنہیں معلوم ہوا کہ پونا میں اداکاری سکھانے کا انسٹی ٹیوٹ ہے تو جھٹ پٹ وہاں داخلہ بھی لے لیا۔

کئی نوآموز اداکاروں کی طرح وہ بھی سپنے دیکھتی تھیں کہ ایک دن بھارتی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ بن کر دکھائیں گی لیکن کیا جانتی تھیں کہ قسمت اُن کے در پر دستک بس دینے والی ہے۔

پونا انسٹی ٹیوٹ کے کیفے میں جیا بہادری، ڈینی اور انیل دھوان چائے پیتے ہوئے ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک  اسرانی ہانپتے کاپنتے بھاگتے ہوئے آئے اور آتے ہی بولے کہ جیا، رشی دا آئے ہیں، تم سے ملنے۔

جیا بہادری جو چائے کی چسکی لینے والی تھیں، یہ سن کر کہ اُن سے ملنے رشی کیش مکھرجی آئے ہیں، ایسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوئیں کہ پیالی اُن کے ہاتھ سے چھٹی اور زمین پر چھناک کی آواز کے ساتھ اس کے  دو ٹکڑے ہوگئے کیونکہ وہ بخوبی رشی کیش مکھرجی سے واقف تھیں اور اُن کی بیشتر فلمیں دیکھ چکی تھیں۔

جانتی تھیں کہ اگر وہ یہاں آئے ہیں تو کسی نہ کسی فلم کی پیش کش بھی ساتھ ہوگی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُنہوں نے باہر کی جانب دوڑ لگادی۔ جن کے پیچھے پیچھے اسرانی بھی تھے۔

پونا کے انسٹی ٹیوٹ کے سبزہ زار میں گلزار صاحب اور رشی کیش مکھرجی، جیا بہادری کا انتظار کررہے تھے۔ جو اچانک نمودار ہوئیں، جنہیں ایک دم دیکھنے کے بعد رشی کیش مکھرجی کو لگا کہ جس لڑکی کو انہوں نے 15سال کی عمر میں دیکھا تھا، وہ توبڑی ہوچکی ہے، ملاقات کے دوران روایتی ہدایت کاروں کی طرح جیا بہادری کو کہہ دیا کہ اُن کاآڈیشن ہوگا۔

جس میں کامیاب ہوگئیں تو یہ کردار اُن کا۔ جیا بہادری جو تجسس، جوش اورفرط جذبات سے پھولی نہیں سما رہی تھیں۔

رشی کیش مکھرجی کی اس پیش کش پر جیسے ان کے لبوں سے الفاظ کھو سے گئے تھے۔ رشی کیش مکھرجی بمبئی آنے کا کہہ کر اسی پروقار انداز سے گلزار صاحب کے ساتھ رخصت ہوگئے۔

اب پورے پونا انسٹی ٹیوٹ میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ جیا بہادری رشی کیش مکھرجی کی فلم کی ہیروئن بننے والی ہیں۔

اس ساری ملاقات کا ایک اور شخص کو فائدہ ہوا اور وہ تھے اسرانی، جنہوں نے گلزار صاحب سے سفارش کی کہ اُنہیں بھی کسی طرح اس فلم میں شامل کرادیا جائے لیکن گلزار صاحب نے یہی کہا کہ اُن کا نام لیے بغیر رشی کیش مکھرجی سے معلوم کرو کہ کوئی کردار اُن کے لیے بھی ہے تو شاید اُن کی بات بن جائے۔

اسرانی، رشی کیش مکھرجی کے ایسے ’کمبل‘ ہوئے کہ انہوں نے اُنہیں بھی بمبئی آنے کا حکم دیا۔

طے شدہ دن پر جیا بہادری، رشی کیش مکھرجی کو آڈیشن دینے پہنچیں تو انہوں نے ایسے پراعتماد اور فطری انداز میں مکالمات ادا کیے کہ رشی کیش مکھرجی کی ہیروئن کی تلاش آسان کردی۔

فلم کی عکس بندی کا آغاز ہوا تو جیا بہادری اپنی تمام تر اداکاری کی تربیت کو بروئے کار لائیں۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ جیا بہادری کے ہیرو کے لیے پہلے امیتابھ بچن کا ہی انتخاب ہوا تھا لیکن اسی دوران رشی کیش مکھرجی کی ’آنند‘ کے ذریعے امیتابھ بچن بھی مقبول ہوگئے تھے۔

اسی لیے رشی کیش نے سوچا کہ کوئی نیا ہیرو متعارف کرایا جائے، جبھی سمیت بھانجا کو موقع دیا گیا۔

درحقیقت ’گڈی‘ بھارتی فلموں کی ایسی فلم رہی، جس میں کئی بڑے سٹارز مہمان اداکار کے طور پر نظر آئے۔

اِن میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن، پران، راجیش کھنہ، ونود کھنہ، شترو گھن سنہا، اشوک کمار، مالا سنہا، نوین نچل کے نام نمایاں ہیں اور ایسا  یوں ہوا جب ’گڈی‘ فلموں کے سحر میں گرفتار ہو کر عکس بندی دیکھنے جاتی ہے تو مختلف اداکاروں سے سیٹ پر ملتی ہے۔

’گڈی‘ کے خوابوں کے آئیڈل دھرمیندر ہی انہیں باور کراتے ہیں کہ جو کچھ پردے پر دکھایا جاتا ہے وہ صرف ایک فریب ہے۔ اصل حقیقت تو زندگی ہے، جہاں رشتے ہیں، اپنوں کے دکھ و در د ہیں اور سچی محبت بھی۔

فلم نگری میں جو برا دکھایا جاتا ہے، وہ اصلی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا اور جو اچھا، اُس کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ فلم نگری کی تلخ سچائی جاننے کے بعد ’گڈی‘ کی سوچ بدلنے لگتی ہے اور پھر جو اُس کی زندگی کا اصل ہیرو ہوتا ہے، وہی سب کچھ بن جاتا ہے۔

ہری کیش مکھرجی نے انتہائی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ ایک بامقصد پیغام فلم بینوں کو دیا۔ جس پر پذیرائی بھی ملی۔ جیا بہادری کی اداکاری عروج پر رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 ستمبر، 1971کو جب ’گڈی‘ نمائش پذیر ہوئی تو جیسے اِس نے جیا بہادری کی قسمت ہی بدل دی۔ساتھ ساتھ اسرانی کی بھی جنہیں حسب وعدہ چھوٹا سا کردار ملا، جس میں انہوں نے جی جان سے اداکاری دکھائی۔

جیا بہادری کو ’گڈی‘ میں اس قدر غیر معمولی اداکاری دکھانے پر بہترین اداکارہ کی نامزدگی بھی ملی۔ اس فلم کے بعدجیا بہادری نے رشی کیش مکھرجی کی باورچی، ابھیمان اورملی میں بھی کام کیا۔جبکہ دیگرہدایتکاروں کی فلموں میں بھی وہ نظر آئیں۔

’گڈی‘ کی ریلیز کے صرف دو سال بعد دو جون 1973کوجیا بہادری نے امیتابھ بچن کے ساتھ بیاہ رچا لیا۔

رشی کیش مکھرجی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جب اُنہوں نے پہلی بار پونا میں جیا بہادری کو دیکھا تھا، انہوں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ ’گڈی‘ کے لیے جیا بہادری سے بہتر کوئی اور اداکارہ نہیں ہوسکتی۔

اگر وہ آڈیشن میں ناکام بھی ہوجاتیں تو وہ پھر سے اُن کا آڈیشن لیتے کیونکہ اُن میں وہ معصومیت، بھولپن اور نزاکت تھی جو ’گڈی‘ کی ہیروئن کے لیے درکار تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم